• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لڑکا، لڑکی تشدد کیس: مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل کے حتمی دلائل


اسلام آبادکے علاقے سیکٹر ای الیون میں لڑکا، لڑکی تشدد کیس میں مرکزی ملزم عثمان مرزا اور محب خان کے وکیل نے حتمی دلائل دے دیے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت اسلام آباد میں لڑکا، لڑکی تشدد کیس کی سماعت ہوئی، جس میں آج مرکزی ملزم عثمان مرزا اور محب خان کے وکیل نے حتمی دلائل دیے۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر رانا حسن عباس بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس موقع پر وکیل ملزم جاوید اقبال وینس نے کہا کہ کیس میں 2 جولائی کو ویڈیو کا ذکر کیا گیا۔

دوران سماعت ملزم کے وکیل نے بلاول بھٹو زرداری کے ’کانپیں ٹانگ ‘والے بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ جیسے بلاول کی ویڈیو ایڈٹ ہوئی ویسے ہی عثمان مرزا کی ویڈیو بھی ایڈٹ کی گئی۔

انہوں نے مزید کہاکہ 6 جولائی کو عثمان مرزا کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے، جو بھی کہانی تھی وہ شیخ عبدالقیوم نے بنائی، سوشل میڈیا پر ویڈیو عثمان مرزا کی گرفتاری کے بعد وائرل ہوئی۔

مرکزی ملزم کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پولیس کے لکھے کسی بھی خط کا جواب نہیں دیا ہے۔

وکیل جاوید اقبال وینس کا کہنا تھا کہ 6 جولائی کو کوئی ویڈیو وائرل ہوئی ہوتی تو ایف آئی اے ایکشن لیتی، لیکن 6 جولائی کوئی ایسی ویڈیو وائرل نہیں ہوئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیاپر وائرل ویڈیو سے پولیس نے جائے وقوع کا اندازہ لگایا، پولیس کو پہلے سے ہی چیزیں فراہم کردی گئی تھیں۔

مرکزی ملزم کے وکیل نے کہا کہ پولیس کو وائرل ویڈیو کا معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کردینا چاہیے تھا، ملزمان پر وائرل ویڈیو کا چارج فریم ہوا ہی نہیں، بیان کردہ واقعے پر چارج فریم کیا گیا۔

وکیل جاوید اقبال وینس نے مزید کہا کہ متاثرہ جوڑے نے بھی واقعے سے انکار کیا جبکہ واقعے کا کوئی چشم دید گواہ بھی نہیں، متاثرہ جوڑے سے زیادتی کا بھی ثبوت سامنے نہیں آیا اور نہ ملزمان پر زیادتی کا الزام ہے۔

مرکزی ملزم کےو کیل نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے بیانات سے کیس پر پوائنٹ اسکورنگ کی گئی، پوچھتا ہوں اس کی کیا ضرورت تھی؟

انہوں نے استفسار کیا کہ 6 جولائی کو جب یو ایس بی میں ویڈیو ہی نہیں تھی تو قبضے میں لینے کا کیا فائدہ ہوا؟

وکیل جاوید اقبال وینس نے کہا کہ جس موبائل کا آئی ایم ای آئی نمبر دیا گیا وہ ملزم عثمان مرزا سے برآمد ہوا ہی نہیں، نقل کے لیے بھی عقل چاہیے ہوتی ہے، پولیس نے موبائل کا آئی ایم ای آئی نمبر دیکھا ہی نہیں۔

مرکزی ملزم کے وکیل نے کہا کہ عثمان مرزا کی لوکیشن جائے وقوع پر فرضی طور پر بنائی گئی، جائے وقوعہ پر میرے موکل کی موجودگی بھی ثابت نہیں ہو پائی۔

ان کا کہنا تھاکہ اسسٹنٹ کمشنر نےکہا کہ رات 12بجےجوڑے کا بیان ریکارڈ کرایا جبکہ تفتیشی افسر نے شام کا وقت بتایا، دونوں ہی بیانات میں تضاد کے بعد اس بات کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟

وکیل جاوید اقبال وینس نے کہا کہ تفتیشی افسر نے نامعلوم ذرائع سے ویڈیو بنا کر یو ایس بی میں ایف آئی اے کو بھیجیں۔

انہوں نے کہا کہ 10جولائی کو ویڈیو وائرل ہوئی اور ساتھ ہی ٹوئٹر پرٹرینڈ شروع کردیا گیا، ٹوئٹر پر وائرل ویڈیو مرکزی ملزم عثمان مرزا کو گرفتار کرنے کے بعد ہوئی۔

مرکزی ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ عدالت میں کسی گواہ نے بیان نہیں دیا کہ میں نے ٹوئٹر پر ویڈیو دیکھی ہے، ملزمان کا متاثرہ جوڑے سے بھتہ لینے کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ جائے وقوع پر کوئی سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہوں؟ کسی سی سی ٹی وی کیمرے کو ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔

وکیل جاوید اقبال وینس نے کہا کہ پولیس نے جائے وقوع کے اپارٹمنٹس سے متعلق کوئی تفصیلات مہیا نہیں کیں، فرانزک سے بھی کنفرم نہیں ہوا کہ ویڈیو کب بنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کہا سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کا کوئی بھی پبلک گواہ نہیں، اصل ویڈیو جن کے پاس تھی پولیس نے ان کو فرار کروادیا ہے۔

جیسے بلاول بھٹو زرداری کی کانپیں ٹانگ والی ویڈیو ایڈٹ ہوئی ویسے ہی عثمان مرزا کی ویڈیو بھی ایڈٹ کی گئی ہے۔

قومی خبریں سے مزید