• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آصف زرداری پاکستان کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد باعزت طور پر رخصت ہورہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر محترمہ بے نظیر، جوپی پی پی کی اصل سیاسی وارث تھیں، زندہ رہتیں تو مسٹر زرداری کبھی بھی پاکستانی سیاست میں داخل نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ جب محترمہ تیسری مدت کے لئے سیاسی میدان میں اتر رہی تھیں تو وہ چاہتی تھیں کہ اگر وہ اقتدار میں ہوں تو زرداری صاحب سیاست سے دور رہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کریں لیکن محترمہ کے بعد آصف زرداری نہ صرف میدان میں آئے بلکہ وہ سلالہ، میموگیٹ اور این آر او کی لٹکتی ہوئی تلوار کے باوجود نہایت ہوشیاری سے اپنے سیاسی مخالفین ، بشمول عدلیہ اور دفاعی اداروں کے افسران کے داؤ پیچ کے مقابلے میں اپنے بچاؤ کا سامان کرتے رہے۔
صدر صاحب کی رخصتی کے موقع پر ماحول خاصا خوشگوار ہے… وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف زرداری صاحب کے اعزاز میں عشائیے دے رہے ہیں جبکہ وہ وزیر ِ اعظم صاحب کیلئے صدارتی عشائیے کا اہتمام کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ جو ہم اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، اس کا کچھ دیر پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا جب سالانہ پارلیمانی خطاب کے دوران اپوزیشن نے زرداری صاحب کے خلاف نعرہ بازی کی ۔ اپوزیشن کے لیڈر متواتر ان کو اقتدار سے باہر کرنے کے منصوبے بناتے رہے لیکن بے سود۔ یہی وجہ ہے کہ آخر کار نہ صرف دوستوں بلکہ دشمنوں کو بھی تسلیم کرنا پڑاکہ ”زرداری صاحب نے سیاست میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے“۔
اب جبکہ وہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد رخصت ہورہے ہیں، مسٹر زرداری پاکستان اور اس کی نوخیز جمہوریت پر اپنے اثرات کا جائزہ لینا پسند کریں گے۔ اُنہوں نے اقتدار میں ہوتے ہوئے میڈیا، عدلیہ اور اپوزیشن کے دباؤ اور تنقید کے نشتروں کو نہ صرف نہایت خوشدلی سے برداشت کیا بلکہ آئین کے آرٹیکل 58-2B کے تحت ملنے والے صدارتی اختیارات بھی رضاکارانہ طور پر منتخب شدہ وزیر ِ اعظم کے حوالے کر دیئے۔ نہ صرف یہ بلکہ اُنہوں نے وفاق کو حاصل بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کئے، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو پارلیمینٹ کے دباؤ سے آزاد کیا ، صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبرپختونخوا رکھا، گلگت بلتستان کا صوبہ تخلیق کیا اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے غیر جانبدار الیکشن کمیشن قائم کیا۔ اس طرح کے بہت سے کام ان کے کریڈٹ میں ہیں۔ اگر وہ یہ جمہوری اقدامات نہ اٹھاتے تو اس وقت ہمارا توانا ہوتا ہوا سیاسی نظام کمزوری کی طرف مائل ہوتا۔
جمہوری نظام کی بہتری کے لئے زرداری صاحب کے اقدامات کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ بھی ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی بچاؤ کیلئے پاکستان کی معیشت کا کباڑا کر دیا۔ اُن کے دور میں پی پی پی کے جن دو وزیراعظم کو عہدہ ملا ، ان کا انتخاب کسی اہلیت، عوامی خدمت یا سیاسی سوجھ بوجھ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ زرداری صاحب نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ وہ کتنے نااہل یا بدعنوان ہیں اور ان کی وجہ سے پی پی پی کی سیاسی ساکھ کتنی خراب ہورہی ہے بلکہ ان کے پیش ِ نظر صرف یہ بات تھی کہ وہ جج حضرات اور دفاعی اداروں کے افسران کے دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کا تحفظ کریں چنانچہ جب پی پی پی کی حکومت، جو دراصل زرداری صاحب کی ہی حکومت تھی، نے اپنی آئینی مدت پوری کی تو ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی تھی، بیروزگاری اور قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا ، عوام کی معاشی حالت آخری دموں پر تھی، غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے سے کتراتے تھے، توانائی کی بدترین قلت پیدا ہو چکی تھی، ملیں اور فیکٹریاں بندہورہی تھیں، دہشت گردی اور جرائم اپنے عروج پر تھے جبکہ ملک عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار تھا۔ زیادہ تر پاکستانی اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے۔
درحقیقت ملک کو زرداری صاحب کے سیاسی بچاؤ کی اتنی بھاری قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ ملکی معیشت کا پہیہ جام کئے بغیر اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کا تحفظ کرنے کیلئے کچھ اور اقدامات بھی اٹھا سکتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر وہ خود ہی فاضل جج صاحبان کو بحال کردیتے تو عدلیہ این آراو کے معاملے پر شاید ان کو اتنا پریشان نہ کرتی اور پی پی پی حکومت کو ایسے دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس نے تمام حکومتی نظم و نسق کو مفلوج کر دیا تھا۔ شروع میں انہیں ایسا کرنا چاہئے تھا کہ وہ خود سامنے نہ آتے تاکہ اپوزیشن کو یہ تاثر نہ ملتا کہ وہ صدارتی استثنیٰ کو ڈھال بنا کر اپنا بچاؤ کررہے ہیں،اس کے بجائے وہ سونیا گاندھی کی طرح پس ِ پردہ رہ کر حکومت کر سکتے تھے۔ اس طرح وہ وزیرِ اعظم اور کابینہ کو بہتر انداز میں کنٹرول کرتے ہوئے اپنی پارٹی، حکومت اور پاکستان کے مفاد میں بہتر فیصلے کر سکتے تھے لیکن صدر ِ مملکت رہتے ہوئے اپنے بچاؤ کے لئے اُنہوں نے جو طرز ِ عمل اپنایا اس کے نتیجے میں ان کی جماعت کا سندھ کے سوا تمام صوبوں سے صفایا ہو گیا۔ سندھ میں بھی وہ قوم پرستی ، نہ کہ کارکردگی کے جذبات کی وجہ سے ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔
اس وقت مسٹر زرداری کے سامنے سیاسی میدان میں کامیابی کے امکانات معدوم ہیں۔ پی پی پی سندھ میں بھی شدید دباؤ کا شکار ہے کیونکہ کراچی کو لاقانونیت اور دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہاں کئے گئے کسی بھی آپریشن کے نتیجے میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے درمیان ٹکراؤ ہوگا۔ یہ صورتحال پی پی پی کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دے گی۔ دراصل اس وقت زرداری صاحب کی تمام تر توجہ سندھ کے بجائے پنجاب پر مرکوز ہے کہ یہاں کسی نہ کسی وجہ سے پی ایم ایل (ن) کی گرفت کمزور ہو تو وہ قدم رکھنے کی جگہ بنائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ نوازشریف کے ساتھ تعاون کرتے دکھائی دیں تاکہ ماضی کے مقدمات وغیرہ کی بازگشت سنائی نہ دے۔
جہاں تک نوجوان بلاول بھٹو کا تعلق ہے تو وہ ان طریقوں کو پسند نہیں کرتے تھے جو اُن کے والد آصف زرداری نے ملک اور پارٹی چلانے کے لئے اپنا رکھے تھے لیکن باپ اور بیٹے کے درمیان ”مفاہمت“ ہو سکتی ہے اور پھر پی پی پی کو بھی تازہ خون، جدت پسندی اور نئے تصورات کی ضرورت ہے تاکہ پی ایم ایل (ن) کو چیلنج پیش کر سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو اپنے سیاسی سفر کا آغاز وہاں سے کریں جہاں سے زرداری صاحب چھوڑ رہے ہیں۔ اب زرداری صاحب کو اس کام پر توجہ دینی چاہئے جو ان کی شہید بیوی نے ان کے سپرد کیا تھا۔
تازہ ترین