پچھلے ہی ہفتے کی بات ہے۔ پھر ایک تماشا لگا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کا ستر سالہ امیر سلطنت تمام تر سطوت و تمکنت کے ساتھ ا سٹیج پہ نمودار ہوا۔ بالوں کو جھٹکا، آنکھوں کو سکیڑا، سینے کو پھیلایا اور نیچے دور کھڑے ہزاروں پرستاروں کو ایک انداز بے نیازی سے نیم وا آنکھوں سے دیکھا۔ خطابت کے جوہر بکھیرنا شروع کر دیے۔ مخالفین کو خوب دھتکارا، دھمکایا اور دھویا۔ اوئے ڈیزل، کہہ کر داد کے لیے رکا اور ہاتھ ہلا کر ہلا شیری دی۔ داد کے ڈونگرے برسے تو حوصلہ بڑھا اور باقیوں کو بھگوڑے، شو باز، چورڈاکو وغیرہ کے ہتک آمیز ناموں سے پکارا بلا جھجھک مخالفین، جو بہر حال ہم وطن و ہم مذہب ہیں، کے ناموں کو بگاڑا۔ غلغلے بلند ہوتے رہے۔ جی بھر کر عیب جوئی کی۔ خوب تالیاں بجتی رہیں۔ بالآخر اس نے یہ تقریر ختم کی۔ ہر عمل، شے اور شخص نے آخر ختم ہونا ہے۔ مگر باز گشت اور حیات بعد از موت تو ہوتی ہے۔ اس نفرت انگیزی کی باز گشت میڈیا کے ذریعے دن بھر گونجتی رہی۔ برے نام برائی کی طرح پھیلتے رہے۔
یہ سب دیکھ کر اور سن کر ذہن سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ سیانا بانا، معمر و معتبر، امیرِ ریاست ایسا قابلِِ اعتراض لب و لہجہ کیوں اختیار کرتا ہے؟ کیا نفرت اور تفاخر کا اظہار مناسب الفاظ میں نہیں کر سکتا؟ یا کرنا نہیں چاہتا، یا کرنا نہیں آتا۔ کوئی مسئلہ تو ہے کہ منصب کے تقاضے بھی نباہے نہیں جا رہے۔ کیا ذہن اتنا نا پختہ ہے کہ الفاظ کے اثرات سے آگاہ نہیں۔ یہ لفظ معاشرے میں پھیلیں گے تو کتنا بگاڑ پیدا ہو گا۔ تم نہ ہو گے یہ معاشرہ تو ہو گا۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپکے آگے پیچھے کوئی نہیں لہٰذا معاشرے اور ملک کو بد اخلاقی کے گڑھے میں دھکیل کر خود اپنے آخری گڑھے میں سکون حاصل کر لو گے۔ یہ معمہ حل کرنا از حد ضروری ہے۔
ندیم چن، جو اُدھر سے ِادھر آئے تھے اور حال ہی میں اِدھر سے پھر اُدھر پھلانگ گئے ہیں نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتلایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان ایک جلسہ میں برے ناموں کی بوچھاڑ کر کے تشریف لائے تو اگلے روز دورانِ میٹنگ انہیں چن صاحب نے ایسی گفتگو سے اجتناب کا مشورہ دیا۔ عمران خان نے جواب دیا کہ اس تقریر کے بعد انہیں نیند بہت اچھی آئی۔ یعنی عیب جوئی اور برے ناموں کی تکرار سے انہیں سکون حاصل ہوا۔ یہ سن کر میرے کان اور رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہ کیفیت یقیناً کسی گہری اور پرانی ذہنی اور نفسیاتی بیماری کی غماز ہے۔ میں نے سوچا۔
ایک ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کے پہلے پانچ سال کے تجربات سماجی مہارتوں، شخصیت، علمی مہارتوں، سوچنے کی مہارت، فیصلہ سازی، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت اور برتاؤ کی نشوونما کے لیے اہم ہیں۔ وہ جو کچھ گھر میں دیکھتا اور سنتا ہے اسکا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ عموماً بچہ والدین کی گفتگو اور اندازِ گفتگو اپناتا ہے۔ والدین کے تعلقات تلخ ہوں یہ تلخی بچوں میں بھی منتقل ہو جاتی ہے۔ اوائل عمری میں گھر میں جو تربیت دی جاتی ہےاسکا اثر دائمی ہوتا ہے۔ اسکو آکسفورڈ اور کیمبرج کی تعلیم بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔
میں کوئی ماہرِ نفسیات تو نہیں۔ ان تجزیوں قیافوں کو رد کیا جا سکتا ہے۔ مگر ایک بات تو شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ بظاہر عمران خان کا رحجان مذہب اور روحانیت کی طرف مڑ چکا ہے۔ انکے ہاتھ میں تسبیح اور گھر میں پابندِ صوم و صلوۃ اہلیہ ہیں۔ خود فرماتے ہیں کہ سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ قرآنِ پاک کی ایک لرزا دینے والی آیت کو پڑھا نہیں۔ اگر پڑھا ہے اور پھر بھی ایسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں تو جہاں سکون کے متلاشی ہیں وہاں کافی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ربِ ذوالجلال معاف کرنے والا ہے۔ مگر وہ بھی سچی توبہ کے بعد۔
سورہ الحجرات کی آیت ۱۱ مندرجہ ذیل ہے: ’’اور اپنوں کے آپس میں عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے۔ اور جو لوگ توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔
میں صدقِ دل سے سمجھتا ہوں کہ بہتر تھا مولانا طارق جمیل یہ حقیقت انکو بتاتے کیونکہ وہ عالم ہیں اور انکو دربار میں رسائی بھی حاصل ہے۔ اب بھی وقت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)