اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے 12برسوں میں سلیکٹرز نے کپتان کو غیرمعمولی مدد فراہم کی، ان کی مرضی کی ٹیم دی، ٹیم میں منجھے ہوئے کھلاڑی شامل کروائے، دوسری ٹیم کے اِن فارم کھلاڑیوں کو نئے ٹکٹ پہنچائے گئے، کپتان کے مطلب کی پچز تیار کی گئیں، پچ پر موجود گھاس کپتان کے مخالفین کے لیے مشکل ثابت ہوئی، سلیکٹرز نے ٹیم کا مورال بلند رکھنے کیلئے میڈیا کو بھی ٹیم کی مثبت رپورٹنگ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
اِس طویل ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں سلیکٹرز کی سپورٹ کے ساتھ کپتان نے بہترین آل رائونڈ کارکردگی دکھائی اور سلیکٹرز کا اعتماد حاصل کیا۔ آل رائونڈر کبھی بلے سے تو کبھی گیند بازی سے مخالفین کی وکٹیں گراتا رہا۔ اپنی تیز بالنگ سے ایک بال سے دو وکٹیں گرانے کا وعدہ بھی پورا کیا۔ کپتان کا بیٹ 2013میں تو اتنے رنز نہ سمیٹ سکا لیکن 5سال کی محنت اور نیٹ پریکٹس کے بعد کپتان بالآخر 2018میں سنچری مکمل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
اِس عرصے کے دوران کپتان نے شائقین اور سلیکٹرز دونوں کو سبز باغ دکھائے۔ 126روز تک لگاتار نیٹ پریکٹس کی اور پھر اپنے میڈیا انٹرویوز اور ملاقاتوں میں کپتان نے یقین دلایا کہ وہ صرف پہلی اننگز کے شیر نہیں۔ دوسری اور اصل اننگز میں مشکل وکٹ پر بھی پرفارم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے شائقین اور سلیکٹرز کو یقین دلایا کہ مشکل اور بڑے میچ کیلئے ان کی ٹیم سلیکشن عمدہ ہو گی۔
ان سے اچھی ٹیم بنانا تو کسی کو آتا ہی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کب، کسے، کہاں کھلانا ہے؟ یہ وعدہ بھیکیا گیا کہ پہلے ہی سیزن میں وہ میچ فکسنگ کرنے والے کرپٹ کھلاڑیوں کا خاتمہ کردیں گے۔ ہماری ٹیم دنیا کی بہترین ٹیم بنے گی اور دنیا کپتان اور سلیکٹرز کی غیرمعمولی شراکت داری کو دیکھ کر اش اش کرے گی مگر توقعات کے برعکس، اس دوسری اننگز کا آغاز گیم پلان کے مطابق نہ ہو سکا۔ امیدوں کے جو بُت کھڑے کیے تھے وہ ٹوٹتے رہے۔
جہاں حالات اور میچ کنڈیشن مشکل تھی وہیں اسٹرٹیجی کا فقدان بھی نظر آیا۔ کپتان میچ کنڈیشنز کو ٹھیک پڑھ سکے اور نہ ہی پلینگ الیون اور بیٹنگ آرڈر بنا سکے۔ کپتان نے ایک ایسے ناتجربہ کار کھلاڑی کو وسیم اکرم پلس بنادیا جس نے عالمی یا قومی کرکٹ تو دور کی بات، کبھی کلب کرکٹ بھی نہیں کھیلی تھی۔
تجربات کے شوقین کپتان نے انہیں اپنا ٹرمپ کارڈ سمجھا مگر وسیم اکرم پلس ساڑھے تین سال بعد بھی اپنی سلیکشن کو درست ثابت نہ کر سکے۔ سلیکٹرز نے اعتراض کیا، میڈیا نے سوالات اٹھائے، ساتھی کھلاڑیوں نے بھی شور مچایا مگر کپتان نے انہیں تبدیل نہیں کیا۔ وقت گزرتا رہا اور کپتان کی دوسری اننگز میں کارکردگی پر سلیکٹرز کی تشویش بڑھتی رہی۔
انہیں پتہ لگ گیا تھا کہ شاید اس بڑے میچ اور مشکل وکٹ پر کپتان ماضی کی طرح کارکردگی نہیں دکھا رہا لیکن سلیکٹرز کے پاس کسی اور کو کپتان بنانے کا آپشن بھی موجود نہیں تھا۔ چند سینئر کھلاڑیوں کو سلیکٹرز نے کھیل کیلئے پہلے ہی اَن فِٹ قرار دے کر ڈراپ کردیا تھا۔ کارکردگی کے علاوہ اب کپتان کی آف فیلڈ سرگرمیاں بھی سلیکٹرز کو پریشان کرنے لگی تھیں۔ خاص طور پر پچھلے سال نومبر میں میچ سے پہلے ٹیم منیجر کو لے کر کپتان اور سلیکٹرز کے درمیان شدید اختلافات نے دونوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو شدید نقصان پہنچایا۔
ٹیم کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ ٹیم کے ایک اہم کھلاڑی جو ٹیم کی ترجمانی میں سب سے آگے ہیں، انہوں نے سلیکٹرز اور کپتان کے دل ملانے کی بہت کوشش کی کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اس فاسٹ سوئنگ وکٹ پر اگر کھلاڑی نے ہلکا سا بھی غیرذمہ دارانہ شاٹ کھیلا تو پوری ٹیم ریت کی دیوار ثابت ہوگی جس میں انہیں وقتی کامیابی تو ملی لیکن کھیل کی سمجھ بوجھ رکھنے والے پنڈتوں نے اُس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اب کپتان الٹی گنتی گننا شروع کردیں۔ کپتان اور سلیکٹر زکے تعلقات میں بال آگیا ہے۔ یہ کمبی نیشن اب ٹیم کو آگے نہیں لے جا سکے گا۔
یہ بات تو طے ہے کہ پچھلے چند ماہ سے سلیکٹرز نے کپتان کی غیرمعمولی سپورٹ ختم کردی ہے۔ اب نہ میڈیا سے مثبت رپورٹنگ کی خواہش ظاہر کی جارہی ہے۔ نہ پچ ٹیمپر کی جارہی ہے اور نہ ہی اننگز جاری رکھنے کیلئے کپتان کی مدد کی جارہی ہے۔ کپتان اور سلیکٹرز ملاقاتیں تو کرتے ہیں مگر ان کے دل ملتے نظر نہیں آرہے بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ سلیکٹرز نے نئے کپتان کی تلاش شروع کردی ہے۔ کچھ پرانے تجربہ کار کھلاڑی بھی سلیکٹرز کی نظر میں قابلِ قبول ہونے کیلئے فٹنس پر توجہ دے رہے ہیں۔ سلیکٹرز کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ لمبی ریس کے گھوڑے ہیں اس لیے سلیکٹرز ان پر پورا بھروسہ کرسکتے ہیں۔
رویوں میں آنے والی ان تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب سلیکٹر کا کوئی ایک پسندیدہ کھلاڑی نہیں ہے۔ سلیکٹر کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان سینئر کھلاڑیوں سے اچھے تعلقات میں صرف ان کھلاڑیوں کا نہیں بلکہ سلیکٹر کا اپنا مستقبل بھی محفوظ ہوگا۔ جس سے وہ کچھ عرصہ مزید ٹھہر جائیں۔
کپتان کی ٹیم میں باہر سے آنے والے ایک اہم کھلاڑی جو سلیکٹرز کے کافی قریب ہیں، انہیں بھی اب میچ ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اب معاملہ ففٹی ففٹی ہے اور کپتان کیلئے اننگز جاری رکھنے کا اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ ان روٹھے ہوئے کھلاڑیوں سے رابطہ کرکے انہیں منائیں جنہیں کپتان نے خود ڈراپ کیا تھا۔ اس کے علاوہ کپتان سلیکٹر کی چند خواہشات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں ورنہ کپتان کو ڈراپ ہونے سے بچانا شاید مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے۔