• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے سرمائی اولمپک مقابلوں کے موقع پر حکومتِ چین کی خصوصی دعوت پر چار روزہ دورہ چین کے دوران گزشتہ روز چین کے معروف تھنک ٹینکوں، یونیورسٹیوں اور پاکستان اسٹڈیز سنٹرز کے سربراہوں اور نمائندوں پر مشتمل خصوصی اجلاس سے اپنے خطاب میں بھارت کے جارحانہ رویے اور ہندوتوا نظریے کو علاقائی امن کے لیے بجا طور پر سنجیدہ خطرہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو جموں و کشمیر پر بھارت کے ناجائز تسلط اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف مؤثر اقدام کی ضرورت پر توجہ دلا کر ایک ایسے معاملے کو اجاگر کیا ہے، اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق جس کا منصفانہ حل پوری بین الاقوامی برادری کی ذمے داری ہے۔ یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیراعظم کا عالمی برادری کو یہ انتباہ کہ اگر بھارت کو کشمیر یوں کی مسلسل حق تلفی اور نسل پرستانہ نظریے کے فروغ سے روکا نہ گیا تو پورا خطہ انتشار کا شکار ہو جائے گا جس کے شدید منفی اثرات عالمی امن پر بھی لازماً مرتب ہوں گے، مہذب دنیا کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ تاہم مسئلہ کشمیر کا سات دہائیوں سے زائد مدت گزر جانے کے بعد بھی حل نہ ہونا، اس کے براہِ راست فریق کی حیثیت سے پاکستان کی جانب سے بھی محض بیانات تک محدود رہنے کے بجائے زیادہ سنجیدہ اور ٹھوس کاوشوں کا طالب ہے۔ خصوصاً مودی حکومت کا ڈھائی سال پہلے کشمیر کی متنازع حیثیت تبدیل کرکے اسے آئینی طور پر بھارت کا حصہ قرار دے دینا ایسی کھلی ہٹ دھرمی تھی جس پر حکومت پاکستان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے مؤثر اقدامات عمل میں لانا چاہئیں تھے جو عالمی رائے عامہ کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ پوری طرح بےنقاب کرنے کا باعث بنتے۔ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بھارتی اقدام کے بعد وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے دنیا میں کشمیریوں کے سفیر کا کردار ادا کریں گے، کشمیری عوام آج بھی ان کے اس وعدے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ اہلِ دانش کے اس خصوصی اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نے افغانستان میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں چین اور پاکستان کے باہمی تعاون کو بجاطور پر پورے خطے کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری قرار دیا اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں بالکل درست طور پر متنبہ کیا کہ انسانی برادری اب ایک اور سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اجلاس کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور رابطہ کاری پر مرتکز تھا جس کے بعد اگلے مرحلے میں صنعت کاری، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زرعی شعبے پر توجہ دی جائے گی۔ پاکستان اور چین کے درمیان معاشی تعاون کے عملی اقدامات کے ضمن میں وزیراعظم کا یہ دورہ نمایاں طور پر نتیجہ خیز دکھائی دیتا ہے۔ اس امر کا ایک واضح مظہر پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ اور چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے مابین صنعتی تعاون سے متعلق فریم ورک معاہدے پر دستخطوں کا عمل میں آنا ہے۔ وزیراعظم نے بیجنگ میں چیئرمین این ڈی آر سی ہی لی فنگ سے ون ٹو ون ملاقات کی جس میں سی پیک منصوبوں کی پیش رفت پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم نے بیجنگ میں چین کی سرکردہ سرکاری و نجی کمپنیوں کے رہنمائوں سے بھی ملاقات کی جس میں کارپوریٹ رہنمائوں نے دھاتوں اور کاغذ کی ری سائیکلنگ، توانائی، ٹیکسٹائل، فائبر آپٹکس نیٹ ورکس، ہائوسنگ، ڈیری اور واٹر مینجمنٹ سے متعلق منصوبوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں گہری دلچسپی ظاہر کی۔ ان تفصیلات کے پیش نظر امید ہے کہ وزیراعظم کے دورے کے مثبت نتائج تیزی سے سامنے آئیں گے اور پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

تازہ ترین