میں عموماً تعلیمی اداروں کی دعوت پر ان کی مختلف تقاریب میں شرکت کرتا رہتا ہوں خاص طور پر چھوٹے اور سرکاری اسکولوں میں جہا ں برائے نام اسکولوں کی عمارتیں ہوتی ہیں، سیکڑوں بچوں کے لئے چند استاد ہوتے ہیں ، عموماً بچے کرسیوں کی بجائے نیچے بیٹھے ہوتے ہیں، کارٹونوں اور رنگوں سے سجے اسکول بیگز کی بجائے کپڑے میں کتابیں لپیٹ کر یہ بچے اسکول آتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں سہولتوں سے محروم اور نامساعد حالات میں تعلیم حاصل کرنے والے یہ بچے مجھے زندگی سے بھرپور نظر آتے ہیں ، تفریح (ہاف ٹائم) کے وقت یہ بچے بھاگتے دوڑتے بہت اچھے لگ رہے ہوتے ہیں، انکے اسکولوں میں کوئی کنٹین نہیں ہوتی، اس لئے جن بچوں کے پاس چند روپے ہوتے ہیں وہ اسکول کے باہر مختلف خوانچہ فروشوں کے اردگرد اکٹھے ہوتے ہیں، مجھے بدنظمی اور شوروغوغا ہمیشہ ناپسند رہا ہے لیکن اسکول کے باہر جب یہ بچے اونچی اونچی آواز میں خوانچہ فروش کو کہہ رہے ہوتے ہیں پہلے مجھے 5 روپے والا گولا گنڈا (برف کا گولا) دیں، وہ اچھل اچھل کر اور شور مچا مچا کر پہلے اپنی پسند کی چیز حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن مجھے یہ رونق اور بچوں کا اصرار بہت اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ان اسکولوں کی دوسری بات مجھے اسکول کے درخت کے ساتھ لگی گھنٹی اور اس کو بجانے والا بھی اچھا لگتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جب یہ گھنٹی بجے تو میں بھی اپنا بستہ (اسکول بیگ) اٹھا کر بھاگنے والے بچوں میں شامل ہو جاؤں۔
ایسے ہی ایک مضافاتی علاقے کے اسکول کی انتظامیہ نے مجھے بطور مہمان خصوصی اپنے اسکول بلایا، مجھے اس اسکول جاکر خوشی ہوئی کہ بچوں کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں میز بھی تھے اور بچوں نے صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے تھے، میں جیسے ہی گاڑی سے اترا، بچوں نے مجھ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنا شروع کردیں، ظاہر ہے یہ میری عزت افزائی تھی لیکن مجھے استقبال کے دوران اس طرح پتیاں پھینکنا بہت برا لگتا ہے، اسکے بعد گلے میں ایک ہار ڈالا گیا۔ میں ایک کارپٹ پر قدم رکھتا ہوا ڈائس پر پہنچا جہاں درمیان میں مجھے قدرے اونچی کرسی پر بٹھا دیا گیا، میں نے ہار اتار کر ٹیبل پر رکھنا چاہا تو تصویریں بناتا ہوا فوٹوگرافر اس زور سے دھاڑا کہ میں سہم سا گیا وہ دوڑا میرے قریب آیا اور کہنے لگا سرجی ہار پہن لیں میں ابھی تصویریں بنا رہا ہوں اور یوں فوٹو گرافر نے وہ ہار دوبارہ میرے گلے میں پہنا دیا، پرنسپل صاحب نے خطبہ استقبالیہ دیا اور اپنے اسکول اور اساتذہ کے بارے بہت کچھ بتایا اور میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے، پرنسپل صاحب کی گفتگو اور عمر دیکھ کر مجھے بڑی شرم محسوس ہو رہی تھی کہ میں ٹانگیں لٹکا کے ان سے اونچی کرسی پر بیٹھا ہوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ دیگر تقاریب میں پھولوں کی پتیاں، ریڈ کارپٹ اور اونچی کرسی مجھے سخت ناپسند ہے، مجھے پھولوں کی اس طرح بے حرمتی بہت دکھ دیتی ہے اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی تقریر میں اسکا ذکر کر ہی ڈالا۔ چائے کے بعد فارغ ہوکر واپسی کے دوران میں بچوں کی ایک کلاس میں گھس گیا ، ایک بچے کی ٹیبل پر پڑی اسکی کاپی اٹھا لی، میں نے اس سے دو عام سے سوالات کئے جو اس بچے کو معلوم نہیں تھے، جب میں نے بچے کی کاپی کھولی تو اس میں واحد جمع اور مذکر مونث کی خالی جگہ پر کرائی گئی تھی اور یہ بھی عام سے الفاظ تھے۔ بچہ جو میرے سامنے کھڑا تھا میں نے اس سے پوچھا پاکستان کا دارالحکومت کا نام کیا ہے، بچے نے ڈرتے ہوئے بتایا اسلام آباد، میں نے بچے سے پوچھا اسلام آباد دیکھا ہے ، بچے نے نفی میں سرہلا دیا، میں نے بچے سے پوچھا اگر اسلام آباد جاؤ گے تو کیا دیکھنا چاہو گے بچے نے فوراً کہا چڑیا گھر حالانکہ میں بچے کی عمر اور کلاس دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا بچہ کہے گا پارلیمنٹ ہاؤس ، ایوان صدر ، وزیراعظم ہاؤس یا وزیراعظم سیکرٹریٹ، میں نے دوبارہ بچے سے سوال کیا کہ اور کیا دیکھنا چاہو گے تو بچے نے بڑا عجیب جواب دیا اس نے کہاکہ میں سکندر کی سڑک پر فائرنگ والا واقعہ دیکھنا چاہتا ہوں، میرے ساتھ کھڑے دوسرے اساتذہ نے بھی قہقہہ لگایا اور میں واپسی پر سارے راستے سوچتا آیا کہ یہ کس کا قصور ہے ، ہمارے بچے کس طرف جارہے ہیں، ہم جب اسکولوں میں پڑھتے تھے تو ہمیں اسکول کی طرف سے واحد حکومتی چینل سمیت بڑے بڑے اداروں کی سیر کرائی گئی تھی اور جب میں نے چینل کی وہ جگہ دیکھی جہاں بیٹھ کر نیوز کاسٹرز خبریں پڑھا کرتے تھے تو میری خواہش ہوئی کہ میں گھر جاکر اب ہر خبرنامہ سنا کروں، اس طرح پارلیمنٹ ہاؤس کے دورے سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں حکومت سے کہنا چاہوں گا کہ وہ بچوں کے لئے اس قسم کے مطالعاتی دورے بھی رکھا کرے، تاکہ بچپن سے ہی بچوں کو اپنے نظام حکومت اور ان کی کارکردگی سے واقفیت ہو۔ انہیں اپنے حقوق کا پتہ چلے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوکہ ان کے والدین کے پاس کتنی بڑی طاقت ہے ،جو مستقبل میں ان بچوں کو بھی حاصل ہونی ہے، ووٹ کی طاقت …!