• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری زبان میں ایک لفظ آیا ہے لیکن اپنے معنی پیچھے ہی چھوڑ آیا ہے۔ وہ انگریزی کا لفظ ہے ٹراما trauma۔ کسی زمانے میں اس کا مطلب ہوتا تھا بدن کا گھاؤ۔ اب اس کا مفہوم ہوتا ہے روح کا زخم۔ دل و دماغ پر لگنے والا وہ گھاؤ جو یوں دیکھنے میں نظر نہیں آتا لیکن جو مریض کو مار رکھتا ہے، زندگی بھر دکھ دیتا ہے اور ایک بار پیش آنے والے حادثے کا منظر مریض کی نظروں میں خود کو دہرائے جاتا ہے ۔یہ روح کی وہ اذیت ہے جس کی خراش لاکھ کوشش کے باوجود نہیں جاتی لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا علاج ممکن ہے۔
ہم بدنصیب ہیں کہ یہ پورے وجود کو دہلا دینے والا منظر روز روز اور گھر گھر دیکھتے ہیں۔ اس کی پہلی اور سادہ مثال وہ گھر ہے جو خوش باش ہو اور جہاں زندگی چین سے گزر رہی ہو کہ اچانک باہر گلی میں شور مچے اور کچھ لوگ گھر کے کسی بڑے یا بچے کی لاش اٹھائے گھر میں داخل ہوں، وہ بڑی ہی قیامت کی گھڑی ہوتی ہے۔ گھر والوں کے اعصاب پہلے تو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کیا ہوا ہے اور جب صورتحال کچھ واضح ہوتی ہے تو ذہن تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے لیکن جب پُرسہ دینے والے صبر کی تلقین کرتے ہیں تب یقین آنا شروع ہوتا ہے کہ کوئی بڑا غضب ہوا ہے۔اس جذباتی اور نفسیاتی ٹراما کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی واقعہ اچانک ہو جائے،ہم اس کے لئے تیار نہ ہوں، اس کے آگے خود کو بے بس اور لاچار محسوس کریں، وہ واقعہ خود کو بار بار دہرائے، کوئی جان بوجھ کر بے رحمی کرے یا بچپن میں کوئی حادثہ پیش آیا ہو۔ کوئی ایک ضرب لگے یا بھیانک حادثہ ہوا ہو یا قدرتی آفت آن پڑے یا کسی نے شدید حملہ کیا ہو۔ یہ ساری آفتیں انسان کو بے دست و پا کر دیتی ہیں۔ کبھی کبھی کوئی مصیبت جان کا عذاب بن جاتی ہے مثلاً اڑوس پڑوس میں جرائم پیشہ لوگ آباد ہوں یا کینسر جیسے مرض سے لڑنا پڑے۔کچھ اور بھی حالات ہو سکتے ہیں جو ذہن پر بوجھ بن جائیں، جیسے کسی قریبی شخص کی اچانک وفات، کار کا حادثہ، کسی قریبی تعلق کا ٹوٹ جانا، عزّت پر حرف آنا، بے حد مایوس ہونا یا کسی جان لیوا مرض کا انکشاف ہونا لیکن ضروری نہیں کہ ہر حادثہ عمر بھر ستاتا رہے۔ کچھ لوگ جلد ہی لوٹ پوٹ کر معمول پر آجاتے ہیں اور بعض کتنے ہی پریشان ہوں، بظاہر پُرسکون لگتے ہیں لیکن کمسنی میں پیش آنے والا ٹراما بڑے گہرے اثرات چھوڑ سکتا ہے جو طویل عرصے تک ذہن کو جھنجھوڑتا رہتا ہے۔ ٹراما کا شکار ہونے والے بچے دنیا سے ڈرنے لگتے ہیں اور اس کو خطرناک جگہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ ہو تو وہ بالغ ہونے تک خوف یا لاچاری کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ ہم نے یہاں مغرب میں دیکھا ہے کہ کلیسا میں جن بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی وہ بیس بیس برس بعد جب گواہی دینے آئے تو پھوٹ پھوٹ کر روئے۔والدین سے علیحدگی، شدید علالت، جنسی، جسمانی یا زبانی تشدد، ماں باپ کے آپس کے جھگڑے، بچوں کودھیان نہ دینا یا محلے یا اسکول میں ان کی زندگی کو عذاب بنا دیناان کے لئے غضب ناک ٹراما بن جاتا ہے۔
ٹراما کی علامتیں بھی نہایت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور ہر شخص پر جدا انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر صدمہ، یقین نہ کرنا، غصّہ، جھنجھلاہٹ، احساسِ جرم، شرمندگی، سارا الزام خود پر لینا، رنجیدہ رہنا، آس چھوڑ دینا، دھیان بھٹکنا، پریشانی اور خوف، دوسروں سے الگ تھلگ رہنا، نیند اُڑ جانا، بُرے خواب آنا، دل تیزی سے دھڑکنا، درد اور تھکن۔یہ آثار چند روز یا چند ماہ رہ سکتے ہیں اور ان میں رفتہ رفتہ کمی آسکتی ہے لیکن کسی بھی لمحہ تکلیف دہ یادیں لوٹ آتی ہیں۔ یہ عذاب اکثر عورتوں ہی کے حصے میں کیوں آتا ہے، اس کا جواب معاشرہ دے تو دے، میں نہیں دے سکتا۔جن ماؤں کے بچے اٹھائے جاتے ہیں ان پر گزرنے والی قیامت کا قیاس کرنا مشکل نہیں۔ آبروریزی جسم اور روح پر جو گھاؤ لگاتی ہے وہ شاید جیتے جی نہیں بھر سکتا، اسی طرح ان پر تیزاب پھنکنے کی واقعات ظاہری اور باطنی زخم لگا جاتے ہیں جن کا علاج مشکل ہے۔
علاج کی بات آگئی تو یہ بات اہم ہے کہ ٹراما کا علاج ممکن ہے۔ اس کے معالج مخصوص ہوتے ہیں جنہیں نفسیات کا علم ہوتا ہے اور وہ نہایت ملائمت اور شفقت سے مریض کے دل و دماغ کو سنبھالنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے ڈاکٹروں کے ورکشاپ ہو سکتے ہیں اور نفسیات کے طالب علموں کو خصوصی سبق پڑھائے جاسکتے ہیں۔ہمارے ہاں کونسلنگ یعنی مریض کا مسئلہ سن کی اس کو مشورہ دینے کا رواج کم ہے اور اس کی تربیت بھی تھوڑی ہے۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ ایمبولینس کے ساتھ جانے والے پیرا میڈکس ترقی یافتہ ملکوں میں تو پوری طرح تربیت یافتہ ہوتے ہیں جو مریض کے اسپتال پہنچنے سے پہلے ابتدائی علاج شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری طرف بھی ایسا ہو جائے تو کیا اچھا ہو۔اس پر لفظ ٹراما کے کلاسیکی مفہوم کی طرف دھیان جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان جس طرح اونچے مچان سے گرے تھے اور لوگوں نے ان کی ٹانگیں اور بازو پکڑ کر انہیں اٹھایا اور گاڑی میں ڈالا، یہ ٹراما کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ ایسے حادثات میں ریڑھ کی ہڈی جیسے بے حد حساس مقام پر جو ضرب لگتی ہے اس میں غیرمعمولی احتیاط اختیار کرنی پڑتی ہے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسپتال پہنچنے سے پہلے جس احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اس کا ہمارے ہاں وجود ہی نہیں۔ عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ زخمی کو ابتدائی مدد رشتے دار یا موقع پر موجود لوگ دیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ زخمی کو کسی نہ کسی طرح کی گاڑی میں ڈال دیتے ہیں۔ انہیں ہاتھ پاؤں پکڑ کر اٹھایا جاتا ہے اور ریڑھ کی ہڈی کو بے ڈھب ہونے سے بچانے کا کوئی تصور تک نہیں ہے جیسا کہ عمران خان کے معاملے میں دنیا نے دیکھا حالانکہ اُس وقت وہاں بہت سے ڈاکٹر موجود تھے۔ شہروں میں اگرچہ کسی نہ کسی طرح کی ایمبولینس مل جاتی ہے لیکن اس کا ٹریفک میں پھنس جانا عام سی بات ہے ۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ شہر کراچی میں تشدد کے شکار اٹھاون فی صد زخمی اسپتال پہنچنے سے پہلے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔یہ تو شہر کی بات تھی، رہ گئے دیہات، وہاں زخمیوں کو کون اٹھاتا ہے، سب جانتے ہیں ۔
(پاکستان میں فیس بُک پر نو ہزار ڈاکٹروں کا ایک تعلیمی فورم ہے جو پاکستان کلینکل نالج کہلاتا ہے۔ یہ ادارہ ڈاکٹروں کو کمپیوٹر کے ذریعے ٹراما کے مریضوں کی دیکھ بھال کی تربیت دیتا ہے، خاص طور پر حادثات اور ایمرجنسی کے شعبوں میں۔ یہ اطلاعات سید کاشف حسین کاظمی نے فراہم کی ہیں)۔
تازہ ترین