• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

مشرقی ایشیا سے ساتواں سبق معاشی ترقی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی پر ایک لازمی جزو کے طور پر زور دینا ہے۔ سرکاری اور نجی شعبے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم اور تحقیق پر کافی توجہ دی گئی۔کوریا اور تائیوان (ایک غیر آسیان ملک) نے امریکہ میں کام کرنے والے اپنے شہریوں کی خدمات حاصل کرنے کے لئے ٹیمیں بھیجیں ۔ انہیں ان کے آبائی ممالک میں واپس رکھنے کے لئے منافع بخش اور پرکشش پیکجز کی پیشکش کی۔ ان سائنسدانوں اور انجینئروں نے مقامی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھایا، تحقیقی ادارے قائم کئے، لیبارٹریوں میں کام کیا اور مصنوعات کی ترقی میں اپنا کردارادا کیااور لاکھوں نوجوان مردوں اور عورتوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید آلات کی تربیت دی۔ کئی ایک مقامات پرٹیکنالوجی پارکس یونیورسٹی کے کیمپسز میں واقع ہیں ۔ اعلیٰ درجے کی ڈگری کے امیدوار صنعتی اور ٹیکنالوجی فرموں کو درپیش مسائل پر کام کرتے ہیں۔ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری میں تائیوان اور کوریائی فرموں ، ٹی ایم سی اور سام سنگ کا غلبہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔ امریکہ میں 34000 کے مقابلے میں چین اب STEM مضامین میں 50,000 پی ایچ ڈی پیدا کر رہا ہے ۔ہر سال STEM مضامین میں 50 لاکھ گریجویٹس تیار کرتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں انجینئرنگ اور سائنس کے زیادہ تر شعبہ جات میں پی ایچ ڈی پروگراموں پر چینیوں کا غلبہ ہے جس کے بعد بھارتی، جاپانی، کوریائی اور حالیہ برسوں میں ویت نامی نمایاں ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مستقبل کی افرادی قوت کو ان مہارتوں سے آراستہ کر رہے ہیں جن کی عالمی معیشت کو ضرورت ہوگی۔آٹھواں سبق ان ممالک میں بچت کی اوسط شرح 30 سے 40 فیصد کے درمیان ہے ۔ اس میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ذیل میں آنے والی خاطر خواہ رقوم بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ 2020میں مشرقی ایشیا اور پیسفک علاقے میںمجموعی گھریلو بچت 36فیصد تھی جب کہ مجموعی مقررہ سرمایہ کاری 34فیصد تھی۔ دوفیصد حصہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا تھا۔ چین کی گھریلو بچت کی شرح مسلسل بڑھتے ہوئے 40 فی صد سے تجاوز کر گئی ہے جو سرمایہ کاری کے لیے کافی وسائل مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح ملائیشیا کی بچت کی شرح 43 فیصد اور تھائی لینڈ کی 33 فیصد ہے۔ مشرقی ایشیائی ممالک دراصل اب مسابقت کی دوڑ سے نکل گئے ہیں۔ان پر 2000ء کی دہائی کے اوائل میں قرض 28بلین ڈالر تھا۔ بیرونی قرضے اور جی ڈی پی کی شرح2020ھ میں صرف19فیصد رہی ۔ برآمدی شرح10.1 فیصد تھی ۔ یہ ترقی پذیر ممالک میں کم ترین ہے کیوں کہ وہ سرمایہ کاری کے لئے اپنی بچتوں پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

اس کے بعد ٹیکس کی ادائیگی کا کلچر تھا۔ آبادی کی طرف سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی اور ٹیکس چوری کے کم واقعات نے ان قوموں کو پبلک انفراسٹرکچرجیسا کہ سڑکوں اور شاہراہوں، پلوں، بندرگاہوں وغیرہ میں سرمایہ کاری کرنے اور تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے کے قابل بنایا۔ ایک بار جب ٹیکس کی بنیاد وسیع ہو جاتی ہے تو ٹیکس کی شرحیں 35 سے 25 یا 20 فیصد تک کم ہو سکتی ہیں ۔ اس طرح آبادی کے ایک چھوٹے سے طبقے کے بھاری بوجھ کو ٹیکس دہندگان کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ بانٹ کرکم کیا جا سکتا ہے۔

دسواں سبق مشرقی ایشیا کے معاشرے کی ایک غیر اقتصادی خصوصیت ہے ۔ یہ محنت، اخلاقیات، نظم و ضبط اور اعتمادہے۔ ان ممالک میں سے ہر ایک میں لیبر فورس انتہائی نظم و ضبط کی حامل ہے، انتہائی محنت سے کام کرتی ہے اور اپنے سپروائزرز کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔ کارکن دوسروں کے کام میں خلل ڈالے بغیر اپنی توجہ کام پر مرکوز رکھتے ہیں۔دیئے گئے کام پر توجہ دیتے ہیں اور نتائج پیدا کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اعتماد اور سماجی سرمایہ اجتماعی کارروائی کو بڑھا کر، خطرات کو کم کر کے، جوابدہی کو فروغ دے کر اور لین دین کے اخراجات کو کم کر کے ترقی کے معیار کو مثبت راہوں پر گامزن کرتاہے۔ کوریا اور جاپان وکلاء سے زیادہ سائنسدان اور انجینئر پیدا کرتے ہیں ۔ مشرقی ایشیائی معیشتوں کی ایک اور خصوصیت معاہدے کی تکمیل کا اعتبار ہے۔ مندرجہ بالا اسباق سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ جامع ترقی کے ماڈل کے کچھ اہم اجزاء ہیں۔ مستقبل میں آگے بڑھنے کے لئے جنوبی ایشیائی ممالک ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ، معاشی عوامل، ثقافتی ماحول، سیاسی اور آئینی انتظامات مختلف ہیں۔ لیکن کچھ مشترکہ پہلو ایسے ہیں جنہیں حالات کے مطابق اپنایا جاسکتا ہے۔

پاکستان کو سی پیک میں ایک فعال شراکت دار کے طور پر اور چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرتے ہوئے اس تبدیلی سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور چینی کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہئے۔ ہمارے کاروباری اداروں کو ان کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔ آسیان ممالک کی ترقی کا گراف بلندی پر جانے کے بعد ایک نیم قوس بناتاہوا متوازن ہوچکا ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا ہوگا اور علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کے منصوبوں میں شمولیت کے امکانات کو تلاش کرنا ہوگا۔ ایف ٹی اے کے تحت آنے والے ممالک کا عالمی جی ڈی پی میں 30 فیصد حصہ ہے اور اندازہ ہے کہ 2030تک بین الاقوامی تجارت میں 500بلین ڈالر کا اضافہ کیا جائے گا۔ ایف ٹی اے کے تحت پاکستان کی برآمدات کل برآمدات کا صرف 10 فیصد بنتی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، افغانستان جیسے ممالک کے ساتھ ایف ٹی اے نہیں ہے۔ یہ چار ممالک کل برآمدات کا 37 فیصد ہیں۔ ایف ٹی اے مسابقت کو بہتر بناتے ہیں کیونکہ وہ دوسرے مسابقتی ممالک کیلئےزیادہ ٹیرف کے مقابلے میں کم ٹیرف کی اجازت دیتے ہیں۔ پاکستان کو ایسے ایف ٹی اے میں داخل ہونا چاہئے جو منصفانہ اور مساوی ہوں اور نئی مصنوعات کو جذب کر سکیں۔

تازہ ترین