• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسحاق ڈار کے زنگ آلود بیان کو FIA استعمال کر رہا ہے: شہباز شریف


مسلم لیگ ن کے صدر، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے اب اسحاق ڈار کے زنگ آلود بیان کو استعمال کر رہا ہے۔

لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل میں شوگر ملز مالیاتی اسکینڈل کے سلسلے میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز پیش ہوئے، عدالت نے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے انہیں طلب کیا تھا۔

مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو شہباز شریف نے عدالت سے چند گزارشات کی استدعا کر دی۔

شہباز شریف نے کہا کہ ڈیلی میل میں شہزاد اکبر نے میرے خلاف آرٹیکل لکھوایا، آرٹیکل کی اشاعت کے بعد حکومتی وزیروں نے میرے اوپر زہر کے گولے برسائے، پونے 2 سال بعد این سی اے نے لندن کی عدالت میں کہا کہ ہم انکوائری ڈراپ کر رہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ 4 سال ہو گئے ہیں، حکومت ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکی، میں نے عوام کے 1 ہزار ارب روپے کی بچت کی، پاکستان کے غریب عوام کی خدمت کی، گناہ گار آدمی ہوں لیکن یہ کرپشن ثابت نہیں کر سکتے، مجھے بدنام کرنے کے لیے صاف پانی کیس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کسی اور کیس میں گرفتار کر کے نیب کے عقوبت خانے میں رکھا گیا، صاف پانی کیس میں اللّٰہ تعالیٰ کے کرم سے تمام لوگ بری ہوئے ہیں، جج صاحب بشیر میمن کا ریکارڈ پر بیان ہے کہ وزیرِ اعظم نے شہباز شریف کے خلاف کیس بنانے کے لیے کہا۔

مسلم لیگ ن کے صدر نے کہا کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ سلمان شہباز نے ترکی کی کمپنی سے پیسہ کھایا ہے تو میں خدا کی قسم آپ سے اور اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر گھر چلا جاؤں گا، میرے خلاف جعلی کیس بنایا گیا، مجھے یہ بتائیں میں نے کہاں منی لانڈرنگ کی ہے، یہ جعلی اور جھوٹا کیس ہے، اس عدالت کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں 7 ماہ جیل میں رہا، اس دوران ایف آئی اے افسران 2 مرتبہ آئے، یہ ایف آئی اے کا پلندہ جو پیش کیا گیا ہے یہ تمام کاغذات لندن میں پیش کیے گئے، انہوں نے دنیا کی مایہ ناز نیشنل کرائم ایجنسی کو یہ دستاویزات دیں، ایف آئی اے، نیب اور اے آر یو تینوں نے مل کر یہ کاغذات دیئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں 4 سال غریب الوطنی میں رہا، اگر میرے پاس حرام کا پیسہ ہوتا تو میں پاکستان کیوں آتا، میں واپس آیا لیکن دوسری فلائٹ سے واپس بھیج دیا گیا، مجھے معلوم تھا کہ پرویز مشرف مجھے گرفتار کر سکتے ہیں، میرے پاس دو راستے تھے، یا تو ملکۂ برطانیہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا یا پھر عزت سے روزی روٹی کماتا۔

اس موقع پر ایف آئی اے کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا شہباز شریف کا حتمی بیان تھا؟

شہباز شریف نے جواب دیا کہ میں عدالت سے مخاطب تھا، آپ سے نہیں۔

شہباز شریف کے وکیل عطاء تارڑ نے ایف آئی اے کے وکیل سے کہا کہ آپ ہمیں نہ سکھائیں، ہم عدالت سے بات کر رہے ہیں۔

عطاء تارڑ کے جواب پر ایف آئی اے کے وکیل اور شہباز شریف کے وکلاء کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس پر عدالت نے فریقین کے وکلاء کو آپس میں بحث سے روک دیا۔

شہباز شریف کے وکلاء نے عدالت سے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا کر دی۔

ایسوسی ایٹ وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کے سینئر وکیل امجد پرویز آتے ہیں تو کارروائی شروع کی جائے۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر فردِ جرم عائد نہ ہو سکی

جج نے کہا کہ فردِ جرم ملزمان پر عائد ہونی ہے اور ملزمان عدالت میں موجود ہیں۔

ملزم محمد عثمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں چالان کی صاف کاپیاں فراہم نہیں کی گئیں۔

ایف آئی اے کے وکیل نے کہا کہ ہم ملزمان کو ابھی صاف کاپیاں فراہم کر دیتے ہیں۔

شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کی انویسٹی گیشن رپورٹ میں 24 بینکرز کا ذکر کیا گیا لیکن ان کا بیان چالان کا حصہ نہیں ہے۔

شہباز شریف نے عدالت کے روبرو مزید کہا کہ آخری بات کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایف آئی اے اب اسحاق ڈار کے زنگ آلود بیان کو استعمال کر رہا ہے، اس پر سپریم کورٹ فیصلہ کر چکی ہے۔

شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان پر فردِ جرم عائد نہ ہو سکی، عدالت نے شہباز شریف اور دیگر کی عبوری ضمانتوں میں 28 فروری تک توسیع کر دی۔

قومی خبریں سے مزید