زبان ہزارہا سال کے سفر کے بعد آج جس مقام پر موجود ہے یہاں سے سفر آغاز ہوتے ہیں جن کی منزل انسانی فکر کی معراج ہے۔وہ سائنس ہویا فلسفے کی گتھیاں ،منطق یا طب کی جدت،مکان سے لامکاں تک کا سفر ہو یا شعروسخن کے وسیع تصوراتی جزیرے۔ سب کرامات زبان ہی کے طفیل ممکن ہیں۔زبان تہذیب کی پہلی سیڑھی ہے،جس کے ترتیب پانے سے معاشرے نے مہذب ہونے کی جانب قدم اٹھایا۔یہ ہزاروں سال کا سفر ہے جس میں زبان مسلسل آگے بڑھتی رہی اور معاشرتی تشکیل کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے تہذیبی دائرے کھینچتی گئی۔زبان کے ترتیب دینے میں کسی ایک فرد یا زمانے کا کردار نہیں ہوتا بلکہ یہ اجتماعی کوشش اور مسلسل ریاضت سے اپنی بہترین شکل تک پہنچتی ہے۔ایسا نہیں کہ زبان ایک ہی وقت میں تکمیل کے مراحل طے کر گئی یا اسے مذہب کی طرح عظیم اور مقرر کئے گئے رب کے بندوں نے عام انسانوں کے لیے پیش کر دیا۔یہ ایسی ریاضت ہے جس میں امیر ، غریب یا طبقاتی تفریق کے بغیر ہر کسی نے برابر حصہ ڈالا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جن معاشروں نے اپنی زبان کو دیارِ غیر کی ثقافت کی بھینٹ چڑھا دیا، وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت بھی معدوم ہوتی چلی گئی۔یوں کتنی ہی زبانیں اور ثقافتیں برباد ہوئیں اور آج محض تاریخ کی روایات ہی میں زندہ ملتی ہیں۔زبانوں یا ثقافتوں کے مٹ جانے کا یہ سلسلہ آج پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ زبانیں کس تیزی کیساتھ دم توڑ رہی ہیں اس کا اندازہ عالمی ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری کی گئی اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ 1950سے 2010تک دنیا کی کم و بیش 250زبانیں ختم ہوگئیں۔یہ وہ زبانیں تھیں جن کی صدیوں پرانی تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی خزانہ بھی تھا۔اس کے باوجود یہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائیں۔اب یہ اندازہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ موجودہ صدی کے اختتام تک اس سے کئی گنا زیادہ زبانیں مر جائیں گی جس کی وجہ دنیا کا تیزی کے ساتھ ایک نکتے یا ایک تہذیب کی جانب سفر ہے۔تشویشناک معاملہ یہ ہے کہ اگر دنیا میںزبانیں اور تہذیبیں اسی تیزی کے ساتھ مرتی گئیں تو پھر سے مشترک اقدار اور روایات پر اتفاق کا سفر صدیوں کی مسافت پر محیط ہوگا۔
زبانوں کی اس معدومیت کا احساس ہی آج اقوام عالم کو مادری زبان کا عالمی دن منانے کے نقطے پر لے آیا ہے۔آج دنیا بھر میں مادری زبانوں کے تحفظ کا دن منایا جارہا ہے،جس کی بنیادی وجہ ہی اپنی زبان سے محبت کرنا اور اسے محفوظ بنانے کی کوشش کرنا ہے۔یہ دن بنگلہ دیش میں 21فروری 1952ءکو پولیس کی گولیوںکا نشانہ بننے والے ان طلبا کی یاد میں منایا جاتا ہے جن کا تقاضا تھا کہ انہیں اپنی مادری زبان ترک کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔محققین کا کہنا ہے کہ سقوط ِ ڈھاکہ کی بنیاد بھی اپنی زبان ترک کرنے پر مجبور کرنے کا معاملہ ہی بنا تھا، جب قیام پاکستان کے محض چند ہی ماہ بعد بنگلہ زبان کو ڈاک ٹکٹوں اور سکوں سے ہٹا دیا گیا۔اس وقت جو زبانیں اختیار کی گئیں وہ انگریزی اور اردو تھیں،اس پر اہلِ دانش و فکر نے احتجاج شروع کیا اور بنگلہ ادب میں ایک بار پھر مزاحمت کا رنگ بھرتا دکھائی دیا۔اس حوالے سے ایک روزنامہ ملت نے اپنے مقبول اداریے میں لکھا کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سرکاری تسلیم کرنا غلامی تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔اسی طرح ایک اورروزنامہ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اگر اردو سرکاری زبان تسلیم کر لی جاتی ہے تو پھر جن لوگوں نے بنگلہ زبان میں تعلیم حاصل کی ہے وہ تو سرکاری ملازمت کیلئے کم اہل تصور کئے جائینگے۔ایسے دیگر مضامین نے ایسی فضا بنا دی کہ مشرقی پاکستان میں مزاحمت کی فضابن گئی۔بنگالیوںکو خطرہ تھا کہ اگر اردو زبان کو نافذ کر دیا گیا تو ان کی آئندہ نسلیں اقلیت بن کر رہ جائیں گی جبکہ خود بنگلہ زبان کی بقا بھی خطرے میں ہوگی۔اسی رد عمل میں جنوری 1948 کو راشٹرا واسا سنگرم پریساد نامی ایک تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد بنگلہ زبان کا تحفظ تھا۔اگرچہ ابتدائی طور پر یہ تنظیم خفیہ رہی لیکن اس نے بنگلہ زبان کے حوالے سے تحریک کو منظم کیا۔یہ الگ بات ہے کہ اس تنظیم کو تشکیل دینے میں مخالف قوتیں کس حد تک فعال رہیں،اصل معاملہ اس بنیادی حق کا تھا جسے غصب کرنے میں بعض ایسی قوتیں متحرک تھیں جو پاکستان کو متحد نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔بعدازاں، 26جنوری 1952کو پاکستان کی اسمبلی میں اردو کو قومی زبان قرار دیدیا گیا۔اس فیصلے پر رد عمل کے طور پر جلوس نکالے گئے اور ہڑتالوں کا اعلان بھی ہوا۔ 21فروری 1952کو بھی عام ہڑتال کی کال دی گئی،حکومت کی جانب سے حالات قابو میں رکھنے کیلئے دفعہ 144نافذ کر دی گئی۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا یہ پابندی توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے ابتدا ً لاٹھی چارج کیا،پھر گولی چلا دی۔اپنی زبان کیلئے لڑی جانیوالی اس لڑائی نے ثابت کر دیا کہ دو قومیں جن کی ثقافت اور روایات الگ الگ ہوں انہیں کسی ایک ثقافت کے زور پر اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔یہی وہ چنگاری تھی جسکے انیس سال بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اقوام متحدہ نے 2010میں جنرل اسمبلی سے قرارداد پاس کرنے کے بعد بنگالی طلبا کی برسی کو مادری زبانوں کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
آج ہم مادری زبان کا عالمی دن تو منا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آج حالات 1952سے کتنے مختلف ہیں؟کیا آج ہم وہیں ،اسی رویے کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش نہیں کر رہے جس میں مقامی زبانوں کوطبقاتی تفریق سے جوڑا جارہا ہے؟۔کیا ہماری بیوروکریسی اور مقتدر طبقہ احساس ِ برتری کےلئے محض انگریزی زبان کا مستقل فیشن اختیار نہیں کر چکا؟کیا ہمارے سرکاری دفاتر ،کچہری اور اسمبلی تک کی کارروائی انگریزی زبان میں قلم بند نہیں کی جاتی؟کیا تمام نوٹسز اور احکامات بھی انگریزی زبان ہی میں جاری نہیں ہوتے؟اور تو اور اس خطے کی سب سے بڑی زبان پنجابی کیساتھ ہونے والا سلوک انتہائی قابل ِ مذمت ہے۔اس زبان کی اپنی منفرد پہچان اور انتہائی شاندار تاریخی پس منظر ہے۔ یاد رکھیے اگر آپ کی زبان زندہ ہے تو آپ کی پہچان زندہ ہے ،ورنہ تاریخ آپ کو کسی اور کی تہذیبی پہچان سے یاد رکھے گی۔