• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے عوام اور مسلح افواج دہشت گردی سمیت پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف متحدو یک جا ہیں۔ اس اتحادو یکجہتی کو فروغ دینے اور سراہنے میں ادارہ جنگ صف اول میں نظر آتا ہے۔ ستمبر 1965ء کی 17روزہ جنگ ہو یا 18دسمبر 1971ء کا سانحہ مشرقی پاکستان‘ ادارہ جنگ نے ہر مشکل وقت میں وطن کا دفاع کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ 8 اکتوبر 2005ء کو آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا‘ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور ملک کے دیگر حصوں میں قیامت صغریٰ برپا کرنے والا زلزلہ جس میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں‘ اربوں کھربوں روپے کا مالی نقصان ہوا، اس زلزلے سے تباہ حال کشمیریوں اور پاکستانیوں کی زندگیاں بچانے اور ان کی بحالی کے لیے پاکستانی قوم اور فوج نے جس مثالی یکجہتی کا مظاہرہ کیا اس میں ادارہ جنگ کے مثبت کردار کو کوئی مورخ تاریخ انسانی میں سنہری حروف سے لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 6ستمبر 1965ء کی سترہ روزہ جنگ میں لاہور کے بیدیاں محاذ‘ قصور کے کھیم کرن محاذ‘ جموں و کشمیر کے چھمب جوڑیاں اور اکھنور اور دوسرے سیکٹروں سے محاذجنگ کی تفصیلات ادارہ جنگ کے اخباروں میں حدودو قیود میں رہتے ہوئے تفصیل سے شائع ہوتی رہیں۔6سے 23ستمبر 1965ءتک جاری رہنے والی جنگ پاکستانی فوج نے اس انداز میں لڑی کہ پوری قوم پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی تھی۔

روزنامہ جنگ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے کارہائے نمایاں پورے سترہ روز تک ہی نہیں بلکہ اس کے بعد آنے والے سالوں میں بھی اُجاگر کرتا رہا۔ آج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان بھر کی سیاسی قیادت اور پوری قوم ستمبر 1965ء کی جنگ کی طرح پاکستانی افواج کے ساتھ ہے، کیونکہ دہشت گردوں نے پاکستانی افواج اور عوام کو دونوں پاک بھارت جنگوں سے 20گنا زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ 

ملک و قوم کی خدمت اور ترقی کے لیے افواجِ پاکستان اور روزنامہ ’’جنگ‘‘ شانہ بشانہ رہے اور قابل فخر خدمات انجام دیں

دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے ایکشن کی تشہیر روزنامہ جنگ ہمیشہ سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں 6ہزار سے زائد ہمارے فوجی افسران‘ جوان شہید ہو چکے ہیں۔ کراچی سے پشاورتک اور فاٹا کے علاقوں میں خودکش بمباروں اور ٹائم بموں کے ذریعے دہشت گردوں نے پچاس ہزار کے لگ بھگ سول اور پولیس اہلکاروں کو بھی شہید کیا ہے۔ ان میں جوانوں کے علاوہ بچے، بوڑھے، خواتین ،مرد ،سب ہی شامل ہیں۔

دہشت گردی کے ان واقعات پر روزنامہ جنگ نے درجنوں خصوصی تصویری صفحات شائع کر کے اپنے لاکھوں پاکستانی قارئین کے دلوں میں دہشت گردوں کے خلاف نفرت اور قانون نافذ کرنے والی فوج‘ رینجرز‘ ایف سی اور پولیس کے حق میں رائے عامہ ہم وار کی اور کر رہا ہے۔ شہداء سے کئی گنا زیادہ پاکستانی عمر بھر کے لیے اپاہج ہوئے‘ مالاکنڈ ہو یا سوات‘ بلوچستان ہو یا فاٹا یا پاک افغان بارڈر، ملک کے ہر قصبے‘ شہر‘ آرمی نیوی اور ائرفورس کی تنصیبات ہوں، ان کی حفاظت کے لیے ہماری افواج، سول اور آرمڈ فورسز، پولیس، ایف سی کے افسرو جوان اپنی قیمتی جانیں قربان کر کےپاکستانی عوام کی جان و مال کی جس طرح حفاظت کر رہے ہیں اُن کی ان قربانیوں کو ادارہ جنگ کے اخبارات میں حب الوطنی اور دفاع وطن کے حوالے سے ہمیشہ سراہا گیا۔ سیاچن گلیشیر کے منفی 30سے منفی 50ڈگری سینٹی گریڈکےخون جما دینے والے موسم میں برس ہا برس سے ہمارے فوجی جوان و افسر دشمن کے مقابلے میں سینہ سپرہیں۔

دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ،سیاچن اور دوسرے برف پوش پہاڑوں پر موجود اپنی چوکیوں پر بیٹھ کر ہماری فوج دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دن رات اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتی چلی آ رہی ہے۔ اسی جذبے کے تحت جنگ گروپ کے اخبارات نے محافظان وطن کی قربانیوں اور جرات مندانہ کارروائیوں کو ہمیشہ ملک بھر کے عوام کے سامنے رکھا۔ سیاچن گلیشیر میں درجہ حرارت منفی 40سے منفی 50ڈگری سینٹی گریڈ ہونے کی وجہ سے اگر انسان لوہے کے کسی خاردار تار یا کھمبے کو ہاتھ لگا لے تو اُس شدید سرد لوہے کے ساتھ انسانی گوشت چپک جاتا ہے۔ عام آدمی اتنی بلندی پر سانس بھی نہیں لے سکتا۔ 

سیاچن کے محاذ پر پاک فوج کے سیکڑوں افسر و جوان نہ صرف جام شہادت نوش کر چکے ہیں بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ ہمارے مجاہد فوجی افسر اور جوان ہاتھ پاؤں کٹوا چکے ہیں۔ دشمن ملک بھارت کا جانی و مالی نقصان پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ حقیقت بھی جنگ گروپ کے اخبار قوم کے سامنے بلاکم و کاست پیش کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ بھارتی ہٹ دھرمی کو جنگ گروپ کے اخبارات اپنے صفحات پر مسلسل اجاگر کرنے کا پیشہ ورانہ فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں۔

پاکستان کی فضائیہ اور بحریہ نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں اپنے سے کہیں بڑی انڈین ایئرفورس اور نیوی کو جو سبق سکھائے۔پھر 27فروری 2019ء کو بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے آزاد کشمیر میں دراندازی کی کوشش کی تو پاک فضائیہ کے سپوتوں نے اسے ناکام بنایا۔ ادارہ جنگ نے اس تاریخ ساز فضائی جنگ کے معرکے کی کوریج جنگ گروپ کے اخبارات اور الیکٹرانک چینل، جیو نیوز پر بھرپور انداز میں کر کے پوری دنیا پر پاک فضائیہ کی برتری ثابت کرنے کا حق ادا کر دیا۔ 

جنگ گروپ کے ٹی وی چینل جیو نیوز نے بالاکوٹ کے علاقے میں اُس مدرسے کی خصوصی وڈیوز قوم کو دکھائیں جن کے بارے میں بھارت یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ 26فروری 2019ء کو بھارتی حملہ آور جنگی طیاروں نے بالاکوٹ کے مدرسے میں مبینہ طور پر دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے والے درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاہے۔

جیو نیوز کی ٹیم نے علاقے کا دورہ کر کے دنیا کو بتایا کہ بھارتی حملہ آور طیاروں نے بالاکوٹ کے کسی مدرسے پر بم نہیں گرائے بلکہ وہ پاک فضائیہ کے جنگی طیاروں کی آمد کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اپنا پے لوڈ اس علاقے کے پہاڑ پر گرا کر رفوچکر ہوئے جس سے ایک کوا مرا اور ایک درخت کو نقصان پہنچا۔ اس طرح جنگ گروپ کا اعزاز ہے کہ اس نے دشمن کے ناپاک عزائم اور بے بنیاد دعوؤں کو بے نقاب کیا۔ جنگ ستمبر ہو یا جنگ کشمیر‘ جنگ دسمبر 1971ء ہو یا معرکہ کارگل، ادارہ جنگ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس کی سب سے پہلے حقیقت پر مبنی کوریج روزنامہ جنگ‘ انگریزی روزنامہ دی نیوز اور جیو نیوز چینل پر کی گئی جو جنگ گروپ کی حب الوطنی کی زندہ مثال ہے۔

سابق مشرقی پاکستان میں مارچ 1971ء میں فوجی ایکشن شروع ہوا۔ پھر بھارت نے اپنی فوج کو مکتی باہنی کے بھیس میں وہاں دہشت گردی کے لیے داخل کیا ،بعدازاں بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر زمینی و فضائی حملے شروع کیے۔ اقوام متحدہ میں پولینڈ کی قرارداد کا مسودہ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے پھاڑا۔ 

ان تمام حالات و واقعات کی غیر جانب دارانہ کوریج روزنامہ جنگ کے صفحات پر کی جاتی رہی۔ اس وقت جنرل یحییٰ اور ان کے سول رفقاء نے اخبارات پر بدترین پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں۔ سرکاری ڈائریکٹر پبلسٹی، روزانہ رات کو ہدایات جاری کرتے۔ تمام اخبارات کی کاپیاں ان کے پاس جاتیں اور وہ ہر اس خبر کو اتار پھینکتے جو اس وقت کے حکم راں کےناشتے کا مزہ کرکراکر سکتی تھی۔

18دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکا کی تاریخ ہے۔ اس سانحے کے بعد پاکستانی تاریخ کے واحد سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر/پاکستان کے صدر، ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ کے اُس وقت کے سینئر جج مسٹر جسٹس حمود الرحمان پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا ۔ اس کمیشن کو سقوط مشرقی پاکستان کے فوری اسباب معلوم کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ روزنامہ جنگ نے اس سانحے کے بارے میں جس طرح سنسر شپ کی پابندیوں کے باوجود قوم کو آگاہی دی تاریخ اس کا بھی ذکر کرے گی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج آپریشن سوات‘ آپریشن فاٹا اور ان دنوں بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں جانوں کی جو قربانیاں دے چکی ہے اور دے رہی ہے‘ جنگ نے اسے ہمیشہ اجاگر کیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ مئی 2014ء کا سورج بھی افواج پاکستان کے لیےبہت سے اندرونی و بیرونی چیلنجزلے کر نمودار ہوا تھا۔ ایک دہائی سے دہشت گردی کے جس عفریت نے ملک کو گھیر رکھا تھا وہ بدستور ملک کی سلامتی کو نگلنے کے لیے پھن پھیلائے ہوئے تھا۔ دوسری جانب بلوچستان اور کراچی میں اندرونی و بیرونی سازشیں عروج پر تھیں۔

ان سازشوں کو بے نقاب کرنے میں جنگ گروپ سے زیادہ موثر کردار کسی کا نہیں تھا۔ کامرہ کا ایروناٹیکل کمپلیکس ہو یا پشاور کا ہمارا فضائی مستقر‘ کراچی میں پاکستان نیوی کے اڈے ،مہران پر پی تھری اورین طیارے کی دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہی کا سانحہ ہو، ان واقعات کی کوریج جنگ کےنے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کی جو اس کی ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے۔ اسی طرح پاک بھارت سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے انتہائی حساس صورت حال میں جنگ نے افواج پاکستان کا امن و جنگ میں قابل فخر کردار قوم کے سامنے پرکشش انداز میں ہمیشہ پیش کیا۔

مذکورہ اندرونی و بیرونی خطرات کے علاوہ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان‘ خیبر پختونخوا‘ فاٹا‘ پنجاب‘سندھ، بلوچستان میں زلزلے‘ سیلاب کی شکل میں جو آفات آئیں ان میں اور خاص طور پر آواران میں زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے پاک فوج کاکردار ناقابل فراموش رہا۔ ملکی تعمیرو ترقی کے حوالے سے خاص طور پر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں تعلیمی انقلاب‘ سی پیک کے تحت سڑکوں، پلوں کی تعمیر اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں پاک فوج کے کردار کو بہت زیادہ عوامی پذیرائی حاصل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان نے ان تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ ورانہ تیاریوں‘ دفاعی ساز و سامان میں خود انحصاری کی منزل اور بدلتے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت سے دنیا کی بہترین افواج میں اپنا مقام برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں معمول کی مشقوں کے ساتھ خاص مشقیں قابل ذکر ہیں جو عالمی اور مقامی مبصرین کے نزدیک نہ صرف جدید میدان جنگ کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں بلکہ خطے میں طاقت کے توازن، خاص طور پر بھارتی کولڈ اسٹارٹ اسٹرٹیجی (Cold Start Strategy) کا منہ توڑ جواب ہیں۔ جنگ پاکستان کی برّی، بحری اورٰ فضائی افواج کی مشقوں کی تفصیلات سے ملک بھر کے عوام کو آگاہ رکھنےکے لیےخصوصی خبریں،مضامین اور اداریے تک شائع کرتاہے۔

افواج پاکستان کے حب الوطنی کے جذبے کے تحت اٹھائے گئے انسان دوست اقدامات کے ساتھ 7جنوری 2022ء کو ملکہ کوہسار مری میں برف باری کے دوران جو سانحہ رونما ہوا مصیبت کی اس گھڑی میں برفانی طوفان کے دوران افواج پاکستان نے اپنی جان خطرے میں ڈال کرمری سے کوہالہ اور مری سے راول پنڈی، اسلام آباد کی سڑکوں کو دن رات ایک کر کے ٹریفک کے لیے کھولااور مزید اموات کا رستہ بند کیا ہے۔ اس کی کوریج جنگ نے بھرپور انداز میں کی۔

1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے اور اسی طرح نائن الیون کے فوری بعد امریکا اور نیٹو افواج کی جانب سے افغانستان پرجنگ مسلط کئے جانے کے دوران دہشت گردوں نے پاکستان کی مسلح افواج‘ مساجد‘ امام بارگاہ‘ مارکیٹوں‘ بس اڈوں‘ ریلوے اسٹیشنوں‘ ریلوے ٹریک‘ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گردی شروع کی۔ اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سول و مسلح افواج نے جو کام یاب کردار ادا کیاجنگ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کا بھرپور ساتھ دیااوران کی کوششیں اپنے قارئین تک پہنچائیں۔

16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے ڈیڑھ سو سے زائد طلباء اور ان کے اساتذہ کو شہید کیا۔ اس سانحہ پر جنگ گروپ نے ایک نہیں بلکہ ایک سے زیادہ خصوصی رنگین صفحات نکالے جن میں دہشت گردی کے خلاف عوامی رائے عامہ بیدار کی گئی۔ 7اپریل 2012ء کو سیاچن کے گیاری سیکٹر میں پاک فوج کے 139افسر اور جوان ہزاروں ٹن وزنی برفانی تودے تلے دب کر شہید ہو گئے تھے۔

اس قومی سانحہ سے پاکستانی عوام کو آگاہ کرنے اور اس کے بعد شہداء کے جسد خاکی نکالنے کے لیے پاکستان آرمی نے جو آپریشن کئے اس کی تفصیلات جنگ نے نمایاں انداز میں شائع کیں۔ فوج کا ریسکیو آپریشن 2013ء تک جاری رہا۔ موسم کی چیرہ دستیوں اور خطرناک لینڈ سلائیڈنگ کے باوجود پاک فوج کے ریسکیورز نے آخری شہید کی لاش ملنے تک مشن جاری رکھا۔ جنگ گروپ مسلسل گیاری کے 139شہید افسران اور جوانوں کی بازیابی تک مثبت کردار ادا کرتا رہا۔

24ستمبر کو آواران اور مشکے کے اضلاع میں آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بڑا زلزلہ تھا۔ چند ساعتوں میں ہزاروں مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ آواران اور ملار کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پاک فوج اور ایف سی کے دستے فوری طور پر امدادی سرگرمیوں کے لیے پہنچ گئے۔

ان کے ساتھ جنگ کے نمائندگان جائے وقوعہ سے مسلسل خبریں بھجواتے رہے اور جنگ گروپ کے تمام اخبارات اس ہولناک تباہی اور لوگوں کی انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے افواج پاکستان کی کارروائیوں کو عوام تک پہنچاتے رہے۔ان امدادی کارروائیوں کے دوران پاک فوج پر دہشت گردوں نے متعدد حملے کئے۔ ایسے بیس حملوں کے دوران سکیورٹی فورسزکے 6جوان شہید اور بارہ زخمی ہوئے مگر امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھ کر پاک فوج نے مقصد سے لگن کو ثابت کر دیا۔ جنگ گروپ کے اخبارات نے اس تمام صورت حال کو مسلسل اپنے قارئین کے سامنے رکھا۔

1998میں اس وقت کےوزیراعظم محمد نواز شریف نے تازہ ترین صورت حال پر افواج پاکستان کی قیادت کو اعتماد میں لیا۔ اس کے ساتھ پاکستان بھر کے ہر شعبہ زندگی کی شخصیات سے مسلسل 12دن وزیراعظم سیکرٹریٹ کے آڈیٹوریم میں مشاورتی اجلاس کئے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو ہر مشاورتی اجلاس میں ساتھ رکھا اور بالآخر پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین اشفاق احمد اور کمیشن کے ممبر ٹیکنیکل ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے بھی علیحدگی میں ملاقاتیں کیں۔ 

مئی کے تیسرے ہفتے میں وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے اُس وقت کے چیئرمین اشفاق احمد کو اعتماد میںلے کر ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی قیادت میں ایٹمی دھماکے کرنے والی ٹیم کو چاغی کے پہاڑوں میں کئی سالوں سے تیار کی گئی پانچ سرنگوں کو تیار کرایا اور اس علاقے کی حفاظت کے لیے پاکستان آرمی کے بریگیڈ بھجوائے۔ 23مئی کو 2سی ون تھرٹی طیاروں کے ذریعے ڈاکٹر ثمر مبارک مند‘ انکی ٹیم اور ایٹم بم کے بغیر جوڑے ہوئے حصے چاغی کے قریبی شہر میں موجود لینڈنگ اسٹرپ (ہنگامی رن وے) پہنچائے گئے۔ 

موجودہ نور خان ائربیس اور 1998ء کے چکلالہ ائربیس سے جب 2سی ون تھرٹی6ایٹم بموں کے بغیر جوڑے ہوئے حصے لے جا رہے تھے تو ہر سی ون تھرٹی طیارے کو پاک فضائیہ کے دو دو جنگی طیاروں نے دائیں اور بائیں سےاپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ اس طرح مئی 1998ء کے تیسرے عشرے میں کوئٹہ کے سمنگلی ائربیس پر سی ون تھرٹی طیارے اُترے اور وہاں سے یہ سب کچھ چاغی کے پہاڑوں کے قریب سخت سکیورٹی میں پہنچایا گیا۔ 

ڈاکٹر ثمر مبارک مند‘ انکے ساتھی غلام نبی سمیت پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی ٹیم کم و بیش ایک ہفتہ تک 50سینٹی گریڈ کی جھلسا دینے والی گرمی میں پانچ سرنگوں میں ایٹم بم نصب کر چکی تو 28مئی 1998ء کو فوجی ہیلی کاپٹر دھماکوں کے وقت سے صرف 15منٹ پہلے وہاں اُترا جس میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین اشفاق احمد‘ کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کے چیئرمین ڈاکٹر اے کیو خان‘ اعلیٰ فوجی افسروں کے ساتھ اُترے۔

اُن کے اترنے کے پندرہ منٹ بعد ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور انکی ایٹمی توانائی کمیشن کی ٹیم نے اسلام آباد سے گرین سگنل ملتے ہی دھماکے کرنے والے کمپیوٹر کا بٹن دبایا۔ چند سیکنڈ تک دھماکے نہ ہوئے تو ٹیم پریشان دکھائی دی لیکن ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ٹیم سے کہا کہ ہم ایٹم بموں سے کئی کلومیٹر دور کمپیوٹرلےکر بیٹھے ہیں‘ اگرچہ اس کے سرنگوں تک موجود ہیں لیکن ہر سرنگ کو ایٹم بم رکھنے کے بعد ہم نے کنکریٹ کے درجنوں باوزرزکی مدد سے سر بہ مہرکر دیا ہے، اس لیے انشاء اللہ فتح مبین حاصل ہو گی۔ اسی دوران چاغی کا پورا پہاڑ دھماکوں سے گونج اٹھا۔ پہاڑ کا رنگ تین دفعہ تبدیل ہوا اور دھماکے کرنے والی ٹیم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئی۔ چھٹا ایٹمی دھماکہ فاران کے ضلع میں بنائی گئی کئی سو فٹ گہری بورنگ کر کے بنائی گئی سرنگ میں اگلے روز کیا گیا۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں پوکھران میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے فوری بعد پاکستان میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور اپنی حکومت کا تختہ الٹنے سے پہلے ڈاکٹر اے کیو خان کو ،جو یورینیم کی افزودگی کے معروف ماہر تھے، پاکستان بلوا لیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہوٹہ ریسرچ لیباریٹری میں یورینیم کو افزودہ کرنے کا پلانٹ پہاڑوں کے نیچےلگایا اور بالآخر پچانوے درجے کی افزودگی حاصل کی۔ ماہرین کے مطابق ایٹم بم کے 12مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ 

یورینیم انرچمنٹ بھی اتنا ہی اہم مرحلہ ہے جتنا ایٹم بم کے باقی گیارہ مراحل ہیں۔ ہرمرحلہ جزو لاینفک ہوتا ہے۔اس لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوں‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہوں‘ ڈاکٹر اشفاق احمد ہوں یا اُن سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور سے ایٹمی کمیشن کے مسلسل دس پندرہ سال تک چیئرمین رہنے والے منیر احمد خان ہوں‘ جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد صدر غلام اسحاق خان ہوں‘ یہ سب ناقابل تسخیر پاکستان کے ہیرو ہیں۔

وطن عزیزکےدفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں افواج پاکستان اور جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے کردار کو دنیا کی کوئی طاقت فراموش نہیں کر سکتی۔ ادارہ جنگ نے دفاع پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کی کام یابیوں کو ہر دور میں اجاگر کیا اور مسلح افواج کی طرف سے دفاع وطن کے لیے جو بھی کیا گیا ادارہ جنگ نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت اسے نمایاں انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا۔