لتا منگیشکر کے بارے میں یہ کہنا عجب سا لگتا ہے کہ وہ چل بسیں۔انسان کی خوبیوں کا تعلق اس کے بدن اور جسم سے نہیں ہوتا۔ کتنے ہی لوگ مرجاتے ہیں مگر نہیں مرتے۔ میں نے جس دن ہوش سنبھالا،لتا منگیشکر کی آواز کان میں پڑی اور پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک جیوں گا،وہی جانی پہچانی آواز کانوں میں آتی رہے گی۔گلوکار کتنے ہی آئے اور چلے گئے مگر ایسا گہرا نقش کسی نے نہیں چھوڑا۔دینے والے نے انہیں سُر وں کی دولت سے خوب نوازا اور اس سرزمین پر اپنے سُر بکھیرنے کی مہلت بھی جی بھر کردی۔خوب زندہ رہیں اور زندگی کو اپنے وجود کی درخشاں نشانی کے طور پر چھوڑکر ہی سدھاریں۔
ہوا یہ کہ بمبئی کے قریب کولہا پور میں ایک فلم اسٹوڈیو تھا جہاں دوسری عالمی جنگ کے تعلق سے فلم ’بڑی ماں‘بن رہی تھی۔ اپنے وقت کی سب سے بڑی اداکارہ اور گلوکارہ نوجہاں اس فلم کی ہیروئین تھیں اور اس کے لئے انہیں کولہا پور جانا ہوتا تھا۔ ہمارے بڑے ترقی پسند فلم ساز ضیا سرحدی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ فلم کے مکالمے اورگانے ، یہاں تک کہ فلم کے اشتہار بھی ضیا سرحدی ہی لکھا کرتے تھے۔ اپنے ایک اشتہار میں نورجہاں کو ملکہء ترنم پہلے پہل ان ہی نے لکھا تھا۔ہاں تو اسی زمانے میں کولہا پور کے اسٹوڈیو میں ایک چھوٹے سے قد کی سانولی لڑکی بھی آیا کرتی تھی جو فلمی کورس گانوں میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ آواز ملا کر گایا کرتی تھی اور مراٹھی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کیا کرتی تھی۔ایک روز مقدر کاپہیہ گھوما۔وہی لڑکی اسٹوڈیو میں کسی کو اپنا گانا سنا رہی تھی۔ موسیقار کی بیٹی تھی اور سارے بہن بھائیوں کی طرح سریلی تھی۔ اتفاق سے نورجہاں اسٹوڈیو میں موجود تھیں۔ لڑکی کی آواز ان کے کانوں میں پڑی، ہیرے کی قدر جوہری ہی پہچانتا ہے۔ نور جہاں نے ضیا سرحدی سے کہا کہ اس لڑکی کو بلا کر لاؤ۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب لتا منگیشکراور نور جہاں پہلی بار آمنے سامنے ہوئیں۔ میڈم نے کہا کہ اس لڑکی کو بمبئی جانا چاہئے۔ یہی ہوا۔ لتا کولہا پور چھوڑ کر بمبئی پہنچیں جہاں مقدر دوسرا بڑا قدم اٹھانے کے لئے تیار تھا۔ لتا کا سامنا کس سے ہوا۔ اپنے وقت کے بہت بڑے موسیقار غلام حیدر سے۔جس کی قدر کو ایک بڑے جوہری نے پہچانا اس کی خوبیوں کو پرکھنے میں غلام حیدر نے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائی۔ بس اس کے بعد ساری دنیا کے طول و عرض اس چھوٹے سے قد کی سانولی لڑکی کیلئے کھل گئے، تمام بلندیوں اور پستیوں نے اس لڑکی کے سروں کے لئے اپنی بانہیں کھول دیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جب کہیں نا کہیں سے لتا کا گایا ہوا گانا نشر نہ ہورہا ہو۔ ہمارے عہد کے تان سین، بڑے غلا م علی خاں نے ایک بار بڑے لاڈسے کہا تھا کہ’ کم بخت کبھی بے سُری نہیں ہوتی‘۔اچانک فلمی موسیقی کی دنیا میں انقلاب آیا اور سیدھے سادے سے مگر بے حد مقبول گانے گلی کوچوں میں گونجنے لگے: جیا بے قرار ہے چھائی بہار ہے آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے۔ اسی طرح :چپ چپ کھڑے ہو ضرور کوئی بات ہے، پہلی ملاقا ت ہے یہ پہلی ملاقات ہے۔ اس کے بعد ایک اور سادہ سے گانے کی دھو م مچی، فلم برسات میں لتا گارہی تھیں:ہوا میں اڑتا جائے میر لال دوپٹہ ململ کا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گانوں کی ریکارڈنگ معمولی ڈھنگ سے ہوا کرتی تھی۔اسٹوڈیو نہیں تھے اور ریکارڈنگ رات کے وقت بنگلے کے کھلے لان میں ہوا کرتی تھی۔ اس وقت کے لتا کے ایک تاریخی گانے کی آواز میں گونج پیدا کرنے کے لئے ریکارڈنگ غسل خانے میں کی گئی تھی۔ وہ گانا دو تین صدیوں تک تو یقیناً یاد رہے گا۔ فلم محل کے لئے لتا کی آواز میں ’آئے گا آنے والا۔ آئے گا‘
پھر تو مراٹھی لڑکی نے اپنی گائیکی کوسنوارنا شروع کیا اور مجھے یقین ہے کہ غلام حیدر مرحوم کے مشورے پر لتا نے ایک مولوی صاحب کو ملازم رکھا اور اس سے اردو سیکھی۔ لتا کی پوری صدی کی گائیکی میں شین قاف کی کوئی بھی غلطی ایک بار بھی نہیں سنی گئی۔ جب ان کا تلفظ درست ہوگیا تو کسی نے کہا کہ مولوی صاحب کی چھٹی کردو مگر لتا نے انکار کردیا او ر سنا ہے کہ مولوی صاحب کی تنخواہ ان کے گھر جاتی رہی۔
لتا کی نوے برس سے زیادہ کی زندگی میںکہیں کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ان کا سبھاؤ مثال بن کر رہا ، ان کی خوش خلقی کا ساری دنیا دم بھرتی ہے۔ صرف ایک واقعہ ایسا سننے میں آتا ہے جو شاید حرف بہ حرف یوں نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک بار لتا جی اور محمد رفیع میں جھگڑ ا ہو گیا (میںبڑی سے بڑی سے شرط لگا سکتا ہوں کہ بے چارے محمد رفیع کا پوری دنیا میں کسی سے جھگڑا ہو ہی نہیں سکتا)کہنے والے کہتے ہیں کہ لتا نے رفیع کا سوشل بائیکاٹ کرادیا اور اعلان کیا کہ جو سازندہ رفیع صاحب کے ساتھ باجا بجائے گا وہ لتا کے ساتھ نہیں بجا سکتا۔ یہ وہ دن تھے جب قریب قریب ہر گانا لتا ہی گاتی تھیں۔ سازندوں نے لتا کے اس اعلان پر عمل شروع کیا تو رفیع صاحب نے بھی گانا بند کردیا۔ یوں بھی حج کے بعد ان کا دل موسیقی کی طرف سے اچاٹ ہوگیاتھا ۔ مگر لوگ بتاتے ہیں کہ لتا اپنے اس اعلان پر بہت نادم تھیں کہ اچانک محمد رفیع پر دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسے۔ سنا ہے کہ ان کے انتقال کی خبر پر لتا تڑپ اٹھیں، بمبئی میں زور کی بارش ہورہی تھی ۔وہ اسی حالت میں بھیگتی بھاگتی رفیع صاحب کے گھر پہنچیں اوروہاں دیر تک چپ سادھے بیٹھی رہیں جیسے بے شمار منظر ان کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں گھوم رہے ہوں ۔اگرچہ ان دونوں کے درمیان کسی وعدے کا کسی کوعلم نہیں مگر کوئی رفاقت کا وعدہ رہا ہوگااور اس روز کسی نے خاموشی سے ان کے کان میں کہا ہوگا:روکے زمانہ چاہے روکے خدائی تم کو آنا پڑے گا۔