• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہواؤں کے مخالف اُڑنا مرشد کی ایک ادائےخاص ہے۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے ایک بات تو کہنی پڑتی ہے کہ مرشد ہمیشہ سے کچھ ایسا انوکھا کرتے ہیں کہ ساری دنیا منہ میں انگلیاں دبائے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے کہ یہ کیا کر دیا۔ مرشد چین سے چَین کی بانسری بجاتے وطن واپس آئے تو اپوزیشن جماعتوں نے انہیں گھیر لیا پھر ایسے حالات میں ماسکو چلے گئے جب پوری دنیا یوکرین کے ساتھ کھڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امپائر بھی مرشد کی سوچ کے ساتھ کھڑا ہے یا نہیں؟ لمحہ بہ لمحہ بدلتی عالمی صورتِ حال، عالمی جنگ کے منڈلاتے بادل، مستقبل کی ممکنہ معاشی تباہ کاریاں، روس پر عالمی پابندیاں، ملکی سیاسی معاملات میں روز بروز بڑھتا تناؤ ایسے سنجیدہ اور پیچیدہ سوالات ہیں جن کا جواب مرشد کے پاس ہے یا مرشد کو سہارا دینے والے ہی اس کا بہتر جواب دے سکتے ہیںکہ اگر انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ امریکہ سمیت مغربی ممالک کے بلاک سے نکل کر روس کے ساتھ کھڑے ہو کر قومی مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کو درپیش آنے والی معاشی و اقتصادی مشکلات سے پیش آنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ مرشد کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہمیشہ ایڈونچر پسند کرتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ایسی ترکیب ضرور نکال لیتے ہیں جس سے مخالفین حیران و پریشان ہوجائیں۔ قوم سے خطاب کے دوران پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی خوشی و حیرت کا باعث ہے کہ جب یوکرین کے مسئلے پر دنیا بھر کی معیشتیں بحران کا شکار ہیں، پٹرول کی عالمی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط کی تلوار سر پرلٹک رہی ہے، ایسے میں اتنا بڑا ریلیف پیکیج صرف مرشد ہی دے سکتے تھے۔ یہ مرشد کی ایک کامیاب سیاسی حکمتِ عملی قرار دی جاسکتی ہے کہ ایک طرف اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے نام پر اسلام آباد پر چڑھائی کررہی ہیں تو دوسری طرف عوام مہنگائی کی وجہ سے حکومتی پالیسیوں سے ناراض ہیں۔ کیا ایسے میں بڑے بڑے ریلیف پیکیجز اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ مرشد نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اتحادیوں کو بھی بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ (ق) لیگ کی قیادت کی طرف سے تو ڈٹ کر مرشد کا ساتھ دینے کا اعلان آگیا ہے مگر اندرون خانہ خبر یہ بھی ہے کہ چوہدری برادران سے مرشد کی ملاقات میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر تک نہیں ہوا، (ق ) لیگ کے اہم رہنما طارق بشیر چیمہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ عدم اعتماد میں حکومت کے ساتھ ٹھہرنا ہے یا خلاف جانا ہے اس بارے میں بڑے چوہدری صاحب کی مشاورت جاری ہے گویا کہ اپوزیشن کی طرف سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی پیشکش اب بھی برقرار ہے اور یہ فیصلہ بڑے میاں صاحب نے کرنا ہے کہ وہ آئندہ ڈیڑھ سال پنجاب کی پگ پرویز الٰہی کے سر پر رکھتے ہیں یا نہیں، شنید یہ بھی ہے کہ کسی نازک مرحلے پر یہ پیشکش مرشد بھی کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان اشاروں کنایوں میں دھمکیاں دے رہی ہے، جہانگیر ترین گروپ کے اراکین اسمبلی بے چینی کا شکار ہیں کیونکہ مرشد کے ریلیف پیکیج اتحادیوں کی سیاسی بقاکو کوئی سہارا نہیںدے سکیں گے مہنگائی عوام کا مسئلہ ہے۔ اتحادیوں کا مسئلہ ان کا سیاسی مستقبل ہے۔ مرشد کے اعلانات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انہوں نے وقتی سیاسی و انتخابی پیکیج کا اعلان کسی اتحادی جماعت کے لیے نہیں بلکہ تحریک انصاف کی عوام میں اکھڑی ساکھ بحال کرنے کے لیے دیا ہے۔ مستقبل کی انتخابی سیاست میں جہاں بڑے مولانا صاحب زرداری اور میاں صاحبان کا سب کچھ داؤ پر لگا ہے وہاں (ق ) لیگ، ایم کیو ایم پاکستان، جے ڈی اے بھی پریشان ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ میں رہ کر ان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ باپ پارٹی والے الگ سے وزارتوں میںاپنا حصہ سینہ ٹھونک کر مانگ رہے ہیں۔ عمرانی دور کے ساڑھے تین سال میں اتحادیوں کی جو ساکھ برباد ہو چکی ہے اسے بحال کرنا اتنا بھی آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے مولانا صاحب اب جوان نظر آنے لگے ہیں۔ زرداری صاحب پربھی ان کا رنگ چڑھتا جا رہا ہے۔ شکر ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کی کمر درد کو بھی کافی حد تک افاقہ ہے۔ ابھی یہ کھوج لگائی جارہی ہے کہ آخر ان بزرگوں کے ہاتھ کون سے حکیم کا ایسا نادر نسخہ لگا ہے کہ یہ سب بڑھاپے میں بھی جوان نظر آنے لگے ہیں۔ بلاخوف دن رات ملاقاتیں کررہے ہیں، کھانے تناول فرمائے جارہے ہیں۔ کانوں میں سرگوشیاں کرتے بزرگوں کا یہ گروپ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دے رہا کہ آخر درون خانہ چل کیارہا ہے؟ کوشش تو یہ کی جارہی ہے کہ بڑے چوہدری صاحب کو بھی چڑھتی جوانی کا یہ نسخہ کھانے پر مائل کیا جائے لیکن چوہدری صاحبان بڑے محتاط ہیں کہ بابوں کی یہ آنیاں جانیاں بے سبب نہیں، بلاول بھٹو کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کے ہمراہ چل پڑے ہیں۔ ان کا جگہ جگہ شاندار استقبال کیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں جوش و ولولہ نظر آرہا ہے۔ بلاول بھٹو اپنی تقاریر میں حکومت کو للکار رہے ہیں۔ دوسری طرف ”شاہ ملتان سلطانز“ حقوقِ سندھ مارچ ایسے چلا رہے ہیں جیسے ”لاہور قلندرز“ کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہوں۔ واضح طور پر نظر آرہا ہے سندھ اب بھی پیپلزپارٹی کا ہے اور تحریک انصاف کی گنتی شمار میں نہیں ۔ تحریکِ عدم اعتماد کا مرحلہ آئے یا عام انتخابات کا، کراچی سمیت سندھ بھر میں تحریکِ انصاف کہیں نظر نہیں آتی اور (ن) لیگ، پنجاب کسی دوسرے کے ہاتھ میں جانے نہیں دے گی۔ مرشد کے دورِ اقتدار میں تحریک انصاف کا یہ حال ہے تو کل جب وہ حکومت میں نہیں ہوں گے توحالت کیا ہوگی؟ حکومتی اتحادی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین