کبھی ہم کہا کرتے تھے ہم نے تین جنگیں دیکھی ہیں، کبھی کہتے ہم نے چار جنگیں دیکھیں۔ وہ جھوٹ تھا۔ہم نے وہ جنگیں دیکھی نہیں تھیں، وہ ہمارے زمانے میں کہیں دور دراز محاذوں پر لڑی گئی تھیں۔ مگر آج میرے کمرے میں آراستہ ٹیلی وژن ہے اور میں اپنے پورے ہوش وحواس میں جنگ دیکھ رہا ہوں، گولے پھٹ رہے ہیں، عمارتیں گر رہی ہیں،آگ لگ رہی ہے، دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہ تو جانے پہچانے منظر ہیں مگر جو منظر کلیجہ نکال رہا ہے وہ جان بچا کر بھاگنے والی پریشان حال مائیں اور ان کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہوئے سہمے ہوئے، حیران و پریشان بچے ہیں۔ ماں گھر کا جتنا سامان اٹھا سکتی ہے وہ اس نے گود میں بھراہوا ہے۔باقی سامان پیچھے دوڑنے والے بچے نے اٹھا رکھا ہے، اتنا زیادہ سامان کہ وہ ماں کی انگلی تھامنا چاہتا ہے پر نہیں تھام سکتا۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے بچہ پیچھے رہ جائے گا اور ماں کونہیں پتہ وہ کون سے مجمع میں روندی جائے گی۔ آج کی جنگ محاذوں پر نہیں لڑی جاتی۔ آج کی جنگ کی آنچ ہماری گلی کوچوں تک آتی ہے اور اس کی تپش ہمارے گھروندوں تک آتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے جنگ دیکھی ہے ہم نے انسان کو انسان پر ظلم توڑتے دیکھا ہے۔ہم نے بے آ سرا لوگوں اور سراسیمہ عورتوں کو چیخ وپکار کرتے دیکھا ہے اور جو منظر کسی حال آنکھوں سے محو نہیں ہوتا وہ اس بچے کا دہشت زدہ چہرہ ہے جو سب کچھ دیکھ تو رہا ہے پر سمجھ نہیں پا رہا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔کوشش کر رہاہے کہ رونے نہ پائے مگر ماں باپ کو روتا دیکھ کر آخر وہ بھی پھٹ پڑتا ہے۔
میں نے ابھی بچے کی جو کیفیت بیان کی کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے مگر سمجھ نہیں پارہاکہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔خدا جھوٹ نہ بلوائے بالکل یہی حالت ہماری بھی ہے۔بہت سوچ بچار کے بعدیہی خیال آتا ہے کہ انسان نے کائنات تک کے راز جان لیے ہیں پر وہ خود انسان کو سمجھ نہیں پایا۔بھلا بتائیے، لوگ اپنے ہاں ہتھیاروں کے انبار لگا رہے ہیں، اس انبار میں نئے نئے اور پہلے سے زیادہ جان لیوا ہتھیار شامل کر تے جارہے ہیں۔مگر کس لیے؟ دوسروں کو مارنے کے لیے؟جنگ چھیڑنے کے لیے؟جس کی بھٹی میں خود وہ بھی جھونکے جائیں گے۔عجیب مخلوق ہے یہ انسان بھی۔خداجانے اس کو کس نے اشرف المخلوقات ہونے کی سند عطا کردی ہے۔یورپ جو تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں وہ سفید فام نسل بستی ہے جسے سب سے افضل منوالیا گیا ہے۔ وہاں بارود کے ڈھیر لگے ہیں اور ہر جانب چنگاریاں سلگ رہی ہیں کہ اک ذرا سا اشارہ پاتے ہی سارا سنسار پھونک ڈالیں۔مجھے سب سے زیادہ پریشانی اُس نسل کی طرف سے ہے جس کے ذہنوں پر یہ خون خرابہ اپنی خراش چھوڑے گا۔ ان بچوں کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوگی جو اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ بربادی اور تباہی دیکھ رہے ہیں۔ انگریز ی میں لفظ ہے ’ٹراما‘ وہ اس کیفیت پر صادق آتا ہے۔ یہ اس گھاؤ کا دوسرا نام ہے جو اذیت ناک منظر انسان کے ذہن پر چھوڑتا ہے۔
جب میں نے ہوش سنبھالا،یہ سنہ چالیس سے پہلے کی بات ہے۔ دوسری عالمی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ میرے چھوٹے سے شہر میں شہری دفاع یا سول ڈیفنس کا نظام پوری طرح حرکت میں آچکا تھا۔رضا کار دوڑ دھوپ کر رہے تھے، خندقیں کھودی جارہی تھیں اور سائرن بجتے ہی لوگوں کا خندقوں میں دبک جانامجھے خوب یاد ہے۔سائرن کی آواز، رضاکاروں کی سیٹیوں کا شور،مجھ نو عمر لڑکے کے ذہن پر آج تک نقش ہے۔سوچتا ہوں کہ یورپ کی اس جنگ کی زد میں آئے ہوئے کمسن بچے ابھی تو بھاگ رہے ہیں، آخر کہاں پناہ ملے گی اور کس چھت کے نیچے یہ سکون کی نیند سوپائیں گے۔میں نے سنہ 65 کی جنگ بھی دیکھی۔ میں اخبار کی رپورٹنگ کے لیے محاذ پر گیا تھا۔ وہاں لڑاکا طیاروں نے ہم پر حملے کئے۔ مجھے دہشت کے وہ سارے لمحے آج تک یاد ہیں۔سنہ 71کی جنگ کے دوران ہم راتوں کو جاگ کر اخبار نکالتے تھے اور اسی مصروفیت کے دوران سائرن بجتے تھے،دشمن کے طیاروں کے سر پر آجانے کی آوازیں آتی تھیں اور ہم تہ خانے میں چھپ کر پناہ لیتے تھے۔ اس دوران ہماری سانسوں کا دھونکنی کی طرح چلنا خوب یاد ہے۔ انسان کا ذہن اپنا کام کئے جاتا ہے۔جن منظروں کو چاہتا ہے محفوظ کر لیتا ہے اور جو منظر دل کو نہ بھائیں انہیں کسی حد تک ڈیلیٹ کردیتا ہے۔ بڑوں کی عقل پر یہ نقش اُس طرح کے نہیں ہوتے،ننھے بچوں کے دل و دماغ پر ان کی نوعیت بالکل الگ ہوتی ہے۔ نقش ثبت ہوتے وقت بچوں کو پوری طرح اندازہ نہیں ہوتا کہ اس منظر میں کون کس کی جان لے رہا ہے، کو ن کس کے خون کا پیاسا ہے اورکون آخر چاہتا کیا ہے۔ویسے مانتا ہوں،ان سوالوں کے جوابوں کا علم پوری طرح ہم بالغوں کو بھی کم کم ہی ہوتا ہے۔ مگرپھر ہوتا یہ ہے کہ اچانک کسی رات نام پتہ بتائے بغیر نہ جانے کہاں سے چلتا ہوا کوئی ان جانا خواب نازل ہوتا ہے اور اعصاب کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔جنگ کا ایک بڑا عذاب یہ ہے کہ یہ چاہے ایک لمحے کے لیے چھڑے،ذہن کے کسی گوشے میں پھانس بن کر چبھے جائے ہے۔وہ بھی عمر بھر۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)