کراچی(ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام " نیا پاکستان " میں امیر طالبان ملا اختر منصور کی پاکستان کے علاقے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاکت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے یہ پہلی بار نہیں ہوا ، ایبٹ آباد واقعے میں ہم نے خاموشی اختیار کی، امریکہ کی جانب سے خبر آئی ، فاٹا سمیت کئی جگہوں پر ڈرون حملے ہوئے لیکن اس پر بات نہیں کی گئی ، ایک بار پھر پاکستانی سرزمین پرڈرون حملہ ہوا حالانکہ وہ طالبان رہنماء ایران سے آرہے تھے ۔حکومت کی بات نہیں یہ ریاست کی ناکامی ہے حکومت کی خاموشی کا مطلب ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا یا ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے ۔ اس بات پر مسلم لیگ ن کے سینٹر لیفٹیننٹ جنرل(ر)عبد القیوم کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا واقعہ ہے جس کے دور رس اثرات ہیں ۔ اس کے دو پہلوں ہیں ایک تو رپورٹنگ کا ہے اور دوسرا اس پر حکومت کا بیان آنا ہے جس کی میں آپ کو یقین دہانی کرواتا ہو ں کہ سوچ و بچار کے بعد اور ہر چیز کو دیکھ کر حکومت کا موقف آئے گا ۔ اس دوران گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے مصنف اور صحافی زاہد حسین کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر امریکی وزیر خاجہ جان کیری کا بیان سامنے آچکا ہے کہ پاکستان کو اطلاع دی گئی تھی ۔اس حملے نے ہماری خارجہ پالیسی میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔ افغانستان کے بارے میں ہماری پالیسی پتہ ہی نہیں ہے کیا چل رہی ہے۔ ملا اختر منصور کے مارے جانے کے واقعے کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کوئٹہ سے جیو نیوز کے نمائندہ خصوصی سلمان اشرف کا کہنا تھا کہ کل چار بجے کے قریب ہمیں روٹین کی ایک خبر موصول ہوئی کہ نوشکی میں اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے اس کے بعد آٹھ نو بجے کے قریب ہمارے ذرائع نے کہا کہ آپ اسے دوبارہ چیک کریں اس میں کوئی اہم شخصیت ماری گئی ہے ۔تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں آرہی تھی۔ اس ساری صورتحال میں حکومت کی خاموشی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیٹر عبد القیوم کا کہنا تھا کہ حکومت کو ابھی تک ملا اختر کی ہلاکت کنفرم نہیں ہے ۔امریکہ نے ڈرون حملہ کرنے کے بعد اطلاع دی اور انھوں نے حملے سے قبل کبھی اطلاع نہیں دی ۔ اس پر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے لئے قابل افسوس ہے کہ ملک کی سرحدوں پر نہ ایئر ڈیفنس ہے نہ آپ کی فہم و فراست ہے اور نہ ہی معلومات، آج انھوں نے طالبان کو مارا ہے کل آکر آپ کی کسی تنصیب ، دیکھیں ایبٹ آباد تک تو پہنچ گئی تھی ، یہ سیکیورٹی لیپس نہیں کہلائے گا؟ ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عبد القیوم نے کہا کہ اس معاملے میں ایک سپر پاور نے منہ زوری پر ، دنیا میں انھوں نے جتنے بھی ڈورن حملے ہوئے ہیں اس میں سے 75 فیصد پاکستان میں ہوئے ہیں یعنی سرحد ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتی ۔نمبر دو بند ہ افغانستان کا مار اگیا ہے اور نمبر تین مٹی ہماری ہے تو اب ہمیں یہ بھی بحث کرنا چاہئے کہ یہ کیا پالیسی ہے کہ آپ جہاں دیکھیں ، حکومت کو پوچھے بغیر جا کر اسٹرائیک کر دیں ۔ اس پر شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت کی بات نہیں یہ ریاست کی ناکامی ہے ، انٹیلی جنس ،ملٹری اور سیکیورٹی ناکامی ہے اور خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے ، کون بنا رہا ہے کیسے بنا رہا ہے ، ہے کوئی پالیسی ؟ہماری خارجہ پالیسی میں کوئی شفافیت نہیں ،بلکہ کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں۔ اس پر زاہد حسین نے کہا کہ جس ملک میں وزیر خارجہ ہی نہ ہوتو پالیسی نہ ہو تو اس ملک میں خارجہ پالیسی کیا ہو گی ؟افغانستان کے بارے میں آپ کی پالیسی ہے کیا؟ اس پر سینیٹر عبد القیوم نے کہا کہ افغانستان پر آپ کی خارجہ پالیسی واضح ہے آپ افغانستان میں امن کے خواہا ں ہیں ۔