• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی آٹو انڈسٹری ایشیامیں تیزی سے ترقی کرتی صنعت ہے جس کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 3 فیصد ہے اور یہ صنعت 35لاکھ سے زائد افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے جبکہ اس سیکٹر کی مجموعی سرمایہ کاری 92ارب روپے یعنی 570 ملین ڈالر ہے اور اس صنعت سے حکومت کو 50ارب روپے سے زائد ریونیو حاصل ہورہا ہے۔ آٹو سیکٹر کی کامیاب وینڈر (Vendor) انڈسٹری اس سیکٹر کو ایک ارب ڈالر کے عالمی معیار کی گاڑیوں کے پارٹس اور دیگر پرزہ جات فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں مقامی طور پر پہلی گاڑی Vauxhall اور بیڈ فورڈ ٹرک 1953 میں نیشنل موٹرز نے تیار کیا۔ پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری پر گزشتہ 3دہائیوں سے جاپانی برانڈز ٹویوٹا، ہنڈا اور سوزوکی کی اجارہ داری ہے جنہوں نے پاکستان میں دنیا کے دیگر آٹو برانڈز کی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ شکنی کی اور ڈیمانڈ بڑھنے کے باوجود جاپانی گاڑیوں کی پروڈکشن میں اضافہ نہیں کیا جس کے باعث گاڑیوں کی ڈیلیوری کیلئے 6 سے 9 مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے جس کے باعث سرمایہ کاروں نے گاڑیوں پر On Money وصول کرنا شروع کی۔ نئی آٹو پالیسی 2021-26ء میں حکومت نے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں اور ای بائیک پر مراعات کا اعلان کیا ہے تاکہ فرنس آئل پر گاڑیوں کا انحصار کم ہوسکے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں پر On Money روکنے کیلئے بھی اقدامات کئے گئے لیکن اس کے باوجود جلد ڈیلیوری کیلئے On Money اب بھی وصول کی جارہی ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ نئی آٹو پالیسی کے تحت اب گاڑیوں کے دیگر بڑے برانڈز فرانس کے Renualt، کوریا کے Hyundai اور KIA، جاپان کے Nissan اور جرمنی کےVolkswagen نے بھی پاکستان میں اپنی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ شروع کردی ہیں اور ان کو مارکیٹ میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

اس وقت چین کے تقریباً 50آٹو میکرز اور Nasla جیسی الیکٹرک گاڑیوں کے مینوفیکچررز بھی پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ پاکستان کا آٹو موبائل سیکٹر کاروں کے علاوہ ٹرکس، بسیں، ٹریکٹرز، جیپ، موٹر سائیکلیں اور آٹو رکشہ بھی تیار کررہا ہے۔ پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کاروں کی ماہانہ پیداوار 6فیصد اضافے سے فروری 2022میں 18054یونٹس ہوئی جبکہ ٹویوٹا اور ہنڈا کی فروخت میں 32فیصد کمی لیکن جاپان کی سوزوکی گاڑیوں کی فروخت میں 40فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے کاروں کی فروخت میں اوسطاً 5فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ فروری 2022ء میں 21664 گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ جنوری میں یہ 20610 تھیں۔ کاروں کی سیلز میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی 1000 سی سی سے کم گاڑیاں ہیں جس میں سوزوکی آلٹو 660 سی سی کی سیل سب سے زیادہ ہے۔ ہنڈائی کار کی سیل میں بھی 140 فیصد اضافہ ہوا ہے اور فروری میں اس کی 1469گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ موٹر سائیکلوں کی سیل فروری میں 136527 جبکہ جنوری میں 153658یونٹس تھیں۔ سال کے پہلے 8مہینوں (جولائی سے فروری) میں پاکستان کے آٹو سیکٹر میں گاڑیوں کی سیلز میں 57فیصد اضافہ ہوا ہے اور PAMA کے مطابق اس دوران گاڑیوں کی سیل 149813 یونٹس ہوئی جو گزشتہ سال اسی دورانئے میں 95139 یونٹس تھیں جس میں ٹویوٹا کے 38300 یونٹس، ہنڈا کے 23552 اور سوزوکی کے 32192 یونٹس شامل ہیں جبکہ آٹو سیکٹر میں نیا داخل ہونے والا برانڈ ہنڈائی کی سیل 3567یونٹس رہی ہے۔ موٹر سائیکلوں کی سیل میں جاپانی برانڈ ہنڈا، سوزوکی اور یاماہا کی ان 8مہینوں میںسیل 903659 یونٹس رہی جبکہ گزشتہ سال اسی دورانئے میں ان کی سیل 836046یونٹس تھیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاپانی کار مینوفیکچررز گزشتہ 30سالوں میں پاکستان کی مڈل کلاس کی مارکیٹ میں گاڑیاں سپلائی کرتے رہی لیکن خطے میں گاڑیوں کی ایکسپورٹ کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے۔ ان تمام کار مینوفیکچررز نے حکومت کے ساتھ Deletion پروگرام کے تحت جو معاہدے کئے، اُن کی رو سے جاپانی کارمینوفیکچررز کو ٹیکنالوجی منتقلی کے تحت گاڑیوں کے انجن اور گیئر باکس سمیت اہم پارٹس پاکستان میں مینوفیکچر کرنے تھے لیکن 3دہائیوں کے بعد آج بھی اہم پارٹس CKD کی شکل میں جاپان سے امپورٹ کرکے پاکستان میں صرف اسمبلڈ کررہے ہیں جس کی امپورٹ پر خطیر ملکی زرمبادلہ خرچ ہورہا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستانی وزیر خزانہ کو چین کے ایک معروف تھنک ٹینک کے ماہر معیشت نے بتایا کہ پاکستان 30سالوں سے سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا گاڑیوں کے انجن اور دیگر پارٹس جاپان سے امپورٹ کررہا ہے اور زرمبادلہ کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑرہا ہے جبکہ یہ گاڑیاں صرف مقامی مارکیٹ کیلئے ہیں اور انہیں ایکسپورٹ نہیں کیا جارہا اور ان گاڑیوں کے استعمال کیلئے حکومت کو پیٹرول اور ڈیزل امپورٹ کرنا پڑرہا ہے جو پاکستان کے تجارتی خسارے میں اضافے کا بنیادی سبب ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ 30سالوں کے بعد اب یہ گاڑیاں مکمل طور پر پاکستان میں مینوفیکچر کی جائیں اور انہیں خطے میں ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ بھی کمایا جائے۔ میں نے FPCCI کے وفد کے مراکش کے دورے میں دیکھا کہ تنجیر فری زون میں تیار کی جانے والی فرانسیسی گاڑیاں رینولٹ، پیچوٹ اور سٹرون بحری جہازوں میں لوڈ ہوکر یورپ ایکسپورٹ کی جارہی تھیں جس سے زون کو 8 ارب ڈالر سالانہ کی ایکسپورٹ ہورہی ہے۔ نئی آٹو پالیسی کے مطابق مقامی کار مینوفیکچررز کو اپنی مجموعی امپورٹ کا 10فیصد گاڑیوں کی ایکسپورٹ کرنا ہوگی۔ انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ سے درخواست ہے کہ مقامی کارمینوفیکچررز کے Deletion پروگرام پر عملدرآمد یقینی بنائے تاکہ گاڑیوں کے انجن امپورٹ کرنے کے بجائے مکمل گاڑیاں پاکستان میں تیار کرکے اُنہیں ایکسپورٹ بھی کیا جاسکے۔

تازہ ترین