• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس وقت سیاسی طوفان آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اپوزیشن نے بغیر ہوم ورک کیے حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کا گولا داغ دیا ہے، جبکہ حکمرانوں نے اس تحریک سے بچنے کیلئے وزیر اعظم ہائوس میں خصوصی اجلاس بلایا ہے۔ جس میں تما م حکومتی ترجمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی کو عوام کی دہلیز پر لے کر جائیں اور اپوزیشن کی سرگرمیوں بارے پاکستانیوں کو گھر گھر جاکر بتائیں۔ اس سیاسی طوفان میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنما چوہدری برادران کے ڈیرے پر حاضری دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے گورنرپنجاب چوہدری سرور، چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے آئے اور انہوں نے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کی اس سے قبل پرنٹ میڈیا پر یہ خبریں شائع ہوتی رہیں کہ چوہدریوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے گورنر چوہدری سرور کو چوہدریوں کے پاس ایلچی بنا کے بھیجا ہےتا کہ وہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے گلے شکوے سنیںاور اس ملاقات کی روشنی میں وزیر اعظم عمران خان چوہدری برادران کے تحفظات دور کریں۔ گورنر کی ملاقات کے بعد چوہدری برادران سے اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ن)کے سربراہ اور قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی میاں شہباز شریف نے 14سال کی طویل مدت کے بعد ملاقات کی اور حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے بارے گزارش کی جس کے جواب میں چوہدری برادران نے انہیں اپنی روایات کے مطابق بھر پور طریقہ سے اپنے گھر خوش آمدید کہا اور بڑی عزت دی اور انہیں بتایا کہ آپ پہلے تحریکِ عدم اعتماد کا پورے طریقہ سے بندوبست کریں ہم پانچ سال تک عمران خان کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے، ملاقات کے بعد وفاقی وزیر چوہدری مونس الٰہی نے بھرپور طریقے سے حکومت کو یہ یقین دلایا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم اکٹھے ڈٹ کر اپوزیشن کا مقابلہ کریں گےدراصل یہ جو سیاسی طوفان ہے یہ میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف کے خلاف نیب کی طرف سے بنائے گئے مقدمات کے باعث اُٹھا ہے جو اسی ماہ فروری میں میچور ہونے والے ہیں اور فردِ جرم عائد کرنے کیلئے ملزمان کو بتا دیا گیا ہے۔اس لیے مولانا فضل الرحمٰن کا کندھا استعمال کرتے ہو ئے اور آصف علی زرداری کی تجویز تحریک عدم اعتمادکو قبولیت بخشی ہے تا کہ فرد جرم عائد ہونے سے قبل ہی حکومت کو دبائو میں لایا جا سکے تاکہ شریف فیملی کے خلاف بنے ہوئے تمام کیسزسرد خانے کی نذر ہو جائیں۔ پہلے میاں نواز شریف عدم اعتمادکی تحریک کے خلاف تھے ان کی خواہش تھی کہ اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کروائے جائیں لیکن نواز شریف نے اب میاں شہباز شریف کو تمام پارٹی سربراہان سے میل ملاقات کی اجازت دے چکے ہیں اور تحریکِ عدم اعتماد بھی پیش کرنے کو کہاہے جس پر عمل کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، سالک حسین (ایم این اے) اور شافع حسین سے 1999کے بعد ملاقات کی جس کے دو ر رَس نتا ئج پاکستان کی قومی سیاست پر نمودار ہوںگے ۔پاکستان کی ساری سیاست اس وقت چوہدری برادران کے ڈیرے ظہورالٰہی روڈ پر گھوم رہی ہے۔ موجودہ حالات میں جتنے بھی سیاسی پنڈت ہیں وہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اگر اپوزیشن کو آج پرویز الٰہی کی طرف سے ہاں ہوجائے تو وہ ایک ہفتہ میں وزیر اعلی کا حلف اٹھا سکتے ہیں لیکن پرویز الٰہی نے کوئی بھی فیصلہ دیکھ بھال کر کرنا ہے اور جب تک ان کو اشارہ نہ مل جائے وہ وزیر اعلیٰ بننے کیلئے ہاں نہیں کریں گے۔ عمران خان کی حکومت نے مسلم لیگ (ق) کو مرکز اور صوبوں میں وزارتیں تو دی ہیں لیکن مفادِ عامہ کےلیے بنائی جانیوالی امن کمیٹی، پرائس کنٹرول کمیٹی اور دیگر مسائل کو حل کرنیوالے فورمز میں (ق لیگ) کو جگہ نہ دیکر ملک میں مہنگائی اور بد امنی جیسے مسائل کو جنم دیا ہےمیری دانست میں اگر چوہدری پرویز الٰہی کو اپوزیشن کی بجائے حکومت وزیر اعلیٰ پنجاب بنادے تو عمران خان کا اقتدار بچ جائے گا کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی حکومتی رموز کو آگے بڑ ھا ئیں گے اور اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلیں گے۔

تازہ ترین