• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی معیشت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، حکومت سب اچھا لیکن معاشی ماہرین اقتصادی صورتحال کو غیر تسلی بخش قرار دے رہے ہیں۔ افراطِ زر (CPI) 12.3فیصد جبکہ حساس پرائس انڈیکس (SPI)20.9 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں رواں مالی سال کے پہلے 6مہینے کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ 9ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو مالی سال کے اختتام تک 18سے 19ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 6مہینوں میں ایکسپورٹ 18.66 ارب ڈالر جبکہ امپورٹ 41.66ارب ڈالر ہوئیں اور اس طرح پہلی ششماہی میں 23ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا جو مالی سال کے اختتام تک 46 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔پی ٹی آئی حکومت نے اگست 2018ء سے دسمبر 2021ء تک 42.7 ارب ڈالرز کے قرضے لئے اور 32.7 ارب ڈالرز کے قرضے واپس کئے۔ اس طرح پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ 3سال میں 10 ارب ڈالرز کے اضافی قرضے لئے جو بڑھ کر 131 ارب ڈالرز ہوچکے ہیں جس میں گزشتہ مہینے ایک ارب ڈالر کے 7سالہ 8فیصد شرح سود پر سکوک بانڈز شامل نہیں۔ پاکستان کے اقتصادی سروے میں بیروزگاری کی شرح کے اعداد و شمار شائع نہیں کئے گئے لیکن عالمی بینک کے مطابق جون 2020ء میں پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 4.65 فیصد تھی۔ حکومت کی جانب سے جی ڈی پی گروتھ کیلئے Rebasing کی گئی ہے یعنی جی ڈی پی کی شرح نمو جانچنے کیلئے 2005-06ء کو تبدیل کرکے مالی سال 2015-16 ء لیا گیا ہے جس سے جی ڈی پی کی شرح نمو 3.9فیصد کے بجائے 5.37فیصد ہوگئی ہے جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی کا سائزبڑھ کر 346.76ارب ڈالر اور فی کس سالانہ آمدنی 1666 ڈالر ہوگئی ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ان معاشی اشاریوں میں بہتری کا فائدہ عام آدمی کو نہیں ہورہا؟

آئی ایم ایف نے اپنے قرضے کی شرائط کے مطابق 700ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پی ٹی آئی حکومت پہلے مرحلے میں 343ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر رضامند ہوئی جس کیلئے منی بجٹ میں نئے ٹیکسز لگائے گئے جس میں کھانے پینے کی اشیاء، بچوں کے دودھ، موبائل فون، پلانٹ اینڈ مشینری، ڈیری پروڈکٹس، پولٹری، پاور سیکٹر، فارماسیوٹیکل خام مال اور ادویات، انرجی سیور بلب، الیکٹرک کاروں، بیکری آئٹمز، ریسٹورنٹس، فوڈ چین، کاسمیٹکس اور جیولری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرکے 17فیصد سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا ہے جس سے کھانے پینے کی اشیاء مزید مہنگی ہونے کا براہِ راست اثر ایک عام آدمی پر پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق صرف فارماسیوٹیکل خام مال سے 160ارب روپے، پلانٹ، مشینری کی امپورٹ سے 112ارب روپے اور کھانے پینے کی اشیاء، پاور سیکٹر، موبائل فونز پر 15فیصد، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر 17فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس سے71ارب روپے اضافی وصول کئے جائیں گے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ موبائل فون، پلانٹ اینڈ مشینری، ڈیری پروڈکٹس، پولٹری، پاور سیکٹر، فارماسیوٹیکل خام مال اور ادویات، انرجی سیور بلب، کاسمیٹکس اور جیولری پر ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور نئے ٹیکسز لگنے کا مالی بوجھ عام آدمی پر نہیں بلکہ اشرافیہ پر پڑے گاجو سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان اشیاء میں زیادہ تر کھانے پینے کی اشیاء، بچوں کے دودھ اور ڈائپرز شامل ہیں جو ایک عام آدمی روزمرہ استعمال کرتا ہے اوروہ ان کی قیمتوںمیں اضافے سے براہِ راست متاثر ہوگا۔ منی بجٹ میں امپورٹ مرحلے پر 525مصنوعات جن میں خام مال، ڈائز اینڈ کیمیکلز، پولیسٹر فائبر، مشینری اور دیگر اشیاء شامل ہیں، پر ٹیکس لگنے سے ان کی امپورٹ لاگت میں اضافہ ہوگا جو ایکسپورٹرز کی مسابقتی سکت کو متاثر کرے گی۔

حکومت کے گردشی قرضے بڑھ کر ریکارڈ 2400ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں (SOEs) کا 2017-18 اور 2018-19ء میں تقریباً 700 ارب روپے کانقصان ہوا ہے جسے کنٹرول کرنے کیلئے آئی ایم ایف نے جون تک قانون سازی کرنے کی شرط رکھی ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافہ کیا جارہا ہے اور حال ہی میں 3روپے 10 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر 4 روپے ماہانہ کے حساب سے 30 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) عائد کیا جارہا ہے اور حال ہی پیٹرول کی قیمت میں 12روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے اور نئی قیمت ریکارڈ 160 روپےتک پہنچ گئی ہے۔

آج کل عالمی مارکیٹ میں خام تیل 95ڈالر فی بیرل اور ایل این جی 25ڈالر فی MMBTU کی ریکارڈ سطح پر فروخت ہو رہی ہے لہٰذا ہمیں بجلی پیدا کرنے کیلئے امپورٹڈ فرنس آئل اور ایل این جی کے بجائے مقامی ذرائع ہوا، سولر، کوئلہ، ہائیڈرو اور نیوکلیئر پر انحصار کرنا چاہئے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں کھانے کی زرعی اجناس امپورٹ کرنے کے بجائے مقامی طور پر پیدا کرنا ہوں گی۔ گیہوں، چینی اور دیگر اجناس آج ہم امپورٹ کررہے ہیں جنہیں ایک زمانے میں ہم ایکسپورٹ کرتے تھے۔

ہماری طاقت زرعی صنعتی پاکستان ہے لیکن ہم اپنے زراعت کے شعبے کی طاقت کو صحیح استعمال نہیں کرپائے جس کی وجہ سے ہمیں آج زرعی اجناس مہنگی امپورٹ کرنا پڑرہی ہیں جو ملک میں مہنگائی اور غربت میں اضافے کا باعث ہیں جس کی وجہ سے امپورٹ بل میں اضافے سے ہمارا تجارتی خسارہ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین