کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ممتاز سیاستدان بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ پرویز مشرف مجھے وکلاء تحریک کے دوران وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے، آصف زرداری کا رابطہ اب تک نواز شریف کے ساتھ نہیں ہوا ہے،عمران خان کے ساتھ دھرنے میں شرکت کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔آصف زرداری اورمولانا فضل الرحمن کی دوستی یقیناً ہے لیکن اس دوستی سے پاناما پیپرز کے معاملے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔میزبان سلیم صافی کے مختلف سوالوں کے جواب میں بیرسٹرچوہدری اعتزازاحسن نے کہا کہ نہ جمہوریت جارہی اور نہ حکومت جارہی ہے اور نہ فوج آنے والی ہے، میاں نواز شریف اپنے بہت سارے آئینی اور جمہوری اختیارات سے دستبردار ہوچکے ہیں ، خارجہ امور ، سیکورٹی پالیسی، لا ء اینڈ آرڈر پالیسی ، انڈیا، چین ،افغانستان اور امریکہ سے متعلق پالیسیوں پر میاں نواز شریف سرنڈر کرچکے ہیں تو اس وقت کسی کو آنے کی ضرورت نہیں ہے ، میاں نواز شریف اپنے پاؤں پر کلہاڑی مانے کے لیے ماہر ہیں ، اس میں فوج کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے ۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی ٹیم میں بنیادی طور پر متکبر اور جارحانہ لوگ شامل ہیں ، میاں نواز شریف اپنی ٹیم سے قدرے بہتر ہیں ۔ سلیم صافی کے سوال کہ جس طرح چوہدری نثار نواز شریف کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اسی طرح آپ بھی آصف زرداری کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی پالیسی بلاول بھٹو بنا رہے ہیں ،بلاول بھٹو اور آصف زرداری پالیسی معاملات میں ایک صفحے پر ہیں ۔ اسکرپٹ رائٹر سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا اسکرپٹ رائٹر سے کبھی زندگی میں کوئی تعلق نہیں رہا ہے، چاہے وہ جی ایچ کیو ہو یا آئی ایس آئی ، میں نے ہمیشہ ان کی مزاحمت کی ہے ، پرویز مشرف مجھے وکلاء تحریک کے دوران وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے ۔ دھرنوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ جب2014ء میں دھرنے ہوئے تو اس وقت حقیقتاً میری رائے یہ تھی کہ دھرنے کا طریقہ اور ماحول اور اٹیک کردینا یہ جمہوریت اور آئین کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے ، اُس وقت دھرنا دینے والے غلط تھے لیکن آج میاں نواز شریف اس بات پر مزاحمت کرکے کہ ان کے خلاف انکوائری نہ ہو جمہوریت کو ڈی گریڈ کررہے ہیں ، وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر سے مزید اور سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ٹی او آرز بننے میں تاخیر ہورہی ہے تو یہ میاں نواز شریف کے لیے اطمینان کا باعث نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس سے ان کو اور نقصان ہوگا ، شریف خاندان فلیٹس کی خریداری کے معاملے پر جھوٹ بول رہا ہے ۔ سلیم صافی کا سوال کہ اگر بلا امتیاز احتساب ہوتو آصف زرداری بھی اس کی زد میں آئیں گے؟ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آصف زردری مقدمات بھگت چکے ہیں اور ان مقدمات پر ان کی بریت بھی ہوچکی ہے تو ان کا اب دو دفعہ تو احتساب نہیں ہوسکتا ، سب سے پہلے وزیر اعظم اور بعد میں باقی سب کا احتساب ہونا چاہئے ، حکومت 1947ء سے احتساب کا مطالبہ کرکے پاناما پیپرز کا معاملہ پس پشت ڈالنا چاہتی ہے جبکہ ہمارا یہ کہنا ہے کہ پاناما پیپرز کے معاملے پر فوکس کرنا چاہئے ، پاناما پیپرز کی سازش نہ توکسی سیاسی جماعت نے کی ہے اورنہ آئی ایس آئی اور نہ جی ایچ کیو نے ، جس طرح صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ یہ بلا آسمان سے گری ہے ، مشترکہ اپوزیشن کا موقف اپنی جگہ مگر میں ذاتی طور پر اتفاق کرتا ہوں کہ سب ارکان پارلیمنٹ کی تحقیقات ہوں۔ بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کے متعلق ایک الگ کمیشن بنانا چاہئے کیونکہ موجود ہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے ہزاروں پاکستانیوں نے بیرون ملک جائیدادیں خریدی ہیں ، اگر کسی نے اپنے نام سے کوئی جائیداد بیرون ملک خریدی ہے اور وہ اس جائیداد کی وضاحت نہ دے سکتا ہو تو اس کی تحقیقات نیب یا ایف بی آر کے حوالے کی جاسکتی ہیں ، اگر نیب فعال ہوتا تو اب تک حسین اور مریم نواز کو طلب کرچکا ہوتا ۔ سپریم کورٹ کے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے فیصلے سے آج بھی اختلاف رکھتا ہوں ، اگر سپریم کورٹ اپنے ملک کے وزیر اعظم کو سوئس حکومت کے ایک مجسٹریٹ کے سامنے سرنگوں ہونے کا کہے تو میں اس سے اختلاف کروں گا ، عدالت کا سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا گھر بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا، این آر او سے متعلق میرے خیالات محترمہ بے نظیر بھٹو کو معلوم تھے ۔ بلاول بھٹو کا وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا آصف زرداری کا بھی مطالبہ ہے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کا وزیر اعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ پوری پاکستان پیپلزپارٹی کا مطالبہ ہے ، مشترکہ اپوزیشن میں اتفاق رائے کے لیے استعفے کے مطالبے میں تبدیلی لائی گئی کیونکہ اپوزیشن کی جو جماعتیں وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے پر متفق نہیں تھیں اس لیے اپوزیشن میں اتفاق رائے قائم رکھنے کے لیے اپوزیشن نے اپنے ٹی او آرز میں تبدیلی کی۔