جیسے کرفیو اُٹھ گیا ہو، جیسے خطرہ ٹل جانے کا سائرن بجا ہو، جیسے سنسان شہر میں یک لخت رونق لوٹ آئے، کچھ اس انداز سے کورونا کی جکڑ بندیاں ختم ہوئیں۔ پورے دو برس بعد ہم نے اپنے جوتے چمکائے، قمیص پر استری پھیری اوربال جما کر گھر سے نکلے۔ شہر میں ادبی نشست تھی۔ کس غضب کی گھٹن تھی۔ ہر چند کہ انٹرنیٹ پر ادبی مذاکرے جاری تھے۔ شعری محفلیں بھی آراستہ تھیں، سنجیدہ مباحثے بھی ہو رہے تھے، تعزیتی قراردادیں بھی منظور ہو رہی تھیں اور ادبی تحقیق کے کام بھی چل رہے تھے۔ مگر وہ جو حاضرین کے ہونے سے رونق برستی ہے محفل پر وہ تو دور دور نظر نہ آتی تھی۔ سب کچھ بجھ سا گیا، شاعرو ں کی زبان میں، اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش تھی۔
پھر یہ ہوا کہ لندن کے اردو مرکز نے سفارت خانہ پاکستان کے اشتراک سے اس کے دالان میں شامیانہ لگا کر ایک تازہ کتاب کی رونمائی اور اجرا کے نام پر ادبی شام کا اعلان کر دیا۔ شام ہوئی اور دو برس سے بچھڑے ہوئے احباب ہر سمت سے آئے اور جس پیار سے بغل گیر ہوئے، ہم نے کہا کہ یہ بھی کورونا کی کرامت ہے کہ جدائی کے کرب سے گزار کر پھر وصل کی نعمت سے نوازا۔ لوگ جی جان سے ملے، دو سال کم نہیں ہوتے، اب جو ملے تو تھوڑے تھوڑے حلئے بدلے ہوئے تھے۔کسی نے اپنا نام یاد دلایا، کسی نے داڑھی بڑھا لی، چند ایک نے اپنا وزن بڑھا لیا، خواتین نے اپنی وضع بدل لی مگر چہرے پر سر شاری ویسی ہی تھی دو برس پہلے جیسی۔شام کا اہتمام کرنے والوں میں سے کسی نے پکار کر کہا، اسیری کے بعدرہائی دلانے کا شکریہ۔کسی نے ا س آواز میں آواز ملاکر کہا کہ’ ہم بانہیں پھیلانے کو ترس گئے تھے۔ ‘
تو یہ ایک کتاب کی تقریب تھی جو ملاقات کا بہانہ ٹھہری۔ کتاب، لندن میں ہم سب ہی کے دوست ڈاکٹر جاوید شیخ نے لکھی اور نفس مضمون کے تعلق سے اس کا نام ’کچھ میرے ہم نشیں ‘ قرار پایا۔ بڑے سائز کی ایک سو اسّی صفحوں کی اس کتاب کی خوبیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ضمنی خوبیاں تو آگے چل کر آئیں گی، اولین خوبی کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹر جاوید شیخ بڑے ہی باکمال شخص ہیں۔یہ کتاب لکھ کر انہوں نے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے اورادیب ہونے یا نثر نگار یا صاحبِ قلم ہونے کا کوئی دعویٰ بھی نہیں۔ان کی شہرت کا جو بیان ہر ایک کی زبان پر ہے وہ ان کی علم دوستی اور ادب نوازی کے حوالے سے ہے۔ لیکن میں اسے ادب نوازی سے زیادہ ادیب نوازی کا نام دوں گا۔یہ خوبی کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جاوید تمام ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، کالم نگاروں، ڈراما نویسوں، فلمی فنکاروں، مصوروں، بت تراشوں اور موسیقاروں کے مداح اور قدر دان ہی نہیں، لندن آنے یا لندن کی راہ سے گزرنے والوں کی خاطر مدارات کرنے، اپنے ہا ں ٹھہرانے، اور قیام کے دوران جی بہلانے کے اسباب فراہم کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ کون سے نامور شخص کو انہوں نے اپنے گھر نہیں ٹھہرایا۔ کس کی ضیافت کا اہتمام نہیں کیا، کس کے نام کے جلسے نہیں کرائے، کس کی خاطر محفلیں نہیں سجائیں۔ اوپر سے ایک بڑا کمال کیا جس کے نتیجے میں آج یہ سجی دھجی دل کش کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کسی کی ذات اور شخصیت کو اچھی طرح سمجھنا ہو تو اس کے ساتھ دوچار روز قیام کرو۔ جاوید شیخ نے یہی کیا۔ہم قریبی دوست ہونے کے باوجود نہیں جانتے تھے کہ جاوید اپنا روزنامچہ بھی لکھتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کی ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ جو احباب ان کے ساتھ کچھ وقت گزار گئے، جاوید نے اپنے روزنامچے میں ان کا احوال محفوظ کرلیا۔اب ہم ان احباب کی فہرست پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں کہ جن کو اس کتاب نے ان کا ہم نشین ہونے کا اعزاز عطا کیا۔ان میں ایسے بڑے بڑے نام نمایاں ہیں جیسے آغا مرتضیٰ پویا۔ استاد بسم اﷲ خاں، مشتاق احمد یوسفی، دلیپ کمار، جمیل جالبی، نوشاد علی، مشفق خواجہ،نصرت فتح علی خاں،گوپی چند نارنگ اور ساقی فاروقی۔کیسی کیسی شخصیتیں نگاہوں میں گھو م جاتی ہیں اور ایک گھاؤ سا لگا جاتی ہیں کہ ان میں سے کتنے ہی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔
کتا ب کی دوسری بڑی خوبی اس کے مصنف کا ادیب نہ ہونا ہے۔ ادیب حضرات اپنی تحریروں کو سنوارتے ہیں، نکھارتے ہیں، سجاتے اور آراستہ کرتے ہیں۔ جاوید نے جو دیکھا،برتا، محسوس کیا، جس کا مشاہدہ کیا اور جس بات کے بارے میں جانا کہ دنیا کے سامنے آنی چاہئے، صداقت سے اور کسی قدر سادگی سے کہہ ڈالی۔میں اسی سادگی کو کتا ب کی بڑی خوبی قرار دوں گا۔
کتاب میں جن شخصیات کا ذکر ہے ضروری نہیں کہ انہوں نے جاوید کے گھرمیں قیام کیا ہو۔ان کے گھر میں ہر چوتھے پانچویں جو ضیافتیں ہوتی رہیں ان کا احوال کہنے کے لئے کوئی تحریری روزنامچہ درکار نہیں۔اس کے عینی شاہد ہم لوگ ہیں جو باقاعدگی سے مدعو کئے گئے اور جاوید کی اہلیہ حسینہ شیخ کی خاطر داری کا لطف اٹھاتے رہے۔ حسینہ خود بھی ڈاکٹر ہیں اور وہ بھی بہت مصروف ڈاکٹر۔ مگر جس تن دہی سے وہ جاوید کے مہمانوں کی پذیرائی کرتی رہی ہیں، ہمی جانتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کتاب کے ٹائٹل پر حسینہ کی شاہانہ تصویر کو جیسا ہم سر اہتے ہیں شاید ہی کوئی دوسر ا اس کی نفاست کو سمجھ پائے گا۔
پوری کتا ب ہی نفاست سے آراستہ ہے۔ نہایت سلیقے سے چھاپی گئی ہے۔ دیکھنے میں آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور قرینے سے سامنے لائی گئی ہے۔ جاوید شیخ کی آخری بڑی خوبی یہ ہے یہ وہ اپنی خوبیوں کو منواتے نہیں،ان کی خوبیاں پکارتی ہیں کہ یہ رہے ہم۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)