• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً تیس سال قبل عالمی بینک نے ایک اہم رپورٹ، ’’جنوبی ایشیا کا معجزہ‘‘ تیار کی تھی۔ اس میں مشرقی ایشیا کی آٹھ معیشتوں (جاپان چار ٹائیگرز ہانگ کانگ، سنگاپور، کوریا، تائیوان؛ اور تین آسیان ممالک، انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ) کی کامیابی کی کہانیوں کا خلاصہ تھا۔ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ان معیشتوں نے 1965 سے 1990 کے درمیان لاطینی امریکہ اور جنوبی ایشیا کے مقابلے تین گنا اور زیریں صحارا ممالک سے پانچ گنا زیادہ تیزی سے ترقی کی۔ 1990 کی دہائی کے دوران ترقی کی بلند رفتار برقرار رہی اور ان کی معاشی شرح نمو میں اوسطاً 8 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ عالمی تجارت میں ان کا حصہ تیز ی سے بڑھا۔ ان کی فی کس آمدنی میں نہ صرف کئی گنا اضافہ ہوا بلکہ ان کی آمدنی کی تقسیم میں بھی بہتری آئی کیونکہ ترقی کے فوائد وسیع پیمانے پرتھے۔ ان کا ارتکاز آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود نہیں تھا۔ گزشتہ پچیس برسوںکے دوران یہ واحد معیشتیں تھیں جنہوں نے بلند ترقی، غربت میں کمی اور معاشی ناہمواری میں کمی ریکارڈ کی۔ 1990 میں جاپان کی فی کس آمدنی امریکہ کے 85 فیصد تک پہنچ گئی (حالانکہ اس کے بعد یہ کم ہو کر 70 فیصد رہ گئی ہے)۔

عالمی بینک کی رپورٹ کی اشاعت کے وقت ان ممالک کی کامیابی کے عوامل کے بارے میں کافی تنازع تھا۔ ماہرین اقتصادیات کے ایک گروپ نے کامیابی کو مسابقتی مارکیٹ کی قوتوں، تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے کشادگی، ظاہری رجحان اور عالمی معیشت کے ساتھ انضمام کو قرار دیا۔ رابرٹ ویڈ اور ایلس ایمسڈن نے اس کے برعکس نقطہ نظر کو آگے بڑھایا۔ اُنھوں نے دلیل دی کہ کچھ منتخب شعبوں میں حکومت کی فعال مداخلت تھی جنھیں رعایتی فنانسنگ، زرمبادلہ، ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی فراہم کی گئی۔ مشرقی ایشیائی معیشتوں کی غیر معمولی کارکردگی کی بنیادی وجہ یہی پالیسی تھی۔ میرے خیال میں ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ یہ تقابل یعنی مارکیٹ بمقابلہ حکومت اب درست نہیں ہے۔ یہ تصور اب متروک ہوچکا ہے۔ ہمیں ایک مضبوط اور موثر حکومت اور اچھی کارکردگی دکھانے والی مسابقتی منڈیوں کی ضرورت ہے جنھیں حکومت ریگولیٹ کرے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز کو مشترکہ و متفقہ اہداف کے حصول کے لیے شراکت داری میں کام کرنا چاہیے۔ بندوبست ایسا ہو کہ ہر فریق کو فائدہ پہنچے۔

1980 کی دہائی میں چین آٹھ کے اس گروپ میں شامل ہوا جب ڈینگ چیائو پنگ (Deng Xiao Peng) نے معیشت کو کھولا، نجی شعبے کو مکمل طور پر معیشت میں حصہ لینے کی اجازت دی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کیا۔ بعد میں ویت نام کی طرف سے جس نے اپنی پرانی اور دقیانوسی کمان اور کنٹرولڈ اقتصادیات کو ترک کرتے ہوئے خود کو عالمی معیشت کے ساتھ انہی خطوط پر ہم آہنگ کیا جن پر چین نے کیا تھا۔ مشرقی ایشیاکے ترقی کے ماڈل کو بجا طور پر مشترکہ یا جامع ترقی کا ماڈل کہا جاتا ہے جس کے تحت آبادی کی اکثریت نے بڑھتی ہوئی معاشی اٹھان سے فائدہ اٹھایا۔ اس میں دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔

ورلڈبینک کی رپورٹ کے تیس سال بعد اس بات کے زبردست شواہد موجود ہیں کہ مشرقی ایشیائی معیشتوں نے نہ صرف اقتصادی ترقی اور غربت میں کمی کے حوالے سے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ 1997، 2008 کے بحران اور 2020 میں وبائی امراض کا بھی کامیابی سے مقابلہ کیا ہے ۔ان ممالک نے 2000 کے بعد سے اپنے جی ڈی پی میں تین گنا سے زیادہ اضافہ کیا اور ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ وہ درمیانی سے اعلی آمدنی کے راستے پر ہیں۔ سماجی اشاریے بھی اتنے ہی متاثر کن فوائد کی کہانی سناتے ہیں۔ اسکول میں داخلہ، تعلیمی حصول، بچوں کی شرح اموات میں کمی، پانی کے بہتر ذرائع اور صفائی ستھرائی 2000 کی دہائی کے اوائل کے مقابلے بہت بہتر نظر آتے ہیں۔ افرادی قوت کی شرکت، اجرت اور تعلیمی حصول میں مرد اور خواتین کے درمیان فرق بھی کم ہو گیا ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ایشیا کا حصہ (پی پی پی دورِ حکومت میں) 1973 میں 24 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 40 فیصد ہو گیا۔ ایشیائی مرکزی بینکوں کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر اب عالمی کرنسی کے ذخائر کا 70 فیصد بنتے ہیں اور امریکہ کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے نصف سے زیادہ مالی اعانت فراہم کرتے ہیں۔

بلاشبہ جاپان، جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ترقی کی دوڑ میں سبقت لی تھی، کو دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح مختلف مسائل کا سامنا ہے جو کہ بالغ معیشتوں کو گھیرے میں لے رہے ہیں۔ ان مسائل کا تعلق عمر رسیدہ آبادی سے ہے جس نے ان کی محنت کش افرادی قوت کا حجم کم کردیا ہے۔ اصل آٹھ میں سے چار دیگر ممالک بھی اعلیٰ آمدنی والے گروپ میں داخل ہو گئے ہیں۔ کوریا پہلے ہی OECD میں شامل ہو چکا ہے۔ تائیوان کی فی کس آمدنی32ہزار ڈالر سے زیادہ ہے اور یہ ٹیکنالوجی اور خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز کے پاور ہاؤسز میں سے ایک ہے۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ بھی آمدنی کے لحاظ سے عالمی بینک کی درجہ بندی کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک ہیں اور ان کی برآمدات جی ڈی پی کے تناسب سے 200 فیصد سے زیادہ ہیں۔چنانچہ مشرقی ایشیائی ترقی پذیر معیشتوں کا گروپ اب ملائیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ پر مشتمل ہے، جس میں چین، فلپائن، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس اور میانمار بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

تازہ ترین