• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ساٹھ کے عشرے میں آج کی ترقی پذیر دنیا میں سماجی ترقی کی سر گرمیاں عروج پر تھیں ۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے ، یوایس ایڈ اور ترقی یافتہ ممالک کے انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ سے متعلق ادارے ، جدتوں کے بڑے بڑے پیکج اور بھاری بھر فنڈنگ کے ساتھ نو آزا د ممالک میں وارد ہو رہے تھے ۔ اعلانیہ ایجنڈا غربت میں کمی اور سماجی ترقی تھا ۔ اس عشرے میں یہ ممالک ترقی پذیر نہیں ، پسماندہ کہلاتے تھے ۔ ایشیا ء ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو تیسری دنیا کا نام دیا گیا جو اب متروک ہے ۔ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک کی بین الاقوامی ترقی کی تحریک کا ایک زاویہ نگاہ تو عالمی امن و خوشحالی اور انٹر نیشنلزم کا فروغ تھا ۔ دوسرے اسے دم توڑتے نو آبادیاتی( سامراجی ) نظام کے ساتھ ہی ''نیم نو آبادیاتی نظام کا آغاز'' بھی سمجھا گیا۔ عملی صورت یہ بنی کہ اب نو آزاد ممالک کا اقتدار اعلیٰ اپنا تھا ۔ طاقت ور ممالک ( جن میں امریکہ اور سویت یونین پیش پیش تھے) کی سیاسی اور بلااجازت عسکری موجودگی ممکن نہیں رہی تھی ۔ جغرافیائی سر حدوں کا احترام قائم ہو چکا تھا ، تاہم ترقیاتی سر گرمیوں ، مالی وفوجی امدا داور آسان تر قرضوں کے باعث یہ زیر کفیل ممالک میں اپنا گہرا ( خصوصاً نظریاتی) اثر و رسوخ قائم کر نے کی پوزیشن میں آگئے ۔ یوں انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ کی تحریک امریکن اینگلو اور سوویت بلاک میں ترقی پذیر ممالک کو دائرہ اثر میں لینے کی دوڑ میں تبدیل ہو گئی ۔ یہی Neo-Colonialism ہے ۔ سوویت یونین منتشر ہو گیا اور اب باقی ماندہ روس اس ریس سے باہر ہے ۔ دوسری جانب ترقی پذیر ممالک میں خود مختاری کا احساس بھی بڑھ گیا ہے۔ وہ امریکہ کا بلند درجے کا اثر قبول کر نے کے لیے تیار نہیں لیکن ان ممالک میں امریکہ کو اپنے ''قومی مفادات '' کی لت پڑ چکی ہے ، وہ بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔ سینکڑوں کی تعداد میں ہائی کوالٹی ریسرچ ثابت کر تی ہیں ، متذکرہ ہر دو زاویہ ہائے نگاہ کے مطابق دونوں ہی کام ہوئے ۔ پسماندہ سے ترقی پذیر کا درجہ حاصل کر نے والے ممالک کے عوام کی مجبوریوں و محرومیوں اور انکے حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت کے باعث Neo-Colonialists کے ان ممالک سے وابستہ قومی مفادات ، آزادی ، سماجی ترقی ،جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی فلاسفی پر غالب ہو گئے ۔تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سماجی ترقی کے مختلف شعبوں میں کتنے ہی المیے ختم اور ان میں کمی آئی ۔ ترقی پذیر دنیا سے چیچک اور پولیو کا خاتمہ ہوا ۔ بڑھتی آبادی ، ہیضہ ، ٹی بی ،اسہال اور بچوں کی پانچ بیماریوں پر کنٹرول ہوا۔ زراعت میں جدتوں کا انقلاب بر پا ہونے سے پسماندہ ممالک میں خوراک کی حالت بہتر ہوتی گئی۔
عالمی برادری او ر خود Neo-Colonialists کی بدقسمتی ہے کہ وہ اثر رسوخ بڑھانے کی اپنی عالمی سیاسی گیم میں ترقی پذیر دنیا میں اقتصادی۔ سماجی ترقی کی کار خیر والے کردار کو غالب نہ کر سکے ۔ اس کے بر عکس ان ممالک سے اپنے ایسے ''قومی مفادات'' کے حصول کی مہم جوئی میں مبتلاء ہو گئے ، جس کے بیدار ہو تے ممالک متحمل نہیں ہو سکتے ۔ نیم سامراجی آقا ہمارے ملکوں میں اپنے ''قومی مفادات '' کی علت سے نکل ہی نہیں پارہے ، اس سے دنیا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اور نئی صدی میں بھی جہنم بنی ہوئی ہے ۔ خود نیم نوآبادیاتی طاقتوں کے کھرے ، سچے اور معصوم عوام اس ایجنڈے سے بری طرح متاثر ہیں ، لیکن ان کا اور ترقی پذیر ممالک کو عالمی قائدین کو سمجھانا بجھانا کوئی آسان کام نہیں ۔سمجھ جاتے تو آج دنیا پر ان کا قابل قبول غلبہ ہوتا۔ بات کسی اور طرف چل پڑی ، واپس آتے ہیں ۔
60 اور 70 کے عشروں میں جب Neo-Colonialists ترقی پذیر دنیا کے فلاحی منصوبوں کی شکل میں سر گرم تھے ، ان کا سارا زور سماجی ترقی کی بنیادی ترقی پر ہی رہا ۔ جس میں خوراک ، آبادی کے کنٹرول ، تعلیم و صحت کو اولیت حاصل رہی۔ وہ قومی اقتصادی ترقی کے دروازے کھولنے والے انفراسٹرکچر (ہائی ویز، ڈیمز ، بند رگاہیں ، ائیر پورٹس ، بڑے پل ، بجلی گھر، ڈسٹرکٹ روڈ نیٹ ، ماڈرن انڈسٹریل اور ٹریڈ زونز وغیرہ ) کی طرف بالکل ہی نہ آئے ، جیسا کہ جنگ عظیم دوئم کی تباہی کے بعد امریکہ کے مارشل ایڈ پروگرام کے ذریعے تباہ شدہ مغربی یورپ کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کو اولین ترجیح دی گئی۔ آنیوالے عشروں میں بھی Neo-Colonialists قومی سطح کے انفراسٹر کچر کی تعمیر میں معاونت کی فراہمی سے گریزاں رہے ، جبکہ عالمی سیاسی طاقتوں کے مقابل اقوام متحدہ کا کردار ، سماجی ترقی کے شعبوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے بڑھتا گیا ۔ بھلا ہو برما سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اوتھانٹ کا جنہوں نے ترقی پذیر دنیا کے حوالے سے سماجی ترقی اور اقتصادی ترقی کے فرق کو واضح کر نے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یاد رہے مہذب معاشرے کی تشکیل کیلئے سماجی ترقی اور مملکت کے استحکام بذریعہ قومی اقتصادی ترقی کیلئے ناگزیر ہے کہ جدید قومی انفراسٹرکچر تعمیر کیا جائے ۔
آج ترقی پذیر دنیا کی کپیسٹی اتنی توبڑھ چکی ہے کہ اگر حکومتیں عوام کی بہتری پر واقعی آمادہ ہوں اور ان کی دیانت مسلمہ ہو اور ویژن بھی بلند ہو تو سماجی ترقی کے بہت سے اہداف وہ آسانی سے حاصل کر سکتی ہیں ۔ پاکستان کی صورت یہ بنتی ہے کہ سماجی ترقی کے تمام شعبوں میں اپنے ہی وسائل سے ترقی کا بھر پور اپوٹینشل موجود ہے ۔ قیادت کی پولیٹیکل و ل ، ویژن اور گورننس کا مطلوب معیار ہو تو جلدی جلدی بڑے بڑے اہداف حاصل ہو سکتے ہیں ۔ جہاں تک قومی سطح کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کا تعلق ہے ، یہ امر بہت اطمینان کا باعث ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف پہلے سے اس جانب اپروچ اور سیاسی عزم کے حامل ہیں ۔ سرمائے کی کمی ، پاکستان اور چین کے موجود ، مستقبل قریب و بعید کے وسیع تر قومی مفادات کے گڈ مڈ ہونے سے پوری ہو تی نظر آرہی ہے ۔باہمی قومی مفادات ، چینی مہارت و سرمایہ اور پاکستان کا جغرافیہ وہ حالات پیدا کر چکا ہے کہ ہر دو ایشیائی ہمسایہ طاقتوں کے قومی مفادات کے اہداف حاصل ہو جائیں ۔ اس میں ابتدائی پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں ن لیگی عہدے داروں اور کارکنوں سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ صحت و تعلیم اور انفراسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبوں کے دور رس نتائج برآمد ہو ں گے ۔ ان کا یہ بیان اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ پنجاب حکومت تینوں شعبوں میں کوئی بڑی منصوبہ بندی کر رہی ہے ، تبھی تو گڈ گورننس فیم وزیراعلیٰ کو یقین ہے کہ دور رس نتائج نکلیں گے۔
فقیر فقط اتنا عرض کرتا ہے کہ وفاقی حکومت قومی انفراسٹر کچر کی تعمیر ، ملک بھر میں امن عامہ کی یقینی بنانے اور انرجی پر فوکس کو اپنی ڈویلپمنٹ سٹر ٹیجی کے طور پر اختیار کرے ۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وزراء ا علیٰ کیلئے دعوت فکر ہے کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی ترجیحات ، تعلیم و صحت اور صوبائی سطح کے انفراسٹرکچر کو عوامی فلاح کی حکمت عملی کے طور پر اختیار کر لیں ، اور بہت اہم بات یہ ہے کہ سب وزراء اعلی عوام کی حقیقی فلاح کیلئے سیاسی اور افسر شاہی کے اثر اور دباؤ سے آزاد بلدیاتی اداروں کے قیام پر توجہ دیں اور اس کیلئے کمیونٹی ڈویلپمنٹ کی اپروچ اختیار کریں ۔ اس ضمن میں خیبر پختونخوا میں ہونے والی پیش رفت کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ یہ سب کچھ جب ہی ممکن ہو گا کہ وفاق کی سطح سے کمیونٹی (بلدیاتی ) کی سطح تک گڈ گورننس کو یقینی بنایا جائے جس کیلئے مقتدر سیاست دانوں کا گڈگورننس کو اختیار کرنا اور خود مختار بلدیاتی اداروں کیلئے قانون سازی کرنا ناگزیر ہے ، فقیر کو فکر ہے کہ اس جانب دل و جان سے کوئی نہیں آ رہا ۔
تازہ ترین