• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑے پیمانے پر مستحق اور نچلے طبقے کو براہِ راست حکومتی مالی امداد کی منتقلی کے پروگرام ترقی پذیر دنیامیں سماجی تحفظ اور غربت میں کمی کی حکمتِ عملیوں کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 میں حکومت قائم ہوئی تومعاشرے کے ان طبقات کی مالی امداد کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی )شروع کیاگیا۔ اسکے علاوہ بی آئی ایس پی پروگرام کا بنیادی مقصد پاکستان کے غریب تر ین گھرانوں کے بچوں میں غذائی قلت ختم کرنا اور خواتین کو بااختیار بنانا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ منتقلی براہ راست خواتین کو کی جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ فنڈز کو حسب منشا خرچ کیا جائیگا۔پاکستان کی آباد ی کا ایک بڑا حصہ یا تو انتہائی غربت میں زندگی گزارتا ہے یا کسی قدرتی یا غیر معمولی حادثے کی وجہ سے غریب ہوجانے کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ 2008میں بی آئی ایس پی کے شروع ہونے سے پہلے، ملک میں سوشل سیکورٹی کی کوریج محدود تھی اور دونوں پروگراموں یعنی پاکستان بیت المال اور ذیلی ادارے نہ غریب کی مدد کررہے تھے اور نہ ہی معاشرے میں کسی بہتری کے آثار نظر آرہے تھے کیونکہ ان پروگراموں کے ذریعے تقسیم کئے گئے وسائل کا بالترتیب چالیس سے ستر فیصد ایسے لوگوں کو جاتا تھا جو مستحق ہی نہیں تھے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کیلئےحکومت پاکستان نے 2008 کی دوسری ششماہی کے دوران بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو قومی سماجی تحفظ کے نیٹ ورک کے اہم اقدام کے طور پر شروع کیا۔ اس پروگرام کا قلیل مدتی مقصد غریبوں پر خوراک،ایندھن اور مالیاتی بحران کے منفی اثرات کو کم کرنا تھا، لیکن اس کا وسیع تر مقصد غریب ترین افراد اور ان لوگوں کے لئے کم از کم انکم سپورٹ پیکیج فراہم کرنا تھا جوانتہائی غریب ہیں۔2009سےعالمی بینک کا سوشل سیفٹی نیٹ پروجیکٹ بی آئی ایس پی کی مدد کر رہا ہے تاکہ ایک بہتر ٹارگٹنگ سسٹم قائم کیا جا سکے، پروگرام کے آپریشنز کو مضبوط بنایا جاسکے اور غریبوں کو خدمات کی شفاف فراہمی کیلئے کنٹرول اور جوابدہی کا ایک مربوط نظام بنایا جا سکے۔ اس پروگرام کی شفافیت کا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آصف علی زرداری کی حکومت نے اس پروگرام میں ورلڈ بینک کو شانہ بشانہ رکھا اور یہ ہی وجہ تھی کہ اس پروگرام کوشفاف رکھنے اور عالمی سطح پر متعارف کروانے کے لئے پی پی پی حکومت کے دوران اس وقت کے صدر آصف علی ذرداری نے امریکہ کی سیکرٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن کے ہاتھوں اس منصوبے کا افتتاح کرایا۔ اس پروگرام میں پی پی پی حکومت نے شروع دن سے ہی نادرا جیسے اداروں کو شامل کیا،تاکہ شفافیت کا دامن ہاتھ سے نہ نکل سکے۔ ورلڈ بینک اور دنیا کے بڑے ادارے اس پروگرام پر ریسرچ کر چکے، دنیا کی بڑی بڑی درسگاہوں میں اس پروگرام کے ثمرات پر ریسرچ کی گئی۔ لیکن عمران حکومت نے بغضِ بینظیر میں طرح طرح کے شوشے چھوڑے، کبھی کہا اس پروگرام میں غیر مستحق افراد،افسران پیسے وصول کرتے رہے، کبھی کہا اس پروگرام سے سرکاری افسروں کی بیو یاں پیسے لیتی رہیں مگر نہ کسی غیر مستحق کا نام سامنے آیا نہ کسی سرکاری افسر کا۔ اس پروگرام کو ناکام ثابت کرنے کا مقصد اس سے جڑا بینظیر کا نام تھا، جسے عمران خان تبدیل کرکے احساس پروگرام کرنا چاہتے تھے لیکن قانون آڑے آگیا، ورنہ وہ اس پروگرام کو کب کا ختم کرچکے ہوتے، شاہد آصف علی زرداری کو اس کا ادراک تھا کہ آنے والی حکومتیں غریبوں کو ملنے والی ان رقوم کو سب سے پہلے ختم کریں گی، لہٰذا انھوں نے نہ صرف اس پروگرام کو آئینی چھتری فراہم کی بلکہ عالمی اداروں کو بھی اس میں شامل کیا تاکہ اس پروگرام کو عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہو۔

پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی توملک سیلابوں اور دہشتگردی کی زد میں تھا۔ پوری دنیا کو معاشی بحران اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا اور دہشتگردی کی وجہ سے حکومتی آمدنی کم ہورہی تھی،اسکے باوجود 2012میں بی آئی ایس پی پروگرام سےاستفادہ کرنیوالے 42لاکھ 13ہزار 643 مستحقین میں 30.42ارب روپے کی رقوم تقسیم کی گئی تھیں۔ 2013میں42 لاکھ17ہزار 977مستحقین میں 033.53ارب روپے کی رقوم تقسیم کی گئیں۔اسی طرح 2014 میں استفادہ کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 47لاکھ 32 ہزار 263ہو گئی اور تقسیم کی گئی رقوم بھی بڑھ کر تقریباًدگنا ہو گئیں اور04.76ارب تقسیم کئے گئے جس کے بعد آصف علی زرداری صدر پاکستان نہ رہےمگر یہ پروگرام پھر بھی چلتا رہا ، نواز شریف حکومت نے بھی اس پروگرام کو جار ی رکھا، نواز شریف حکومت کو بینظیر کے نام پر تحفظات تھے مگر انھوں نے اس پروگرام پر ایسے گھٹیا الزامات لگانے سے گریز کیا جس طرح کے الزامات موجودہ حکومت نے اس پروگرام پرلگائے، عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ کورونا کے نام پر دی گئی امدادکی تقسیم بھی اسی کارڈ سے ممکن ہوئی ورنہ اس کارڈ کی غیر موجودگی میں پاکستان کے پاس ٹارگٹڈ سبسڈی د ینے کے لئے کوئی شفاف نظام موجود نہیںتھا، یہ صدر آصف علی ذرداری کا ہی کارنامہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران ایسا نظام متعارف کرایا کہ صرف ان کے دور اقتدار میں 55لاکھ افراد اس سے مستفید ہوئے جب کہ اس پروگرام سےپانچ سے چھ کروڑ افراد کو آج بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آغاز سے اب تک مستحقین میں مجموعی طور پر11کھرب4ارب یعنی1104ارب روپے تقسیم کئے جاچکے، بی آئی ی ایس پی سے مستفید ہونے والے مستحقین میں ملک بھر سے66 لاکھ56ہزار869نادار و غریب خواتین شامل ہیں۔ یعنی پی پی پی کے دور میں 55 لاکھ خواتین کو امداد دی جارہی تھی جب کہ گزشتہ نو سال میں صرف نو لاکھ کا اضافہ ہوا حالانکہ چارسال میں لاکھوں مزید پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے،بدقسمتی سے موجودہ حکومت کا سارا زور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے پر رہا، اگر اس کا دس فیصد بھی غریبوں کی امداد پرخرچ ہوتا تو شاید آج موجودہ حکومت کم و بیش ایک کروڑ خواتین کو براہ راست نقد امداد دے رہی ہوتی، پی پی پی اور صدر آصف علی زرداری کے جاری کئے گئے پروگرام کا نام تبدیل یا اسے کوئی بھی نیا نام دیدیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،تاریخ ہمیشہ انہیں اس عظیم کارنامے پر شاباش دیتی رہےگی،جس پروگرام کو دنیا سراہ رہی ہے بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس پروگرام کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا ۔

تازہ ترین