اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر حاکمیت کا عمرانی جنازہ پڑا ہے۔ نالائقی، بدانتظامی اور مافیا کی سرپرستی کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ اب اس جنازے کو کندھا دینے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔2018 میں جو ہائبرڈ نظام قائم ہوا تھا وہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔شعور کی جگہ توہین نے لے لی ہے،نظریے کی جگہ بہتان کا راج ہے، احترام کی جگہ لعن طعن اور جمہوریت کی جگہ نیم آمریت براجمان ہے۔پاکستانی عوام پچھلے چار سال سے اپنا وطن ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔انہی عوام نے 2013 سے 2018کے درمیان اپنے تاریک ملک میں بجلی بنتے اور گیس آتے ہوئے دیکھی، کراچی کو پرامن ہوتے دیکھا، دہشت گردی کو مغلوب ہوتے اور گوادر سے خنجراب تک سی پیک تعمیر ہوتے دیکھا۔وہ کسان جسے 2018میں یوریا وافر مقدار میں امدادی قیمت پر 1200روپے فی بوری دستیاب تھی آج وہ 3000روپے فی بوری لینے کیلئے دربدر ہے۔وہ کاشتکار جو 2018 میں 3500 روپے میں ڈی اے پی کھاد کی بوری خریدتا تھا، وہ 9ہزار روپے فی بوری ہاتھ میں لے کر بھٹک رہا ہے۔جب پورے ملک میں کھاد کیلئے کسانوں کی قطاریں لگیں گی اور کھاد میسر نہ ہوگی تو پھر چند مہینے بعد پورے ملک میں آٹا لینے کیلئے قطاریں لگیں گے اور آٹا دستیاب نہیں ہوگا۔پاکستان کا ہر شہری صبح جاگتے ہی عذاب عمرانی سے دوچارہوجاتا ہے۔بجلی اس ڈر سے نہیں استعمال کرتا کہ وہ 38 روپے فی یونٹ ہوچکی ہے۔چولہا اس لئے نہیں جلاتا کہ گیس غائب ہے۔کریانے کی دکان سے اس لیے خوف زدہ ہے کہ وہ ساڑھے چار سو روپے کلو گھی اور 90روپے فی کلو آٹا خریدنے سے قاصر ہے۔سڑک پر جانا مشکل ہے کیونکہ پٹرول یا کرائے کیلئے جیب میں پیسے نہیں۔ عذابِ عمرانی اتنا اذیت ناک ہے کہ پاکستان کے محنت کش، مزدور، کاشتکار، دیہاڑی دار عمران خان کی اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اب سکون صرف قبر میں ہے۔وہ وزیر اعظم جو قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے اب کشکول انکے روزانہ لباس کا حصہ ہے۔جس حکمران نے 200ارب ڈالر ملک میں لاکر 100ارب ڈالر بیرونی قرض خواہوں کے منہ پر مارنا تھا وہ 35.1ارب ڈالر کے اضافی بیرونی قرضے لے چکا ہے اور مزید5 ارب ڈالر کی بھیک کا طالب ہے۔وہ حکمران جو پاکستان کے 71برسوں میں جمع شدہ 30ہزار ارب روپے کی گردان کرتے تھکتا نہ تھا وہ اپنے سوا تین سال میں 20ہزار 7سوارب روپے کے اضافی قرضے لے چکا ہے۔جس نے پاک بازی کے دعوے کئے تھے اس کی حکومت کا ہر کرپشن اسکینڈل ایک سو ارب روپے سے زیادہ کا ہے۔عمرانی حکومت کے کرپشن اسکینڈل ادویات سے شروع ہوکرآٹے اور چینی سے گزر کر پٹرول، ایل این جی، ایل پی جی اور بجلی تک پہنچ چکے ہیں۔آڈیٹر جنرل پاکستان کے مطابق اس پاک باز حکومت کوکورونا میں ملنے والی 352ارب روپے کی بین الاقوامی امداد میں سے کم از کم 150ارب کی لوٹ مار ہوئی ہے۔پشاور کی بی آر ٹی عوامی سرمائے کے 110ارب روپے کی لوٹ مار کامقبرہ ہے۔کیا سجدہ ریز نیب لاڈلے اور لاڈلے کے دوستوں سے سوال اور تفتیش کریگا؟عمران خان کے دو فرمودات ان کیلئے ایک بھیانک آئینہ بن چکے ہیں۔ فرمایا کہ جب کرپشن ہوتی ہے تو عوام کرپشن کی قیمت مہنگائی کی صورت میں دیتے ہیں اور ایک سے زائد مرتبہ فرمایا کہ جب مہنگائی ہوتی ہے تو وزیر اعظم چور ہوتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ برائے 2021عمرانی حاکمیت کے تابوت میں آخری کیل ہے۔اس تابوت میں پہلے ہی کشمیر، خارجہ پایسی،پارلیمان اور وفاقیت کی تباہی کے موذی کیل ٹھونکے جاچکے ہیں۔ مکافاتِ عمل ہے کہ عمران خان نے کرپشن اور مہنگائی کا جوتعلق آپس میں جوڑا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے جب اپنی مدت مکمل کی تو قومی بیوروبرائے شماریات کے مطابق مہنگائی آج کے مقابلے میں دوتہائی کم تھی اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں پاکستان آج کے مقابلے میں 23درجے بہتر تھا۔2018 میں عذابِ عمرانی مسلط ہونے کے بعد کرپشن بھی بڑھنا شروع ہوگئی اورنتیجتاً مہنگائی بھی بڑھنا شروع ہوگئی۔آج حساس قیمتوں کے انڈیکس کے مطابق پاکستان کے غریبوں کیلئے مہنگائی (ایس پی آئی)کی سالانہ شرح 22فیصد ہے جو مسلم لیگ ن کے دور میں 1فیصد سے بھی کم تھی۔عوام کرپشن کی قیمت مہنگائی کی صورت میں پچھلے چار سال سے ادا کررہے ہیں۔ عمران خان آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک کر چکے ہیں اور پاکستان کی معاشی خودمختاری کا ویسے ہی سودا کرچکے ہیں جس طرح 2019 میں واشنگٹن جاکر صدر ٹرمپ کے آگے گھٹنے ٹیکے اور کشمیر کا سودا کرآئے تھے۔عمرانی حکومت کی غلامی ہمیں بینجمن فرینکلن کی یاددلاتی ہے،جس نے کہا تھا کہ وہ حکمران جو عارضی فائدے کیلئے آزادی کا سودا کرتے ہیں انہیں نہ فائدہ ملتا ہے اور نہ ہی آزادی۔قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں وزیر اعظم اوروزیر قانون پر قانون توڑنا ثابت ہے۔کوئی مغربی ملک ہوتا تو اتنی سخت تادیب کے بعد وزیر اعظم اور وزیر قانون استعفیٰ دے دیتے۔توشہ خانہ کا معاملہ خفیہ ہے۔وزیر اعظم کے ذاتی انکم ٹیکس میں اقتدار آنے کے بعد پچاس گنااضافے کی وجہ خفیہ ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی درجنوں گاڑیوں کا معاملہ خفیہ ہے۔ تحریک لبیک سے کیا گیا معاہدہ خفیہ ہے اور نیشنل سکیورٹی پالیسی کا اصل متن خفیہ ہے۔وہ عمران خان جو مغربی جمہوریت کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے وہ اور انکے وزراء عوام پر قیامتیں ڈھانے کے باوجود اپنی کرسپوں سے چمٹے ہیں اور استعفے نہیں دیتے۔جمہور ایک بہتا دریا ہے جس پر ہائبرڈ نظام کا بند باندھ کر اسے محصور کرنے کی آمرانہ کوشش کی گئی ہے۔لیکن اس بند میں غریب دشمنی، ترقی دشمنی،فسطائیت،مافیا سرپرستی اور بیرونی غلامی کی مہیب دڑاریں پڑ گئی ہیں۔2022 میں پاکستان اپنے 75سال پورے کرے گا۔یہ وقت ہے کہ جمہور کے دریا کو بلا روک ٹوک بہنے دیا جائے تاکہ وہ آمرانہ بنجر زدہ ریاست کو سیراب کرسکے۔ایک صاف، شفاف اور غیر آئینی مداخلت سے پاک انتخابات میں عوام کو اپنے نئے نمائندے بلا خوف و خطر منتخب کرنے کا فوری موقع دیا جائے۔یہ نہ ہوا تو ہائبرڈ نظام کا بندعوامی ریلے سے پاش پاش ہوجائیگا۔ لیکن جب بند ٹوٹتے ہیں تو تباہی ہوتی ہے۔ جمہور کی حاکمیت اورآئین کی سربلندی ہی پاکستان کو آگے لیکر جانے کا راستہ ہے۔
صاحبِ تحریر رکن قومی اسمبلی ہیں اور وفاقی وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور وزیر تجارت کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔