پشاور کی امامیہ جامع مسجد میں عین نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 63افراد کی شہادت اور 200سے زائد کے زخمی ہونے کے المناک سانحے نے موجودہ صدی کے ابتدائی پونے دو عشروں کے ان لرزہ خیز دنوں کی یادیں تازہ کردی ہیں جب ملک بھر میں خود کش حملوں میں درجنوں افراد کی شہادت اور سینکڑوں کا زخمی اور معذور ہو جانا روز کا معمول تھا۔ سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ عام تھی۔ تاہم بحمدِ اللہ پچھلے دورِ حکومت میں سول اور عسکری قیادت کے باہمی تعاون سے مکمل قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان کی تیاری اور آپریشن ضربِ عضب اور اس کے بعد آپریشن رَدُّ الفساد کے ذریعے سے افواجِ پاکستان کے جوانوں، نیم فوجی تنظیموں، خفیہ ایجنسیوں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی مربوط کارروائیوں کے نتیجے میں اس خوفناک دہشت گردی سے ملک کو نجات مل گئی تھی۔ اس تناظر میں موجودہ حکمرانوں کے لیے یہ یقیناً ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں خاص طور پر دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے جبکہ کراچی میں بھی سڑکوں پر لوٹ مار اور گھروں اور بازاروں میں ڈکیتیوں کا پرانا دور واپس آچکا ہے۔ سانحہ پشاور کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں ان سے واضح ہے کہ یہ کارروائی عین اسی طریق کار کے مطابق انجام دی گئی جو بالعموم مذہبی بنیادوں پر قائم دہشت گرد تنظیموں کے مختلف دھڑے ماضی میں اختیار کیا کرتے تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ سیاہ لباس میں ملبوس بمبار نے پہلے سیکورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی پھر منبر کے سامنے آکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے میں 5سے 6کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا جبکہ دھماکے سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ وقوعہ سے ڈیڑھ سو کے قریب بال بیئرنگ بھی ملے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ اس بات کا درست ہونا خاصا قرینِ قیاس ہے کیونکہ افغانستان میں بھی طالبان حکومت کے قیام کے بعد داعش کی جانب سے دہشت گردی کی کئی بڑی کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔ داعش کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ ایک پُراسرار مقاصد کی حامل مسلح تنظیم ہے جس نے عرب دنیا میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ذریعے سے مسلمانوں کے مختلف مسالک میں منافرت کو ہوا دے کر بہت بڑے پیمانے پر باہمی قتل و غارت گری کی راہ ہموار کی۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہی خونی کھیل اب پاکستان میں شروع کرنے کا ہدف پاکستان دشمن طاقتوں کی جانب سے اس تنظیم کو دیا گیا ہو۔ اگر پشاور کی امامیہ جامع مسجد میں اس خود کش حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوئی ہے تو افغان طالبان کی موجودہ حکومت سے اس بنیاد پر پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنا بھی داعش کی اس تازہ کارروائی کا ایک بڑا مقصد ہو سکتا ہے کیونکہ یہ پاکستان مخالف طاقتوں کی عین تمنا ہے۔ وزیراعظم کا یہ انکشاف نہایت اہم ہے کہ حکومت کو اس بات کا مکمل علم ہو گیا ہے کہ دہشت گرد کہاں سے آئے چنانچہ پوری قوت سے ان کا تعاقب کیا جارہا ہے اور وزیراعظم بذاتِ خود اس کارروائی کی نگرانی کررہے ہیں۔ ایسا ہے تو یہ توقع بےجا نہیں کہ اس دہشت گردی کے اصل ذمہ داروں تک قانون نافذ کرنے والے ادارے بہت جلد پہنچ جائیں گے اور مجرم انصاف کے کٹہرے میں لے آئے جائیں گے۔ دہشت گردی کے تازہ چیلنج کا سر آغاز ہی میں کچل دیا جانا بلاشبہ قطعی ناگزیر ہے کیونکہ اس فتنے کا بےقابو ہو جانا ملک و قوم کے لیے انتہائی تباہ کن ہوگا۔ پچھلے دور میں اس چیلنج سے نمٹنے میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہمارے خفیہ اداروں نے جو کلیدی کردار ادا کیا تھا، اُسے ازسرنو پوری طرح بحال کرکے ایک بار پھر ویسے ہی فیصلہ کن نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔