• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل اور آج بھی سینٹرل لندن اور سوئٹزر لینڈ کو غیرملکیوں کی انویسٹمنٹ کے لحاظ سے ’’محفوظ جنت‘‘ سمجھا جاتا ہے جہاں ’’ انٹرنیشنل پلیئرز‘‘ اپنی کالی یا سفید دولت آف شور کمپنیز کے ذریعہ زیادہ تر رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کرتے ہیں اور درونِ خانہ برطانوی اور سوئس ادارے یہ سوچ کر آنکھیں بند رکھتے ہیں کہ یہ دولت جیسی بھی ہے آ تو ہمارے ہی ملک میں رہی ہے جو ہماری معیشت کی خوشحالی کا باعث بھی ہے۔ حال ہی میں سوئٹزر لینڈ کے ایک بینک سے لیک ہونے والی معلومات میں 128ممالک سے تعلق رکھنے والے کلائنٹس کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن میں 18ہزار بینک اکاؤنٹ اور 30ہزار کھاتہ داروں کی تفصیلات شامل ہیں، ان لیکس کو ’’سوئس سیکریٹس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے بینکنگ رولز انتہائی سخت ہیں لیکن تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی سوئس بینک کا اتنا بڑا ڈیٹا لیک ہو کر میڈیا تک پہنچا ہو، یہ راز افشا کرنے والے شخص نے جرمنی کے ایک اخبار ’’سوڈوچے زائتونگ‘‘ کو یہ مواد فراہم کیا ہے جس نے تحقیقاتی صحافت کی سب سے بڑی تنظیم ’’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ‘‘ کے ساتھ مل کر اس پر کام کیا اور 39ممالک کے 160صحافیوں نے مل کر ان لیکس کا جائزہ لیا ہے۔ مذکورہ لیکس میں 1400پاکستانیوں کے 600اکاؤنٹس ہیں۔ اس میں پاکستان کے ایک اہم ترین سیاسی عہدے پر موجود شخصیت کا اکاؤنٹ بھی ہے جو خبروں کے مطابق بینک کا امیر ترین کلائنٹ ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں واقع پرائیوٹ بینک کے لیک ہونے والے اکاؤنٹس میں پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ’’ڈالر اکاؤنٹ‘‘ رکھنے والے ممالک میں 48ویں نمبر پر آیا ہے۔

لندن ہو یا سوئٹزرلینڈ، حکومت یا ریاست پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو بھی یہ حقیقت اب سمجھ لینی چاہیے کہ دولت کے ذرائع خواہ کچھ بھی ہوں غیر ملکی بینکوں یا ان ممالک کو یہ ذرائع جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ یہ رقم جائز ذرائع سے آئی ہے یا نہیں کیونکہ اگر اس معاملہ میں وہ سختی کریں گے تو سادہ سی بات ہے کہ کوئی کیوں اپنے ملک سے دولت اُٹھا کر کسی دوسرے ملک میں انویسٹ کرے گا؟ لندن کے وسط میں تقریباً دو میل لمبائی چوڑائی کے علاقے میں پاکستان کی سیاسی، فوجی، عدالتی، بیوروکریسی، کاروباری اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بیسیوں جائیدادیں موجود ہیں لہٰذا سوئس بینک ہوں، برطانوی بینک ہوں یا کسی دوسرے ملک کے بینک اور حکومتیں یہ سب غیرملکی سرمایہ کاری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ظاہر ہے سرمایہ کاری بینکوں کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔ ان حکومتوں نے تو ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو کھلے عام آف شور اکاؤنٹس رکھنے اور کمپنیاں کھلوانے کی بھی سہولت دے رکھی ہے۔ کیا انہیں علم نہیں کہ سرمایہ دار اگر آف شور کمپنی کھلواتا ہے تو پس پردہ اس کی سوچ کیا ہوتی ہے؟

قارئین کو یاد ہوگا کہ 2009میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو صدر آصف علی زرداری کیخلاف سوئس اکاؤنٹس کا بڑا واویلا ہوا پھر خط نہ لکھنے کی پاداش میں یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ سے بھی دست بردار ہونا پڑا اور بعد ازاں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن آصف علی زرداری کے اکاؤنٹس اور دیگر ثبوت مٹانے کے لیے سوئیٹزز لینڈ پہنچے جہاں سے وہ خفیہ طور پر 12باکس لے کر لندن آئے لیکن آج تک کسی کو پتا نہیں چل سکا کہ مذکورہ باکس کہاں گئے۔ موجودہ حکومتِ پاکستان بھی واویلا کر رہی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے دبئی میں ٹاور، کاروبار اور سوئس بینکوں میں بڑی بڑی رقوم اور لندن میں اپارٹمنٹس خریدے گئے اور خریدے جا رہے ہیں۔ عوام کو ’’تحریک انصاف‘‘ کے وہ وزیر بھی یاد ہوں گے جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے چلا چلا کر کہتے تھے کہ عمران خان حکومت میں آتے ہی پاکستانیوں کے 200بلین ڈالر واپس لائے گا، 100بلین ڈالر غیرملکی قرض داروں کے منہ پر مارے گا اور باقی پاکستان کے عوام پر لگائے گا، تو پھر کیا ہوا کہاں گئے وہ وعدے اور دعوے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک ایک بھی ڈالر پاکستان واپس نہیں آیا۔ 2014میں بھی پاکستان کے عوام کو یہ خبر دی گئی کہ سوئٹزر لینڈ سے معاہدہ ہوگا کہ پاکستان کے سو بلین ڈالر واپس لائے جائیں گے لیکن یہ وعدہ اور اس قسم کے بیشمار دعوے جو گزشتہ 20سال سے کیے جارہے ہیں، کیا وہ وفا ہو گئے؟ پاکستان کی طرح دنیا کے دیگر ممالک اور بھارت کے بھی بیشمار سرکردہ افراد کے اکاؤنٹس سوئس بینکوں میں موجود ہیں، بھارت کی وزارتِ خزانہ آج بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ انڈیا سے لوٹے گئے 20,700کروڑ روپے سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔

حکومتِ پاکستان ہمہ وقت پاکستان سے باہر موجود افراد اور مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم واپس لانے کے بلند بانگ دعوے تو کرتی ہے لیکن کوئی بتائے گا کہ کیا اس حکومت نے اپنے وزیروں، مشیروں کی کوئی کرپشن پکڑی یا کسی سے ایک روپیہ بھی برآمد کروایا اور پھر ’’پانامہ لیکس‘‘ میں جن 444پاکستانیوں کے نام آئے تھے ان کا کیا ہوا؟ کیا ان سے کوئی روپیہ وصول ہو سکا یا وہ لوگ قانون کے دائرے میں لائے جا سکے؟ ایسا تو یقیناً نہیں ہو سکا اور نہ مستقبل میں ایسی کوئی امید کی جا سکتی ہے لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ سیف الرحمٰن سے لے کر شہزاد اکبر تک غیر ملکی دوروں، مہنگے ترین غیرملکی وکیلوں اور کاوے موسوی کی فرم کو اربوں روپے کی ادائیگی کر کے قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا لیکن برطانیہ، دبئی، نیو یارک یا سوئٹزر لینڈ سے ایک روپیہ بھی پاکستان واپس نہیں لایا جا سکا اور نہ ہی کسی ملک نے اپنے ہاں قانون کے مطابق رہنے والے کسی پاکستانی کو پاکستان کے حوالے کیا، ہاں صرف ایک کیس میں یوکے کی ’’نیشنل کرائم ایجنسی‘‘ نے 190ملین پاؤنڈ پاکستان کو واپس بھجوائے لیکن اس رقم کا آج تک علم نہیں ہو سکا کہ یہ بڑی رقم کس کے اکاؤنٹ یا کس کی جیب میں ہے؟ موجودہ حکومت جو گزشہ تقریباً پانچ سال اور خصوصاً اپنے دور حکومت کے ساڑھے تین سال میں پاکستان کی سیاست کے دو خاندانوں پر کرپشن کے الزامات بڑے تواتر کیساتھ لگاتی آ رہی ہے لیکن اب اسے حالیہ ’’سوئس سیکرٹ‘‘ میں آنے والے 1400اور اس سے قبل پانامہ پیپرز میں آنے والے 444پاکستانیوں سے بھی تفتیش کرنا ہوگی تاکہ واضح ہو سکے کہ حکومت وچ ہنٹنگ نہیں کرتی اور بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتی ہے۔

تازہ ترین