’’ہمارا مقصد بیرون ملک اور ملک کے اندر امن ہونا چاہیے، ہم اپنے پڑوسی ملکوں اور پوری دنیا کے ساتھ پرامن طورپر رہنا چاہتے ہیں۔ سب سے اچھے رشتے اور دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں‘‘۔ (قائداعظم محمد علی جناح، 15؍اگست 1947)
یہ تھے پاکستان کی خارجہ پالیسی کےلئے وہ رہنما خطوط جو بانی ٔپاکستان نے آزادی کے ایک روز بعد ہی طے کر دیئے تھے۔اس میں خارجہ پالیسی کےلئے وژن، پالیسی اور خواہش سب ہی کچھ ہے۔ قائداعظم نے شاید کبھی یہ نہ سوچا ہوگا کہ نئی آ زاد مملکت آنے والے وقت میں کس گرداب میں گھر جائے گی اور کن خوفناک مسائل سے دوچارہوگی۔ ایسے مسائل سے جواسے دولخت کردیں اور باقی بچے ہوئے ملک میں بھی غیر ملکی اور داخلی تشدد، دہشت گردی سب میں خارجی عوامل بھی شامل ہو جائیں گے۔
جنگ گروپ کے اخبارات نے پاکستان کی قومی پالیسی اور خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کےلئے جو کنٹری بیوشن کیا وہ دانشورانہ اور خبری سطح پر بہت زبردست رہا۔ خارجہ پالیسی جنگ کے لئے ایک بہترین موضوع اس لئے رہا کہ جنگ اخبار کے بانی میر خلیل الرحمن مرحوم نے خارجہ پالیسی کی ناکامی کے بعد جنگ عظیم کے دوران ہی روزنامہ جنگ شائع کرنا شروع کیا تھا۔ میر خلیل الرحمن بالعموم قائداعظم کے جو ا قوال دہراتے تھے اس میں خارجہ پالیسی پر یہ سب سے نمایاں تھا۔
خارجہ پالیسی کیا ہے؟
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی الگ تھلگ نہیں ہوتی۔ یہ قومی اور داخلہ پالیسی اور معاشی صورتحال کے تابع ہوتی ہے۔ فی ا لوقت یہ کہنا مناسب ہو گا کہ دنیا میں عام طور پر ’’خارجہ پالیسی‘‘ داخلہ پالیسی، معیشت، سماجی حالات اور مذہبی انتہا پسندی (بی جے پی بھارت میں ) کے تابع بھی ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی پوری طرح آزاد نہیں ہوتی۔ دراصل قومی مقاصد کے حصول کے لئے ایک ذریعہ بنتی ہے۔
اب اگر ہم قائداعظم کے وژن کا جائزہ لیں۔’’دوستی سب سے دشمنی کسی سے نہیں‘‘ تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان بحیثیت مجموعی یہ مقاصد داخلی، دفاعی، معاشی، سماجی اور گروہی مذہبی انتہا پسندی کے باعث حاصل نہیں کر سکا لیکن ساتھ ہی پاکستان نے کئی ممالک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھے جن میں مسلم دنیا عمومی طور پر چین ایران اور وسطی ایشیائی ممالک خاص طور سے شامل ہیں۔.2022میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چین سے طویل رشتوں، دوستی اور تعلقات کی ایک مثال اگر شاہراہ قراقرم ہے تو دوسری طرف سی پیک ایک بڑی روشن مثال ہے۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ایک وقت تھا جب پاکستان کا شمار بہت بااثر ملکوں میں ہوتا تھا جن کی خارجہ پالیسی اتنی طاقتور تھی کہ بھارت بھی اس سے پریشان رہتا تھا۔ پاکستان کی پریشانیوں کاآغاز خارجہ محاذ پر نہیں داخلی محاذ پر پے درپے مارشل لاء لگنے اور جمہوری عمل پٹری سے اترنے کے باعث ہوا۔ بھارت سے مستقل کشیدگی رہی، جنگیں ہوئیں حتیٰ کہ ہماری غلط داخلی پالیسیوں کے باعث مشرقی پاکستان بھارت نے الگ کردیا۔ بھارتی خارجہ پالیسی کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ دنیا نے اس کی فوج کی مشرقی پاکستان میں موجودگی کو بھی نظرانداز کر دیا اور سارے الزامات پاکستان پر لگ گئے۔ اتنی دھول اُڑی کہ پاکستان کی دہائیاں بھی کام نہ آئیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی اس بری طرح ناکام ہوئی کہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی بھی اس کے خلاف ہوگئی۔ دوست ملک مدد کو نہ آئے۔ ایک ریٹائرڈ جنرل کہتے ہیں ’’ہم تو ساتویں بحری بیڑے اور زر دوستوںکے انتظار ہی میں رہ گئے۔ ’’بریگیڈیئر صدیق سالک‘‘ نے بھی اپنی کتاب’’ witness of surrender‘‘میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جگہ جگہ سے یہ افواہیں اڑتی تھیں کہ زرد دوست پیرا شوٹس سے اتر رہے ہیں لیکن وہ بھارتی فوجی ہوتے تھے۔
سقوط ڈھاکہ پاکستانی خارجہ پالیسی کی غلامی کا مظہر رہا ۔بھارت سے ہمارے خراب تعلقات، ہمیشہ خراب نہیں رہے۔ کانگریس کے زمانے میں اگرچہ عمومی طور پر اچھے رہے لیکن یہ نہ بھولا جائے کہ یہ کانگریس ہی تھی جس نے پاکستان کو دو لخت کرکے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ’’ آج ہم نے نظریہ پاکستان بحیرہ عرب میں غرق کردیا ہے‘‘
وزیراعظم اندراگاندھی کا سقوط ڈھاکا پر خطاب
بھارت سے تعلقات آج بھی ابتر ہیں۔ پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ بی جے پی کی حکومت سے اس طرح اچھے تعلقات قائم ہو سکیں جیسے بی جے پی کی واجپائی حکومت سے تھے لیکن خارجہ پالیسی اور دفتر خارجہ سے نریندر مودی کے ذہن اور مشن کو پڑھنے میں جگہ جگہ ٹھوکر کھائی حتیٰ کہ 5؍اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر ڈالا اورپاکستان کے وزیراعظم عمران خان جنرل اسمبلی میں ایک جاندار تقریر کے سوا کچھ اور نہ کرسکے۔
کسی ملک نے بھارت کی مذمت نہیں کی، لگتا تھا کہ بھارتی خارجہ پالیسی، بھارت کی معاشی طاقت، (زرمبادلہ کے ذخائر 640ارب ڈالر) اور بہت بڑی منڈی (ایک ارب 38کروڑ آبادی)کے گھوڑے پر سوار سب کو روندتی چلی جا رہی ہے ۔پاکستان محض احتجاج کرتا رہا یا مودی اور آر ایس ایس کے درمیان ساز باز کے الزامات لگاتا رہا جو اگرچہ حقیقت تھے لیکن بھارتی دفتر خارجہ ان کا توڑ بھی نکالتا رہا۔ امریکا سے ہمارے تعلقات ’’پارٹ ٹائم‘‘ بنیاد پر ہوئے ۔ہم نے اگرچہ آزادی کے بعد پہلا دورئہ امریکا ہی کا کیا، امریکا کے تن من دھن سے ’’شراکت دار‘‘ رہے، بغداد پیکٹ اور دیگر معاہدوں میں امریکا کا ساتھ دے کر بدنامی مول لی۔
ہم نے ہر امریکی فوجی مہم میں اس کا ساتھ دیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کو توڑنے کے لئے امریکا کے ساتھ کیا۔ امریکا سے ’’آگے آگے رہے۔‘‘ 9/11کے بعد پھر امریکا نے ہمیں ڈیوٹی پر طلب کرلیا۔ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی، داخلی پالیسی اور دفاعی ادارے سب امریکا کے حوالے کر دیئے لیکن امریکا ہمیشہ ہمیں استعمال کرکے دھتکارتا رہا۔ دفتر خارجہ میں کام کرنے والے ’’دماغ ‘‘ بددماغ رہے کبھی یہ سوچنے کے لئے نہیں بیٹھے کہ آخر ایسا کیا ہےکہ امریکا ہمیں زیادہ لفٹ نہیں کراتا۔ ہم نے امریکا کوخوش کرنے کے لئے سوویت یونین کی طرف سے آنے والا دعوت نامہ ایک طرف کردیا اور صرف فون پر امریکی دعوت آئی تو واشنگٹن دوڑ گئے۔
ہم نے امریکا کے لئے جو خدمات انجام دیں، اس کا صلہ کم از کم یہ تو ملتا کہ امریکا پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں سہولت کار نہ بننا لیکن یہ بھی نہیں ہوا ۔مشرقی پاکستان میں بحری بیڑا بھیجا نہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بھارت کے خلاف حمایت کی۔امریکا سے آج بھی اختلاف ایک ’’فون‘‘ نہ ہونے پر ہوا۔ امریکا کواس شکایت کی فکر بھی نہیں۔ اس کے صدر نے وزیراعظم عمران خان کو ابھی تک فون نہیں کیا۔ اسی بناء پر پاکستانی وزیراعظم کا دورئہ روس (یوکرائن پر حملے کے باوجود) بہت مناسب حکمت عملی لگتی ہے کہ فون نہ کرو۔ میں روس جارہا ہوں۔
افغانستان
افغانستان میں پاکستان نے مہلک غلطیاں کیں۔
1۔سوویت یونین توڑنے کے لئے امریکا کا ساتھ دیا۔
2۔مجاہدین کی تربیت اور ان کیلئے پناہ
3۔لاکھوں افغان مجاہدین کےلئے کیمپوں کاقیام
4۔کلاشنکوف، ہیر وئن، گولہ بارود کی پاکستان آمد
5۔9/11کے بعد پھرپاکستانی خدمات، پھر افغانستان پر بمباری کیلئے اڈے، راستے اور ہر طرح کی سہولتوں کی فراہمی۔
6۔افغانستان کو ’’حرف آخر‘‘ میں دوست سمجھ لینا
7۔طالبان پاکستان کی تنظیم جو بعد میں پاکستان ہی کے خلاف ہوگئے۔
8۔اس برس طالبان پاکستان سے مذاکرات
پاکستان نے افغانستان میں ملوث ہونے کی بہت سزا بھگتی۔ 80ہزار پاکستانی دہشت گردی، بم دھماکوں، تخریب کاری اور عمارتوں پر حملوں میں شہید ہوئے، ان میں فوجی، سپاہی،افسر، عام شہری اور ملک کے سرکردہ لیڈر بشمول بے نظیر بھٹو سب ہی شامل تھے۔
افغانستان کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔ پاکستان نے طالبان مغرب امریکا مذاکرات (دوحہ مذاکرات) کیلئے راہ ہموار کی۔ طالبان لیڈروں کورہا کرکے دوحہ بھیجا ،تاکہ وہ مذاکرات میں حصہ لے سکیں (اس سے پہلے صدرمشرف کے دور میں القاعدہ اور طالبان گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کئے جاتے رہے) (اس کا اعتراف صدر مشرف نے اپنی کتاب In The Loc of Fire میں خود کیا ہے) خارجہ پالیسی کی یہ دوعملی ہمیں کہیں قدم جمانے میں کامیاب نہ کرسکی۔ اب بھی تمام تر کوششوں کے باوجود افغان علاقے سے پاکستان پر حملے ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی جاری ہے اور ہم دنیا کویہ بتاتے بتاتے تھک گئے ہیں کہ اس میں بھارت بھی شریک ہے۔
دنیا افغانستان میں ہمارا کردار چاہتی تھی مگر اس کی تعریف نہیں کرتی۔
دنیا بھارت کے مظالم اور پاکستان میں مداخلت دیکھ رہی ہے مگر مذمت تک نہیں کرتی۔
یہ ہماری خارجہ پالیسی کی کاہلی نہیں بظاہر ناکامی ہے۔ اس ناکامی کی وجہ ہماری بری معیشت، غیر یقینی صورتحال، کمزور جمہوریت، انسانی حقوق کی عدم پاسداری اور دوعملی ہے۔
پاکستانی خارجہ پالیسی
ہماری خارجہ پالیسی کے معروف ستون شروع ہی سے درج ذیل ہیں۔
1۔ملکی سلامتی اور آزاد ریاست کے طور پر ہماری بقا
2۔بھارت سے برے تعلقات ۔ جنگیں اور مخاصمت
3۔امریکا پر غیرمعمولی انحصار
4۔مسلم دنیا سے دوستی برادرانہ تعلقات اور اس کی مد دپربھروسہ
بدقسمتی سے یہ چاروں ستون گرتے سنبھلتے اور کمزور ہوتے گئے۔ پہلا ستون تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں منہدم ہوگیا ، اس کے بعد آزاد ریاست کے طور پر زندہ رہنے کے لئے ہمیں خارجہ پالیسی کیا ملکی دفاع پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑا لیکن جب ایک بار یہ فیصلہ ہوگیا کہ بھارت کی غیر معمولی قوت کا مقابلہ ہم روایتی ہتھیاروں سے نہیں کرسکتے تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایٹمی منصوبہ شروع کیاگیا جس نے پاکستان کو دفاعی ڈھال کے طور پر ایٹم بم دیئے۔
اس کے بعد بھارت سے مخاصمت تو رہی، سرحدی جھڑپیں رہیں۔ کارگل اور اس سے پہلے سیاچن ہوا لیکن بڑی جنگ نہیں ہوئی اور جب بھارت نے 2016ء میں سرجیکل آپریشن کا ڈھونگ رچایا تو کشیدگی ایک بار پھر آسمان چھونے لگی۔
2019ء میں پلواما میں(14؍فروری) ایک جانباز حملے میں بھارتی فوج کے 40افسر اور جوان مارے گئے تو بھارت میں بھونچال سا آگیا اور حسب روایت بھارت نے چند گھنٹوں بعد ہی اس کا الزام پاکستان پر لگادیا۔ اس کے پیش نظر پاکستان میں بھی ہائی الرٹ کر دیاگیا۔ بھارت نے 26فروری کو بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ مدرسے میں درجنوں دہشت گرد مارے گئے۔
یہ مدرسہ بقول بھارت ایک دہشت گرد مرکز تھا۔ غیر ملکی اور نادانستہ میڈیا، سیٹلائٹس تصاویر اور غیر ملکی انٹیلی جنس نے بھارتی دعوے کی تردید کرتے ہوئے پاکستان سے اس اعلان کی تصدیق کی کہ بھارت کی زبردست بمباری میں کئی درخت شہید ہوگئے۔ کسی انسان کو نقصان نہیں پہنچا ،ہاں کچھ مویشی زخمی ضرور ہوئے۔
ایٹمی جنگ کے قریب
پاک بھارت تعلقات میں مستقل کڑواہٹ دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ دشمنی کے ایک ذہنی رویہ کی عکاس ہے جو داخلی پالیسی سے جنم لیتا ہے۔ بھارت نے سرکریک سیاچن اورکشمیر پر جو قبضہ کر رکھے ہیں، ان کے سوا بھارتی سوچ کہ پاکستان کو ہی ہڑپ کرنا ہے خارجہ پالیسی میں کسی رعایت کو برداشت نہیں کرسکتی چنانچہ جب وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے نریندر مودی سے کچھ توقعات وابستہ کر لیں تو ان پر سخت تنقید ہوئی یہ تنقید غیر ضروری نہ تھی۔
وزیرخارجہ اور وزیراعظم نے خود تسلیم کیا کہ اس موضوع پر خارجہ پالیسی کی سوچ غلط تھی۔اس گفتگو سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت سے پاکستان کو خطرہ عارضی نہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے ختم ہو جائے۔ یہ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کی سوچ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ دفتر خارجہ کی یہ سوچ بھی غلط ثابت ہوتی رہی ہے کہ ایٹمی ہتھیار تعلقات معمول پر آنے کے بعد ختم ہو سکتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کا فوکس، پاک چین تعلقات
چین سے اچھی دوستی کی ایک تاریخ ہے۔ اس کا آغاز 1950ء سے ہوتا ہے جب پاکستان نے پہلی مسلم ریاست کے طور پر چین کو سفارتی احترام اور مقبولیت دی ۔سرخ چین سے 1951ء میں مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے جس کے بعد سے اب تک دونوں ملک شانہ بشانہ ہیں۔ ان کی دوستی کے محاورے بھی مشہو ر ہیں۔ ہمارے بھی بلند، ہر موسم کی دوستی، سمندروں سے گہری دوستی۔
آئرن برادرز
پاکستان اور چین کے درمیان ان گنت معاہدے ہیں جن کا تعلق سماجی، معاشی، دفاعی اور عالمی بھی ہے۔ اسٹریٹجک معاہدے اور معاشی ترقی کیلئے کوششوں نے دونوں ملکوں کے درمیان اہم ترین فری ٹریڈ ایگریمنٹ(2007ء) تھا جس کے بعد تاریخ ساز چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) 2015ء میں ہوا۔
پاک چین دوستی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر اور اسی کا بڑا کارنامہ ہے۔ اس کا آغاز1962ء میں بھارت چین کی لڑائی سے ہوتا ہے جب چین بار بار دھوکے کھانے کے بعد بھارت کی پٹائی کر کے جان چھڑا لیتا ہے۔ اس چین ہند لڑائی کے دوران چینی حکومت نے پاکستان کو پیشکش کی کہ وہ سری نگر تک پیش قدمی کر سکتے ہیں کیونکہ بھارتی فوج کوچینیوں نے مصروف کئے رکھا ہے لیکن اس وقت تک بھی امریکا ہمیں ڈکٹیٹ کراتا تھا۔ ایوب خان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔
چیئرمین مائوزے تنگ کے ساتھی چواین لائی ایک بڑے مدبر تھے۔ وہ بہت طاقتور وزیراعظم تھے۔ پاک چین دوستی اسی مدبر کی فکر کا نتیجہ تھی جس میں سابق وزیراعظم سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ بھٹو دورکے بعد آنے والے ہر حکمران نے یہ بات سمجھی کہ یہ دوستی پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔ جس ملک سے 1963ء میں سرحد ی سمجھوتہ اور 1966ء میں فوجی تعاون ہوا وہ اب ہماری معیشت، فوجی طاقت اورجوہری صلاحیتوں میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
دونوں ملکوں کا اسٹرٹیجک الائنس 1972ء میں قائم ہوا۔ معاشی تعاون 1979ء میں باقاعدہ ہوا اور جلدی چین پاکستان کو ضرورت کا اسلحہ فراہم کرنے والا بڑا ذریعہ بن گیا۔ پاکستان نے چین کو اور چین نے پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔1989ء میں جب دنیا تن من اسکوائر پر ہنگامے کے حوالے سے چین کے خلاف سرگرم تھی تو پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے چین کو اہم حمایت فراہم کی۔ ایک ملک کیوبا تھا۔ چین مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا غیرمشروط حامی ہے اور پاکستان تبت اور تائیوان پر اس کی دوٹوک حمایت کرتا ہے۔ بعض اداروں میں چین کے واحد ووٹ نے پاکستان کو شرمندگی سے بچایا۔
خارجہ پالیسی نے فوجی معاہدوں کوجنم دیا اور فوجی معاہدوں نے اسلحہ سازی اور لڑاکا طیاروں کے کارخانوں کو، پاکستان اور چین مل کر گائیڈز میزائل اور فائر جیٹ (تھنڈر جے ایف) بنا رہے ہیں۔ 1972ء میں پاکستان تھا جس نے چین اور مغرب کا رابطہ کر ایا تھا۔ امریکی مشیر ہنری کنگر خفیہ دورے پر پاکستان سے چین گئے۔
سی پیک پاکستان کی معیشت میں گیم چینجر ثابت ہوگا ۔سی پیک پروجیکٹ، منصوبوں اور وژن کی تیاری میں کئی حکومتیں شامل تھیں سابق آصف علی زرداری نے اس پر گفتگو کی، نوازشریف کے دور میں اس پر عمل شروع ہوا جو، اب عمران خان کے دور میں جاری ہے۔ شکوے شکایتیں بھی ہوتی ہیں۔ عدم تحفظ کا بھی احساس ہے۔ کئی چینی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں لیکن کام جاری ہے۔ سڑکیں مکمل ہورہی ہیں۔
نئے پروجیکٹس پر عمل شروع ہونے والا ہے اور اس خواب کی تعبیر کے لئے جدوجہد ہورہی ہے کہ ٹرک چین سے چلے تو پاکستان سے ہوتا ہوا سینٹرل ایشیا تک پہنچ جائے۔ اس طرح یورپ تک سپلائی لائن بنائی جائے۔ پاکستان میں کراچی سے پشاور تک نئی ریلوے لائن بھی اس کا حصہ ، چین پاکستان اقتصادی تعلقات بھی ماضی میں بہترین خارجہ پالیسی کے مرہون منت ہیں۔ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے داخلی مسائل میں ممکن مشورے دیتے ہوں لیکن مداخلت نہیں کرتے۔ پاکستان نے چین جانے والے شدت پسندوں کو روکا اور ساتھ ہی ایغورر کے عالمی پروپیگنڈے میں آنے سے انکار کر دیا۔
گزشتہ برس 22مئی کو پاک چین تعلقات کی 70ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے چین کے بنائے ہوئے ایٹمی ری ایکڑ (ہائولونگ I) سے لیس کراچی نیو کلیئر پاور پلانٹ یونٹ 2کا افتتاح کیا۔ پاک چین دوستی میں بھارت سے پاکستان کے تعلقات چین کولاحق خطرات’’مغربی ممالک‘‘میں چین کی غیر مقبولیت، سوویت یونین چین اختلافات سب ہی پیش نظر رکھے گئے، پھر جب چین میں ثقافتی انقلاب کے اثرات کم ہوئے اور چین چیئرمین مائوزے تنگ کی سخت مگر ضروری معاشی و سیاسی پالیسیوں سے باہر نکلا تو چین نے پاکستان سے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ نئے دوست بنائے لیکن پاکستان سے دوستی اور معنی خیز بنائی۔ فارن افیئرز میگزین کے مطابق چین کے لئے پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ دونوں میں سرحدوں کے مسائل 1964ء میں حل ہو چکے ہیں۔ گویا کوئی سرحدی مسئلہ ہے ہی نہیں، مفادات کاکوئی ٹکرائو نہیں، پاکستان چین کو انتہا پسندوں سے بچانےکےلئے’’بفر‘‘ کا کام کرتا ہے۔
مسلم دنیا
1947ء سے پہلے ہی برصغیر کے مسلمان امت، ملت اور ایک دین کے تصور میں بندھے ہوتے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے لئے ان کی قربانیاں بہت واضح رہیں۔ قیام پاکستان کی مخالفت میں اگرچہ کئی مذہبی جماعتیں آگے آئیں لیکن عوام نے ان کی فکر نہ کی اور اپنی خواہش کے مطابق پاکستان کے لئے جدوجہد کی۔ پاکستان بننے کے بعد یہ بات واضح تھی مسلم دنیا سے پاکستان کے لئے تعلقات بہترین ہوں گے ۔ یہی ہوا اور عربستان سے انڈونیشیا تک یہ خیر سگالی اور محبت قائم ہوتی چلی گئی۔ فلسطین پر پاکستان کی ٹھوس خارجہ پالیسی نے یہ رشتے اور مضبوط کئے۔
2022ء میں یہ سطریں لکھتے ہوئے ماضی کی طرف دیکھیں تو احساس ہو گا کہ دنیا 1990ء سے اب تک تک کتنی بدل گئی اور کتنی غیر نظریاتی ہوگئی ہے۔ 1990ء میں ملت اسلامیہ ایک نعرہ نہیں بلکہ یقین تھا۔ تجارتی سفارتی معاشی اور سفری تعلقات کا انحصار عموماً ملت اسلامیہ کے تصور پر ہوتا تھا۔ کشمیر، فلسطین، شیشینا، افغانستان، قبرص، تیمور ہر جگہ اس کی حمایت کے لئے حکومتیں اٹھ کھڑی ہوئی تھیں جہاں ’’جہاد‘‘ ہو رہا ہو یا جہاں آزادی کی جدوجہد جاری ہو۔درحقیقت پاکستان مسلم دنیا کی قیادت کررہا تھا مسلم ممالک ایک دوسرے کو تجارت میں ترجیحی درجہ دیتے تھے پاکستان یا کوئی اور مسلم ملک کسی بھی ادارے میں خود کو تنہا نہیں پاتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ صورتحال ختم ہوتی چلی گئی اور اب 2022ء میں شاید اس کا وجود ہی نہیں۔
پاکستان نے تجارت، فوجی سازوسامان اور طیاروں کی خریداری، انسانی وسائل، ترقیات، بینکاری اور دیگر اہم ترین شعبوں بشمول سیکورٹی میں مسلم ممالک کو مدد فراہم کی۔ ان میں سعودی عرب، بحرین، عرب امارات، اردن سب شامل ہیں۔ ان کی فوج کی تربیت بھی پاکستان نے کی۔ خارجہ پالیسی اس خطے میں دفاعی پالیسی کے ساتھ ساتھ چلنے لگی تجارت ان کے تابع تھی۔ قومی پالیسی بھی ان ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات رکھنا تھی۔
بیت المقدس تا عرب اسرائیل جنگ، شام و لیبیا پر حملوں کے واقعات میں پاکستان اور پاکستانیوں نے بڑھ چڑھ کر عرب دنیاکا ساتھ دیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے ان موضوعات پر پہل کاری کی اور عربوں کا کیس پوری شدت کے ساتھ پیش کیا، یہی نہیں الاقصیٰ پر یہودی حملے کے بعد پورے پاکستان میں عوامی احتجاج ہوا، یوں لگا جیسے آگ لگ گئی ہو 21؍نومبر1979ء کو جب یہ افواہ پھیلی کہ امریکا نے خانہ کعبہ پر بمباری کی ہے تو ایک بڑے ہجوم نے اسلام آباد میںامریکی سفارت خانہ کو پھونک ڈالا۔ (یہ بعد میں پتہ چلا کہ مسجد حرام پر حملہ ہوا ہے لیکن اس میں امریکا دو ر دُور تک ملوث نہیں) اس واقعہ میں 4؍افراد ہلاک ہوئے جن میں دو امریکی میرین گارڈز اور دو پاکستانی شامل تھے۔
ان تمام خبرو ں کی سب سے زیادہ بروقت ترسیل اور اشاعت جنگ اخبار کے ذریعے ہی ممکن ہوسکی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا طرئہ امتیازشملہ معاہدہ ہویا تاریخی اسلامی سربراہ کانفرنس ہو، اخبارجنگ کا جوش جذبہ اور کوریج مثالی رہے۔ معاہدہ تاشقند تو میر خلیل الرحمن کی صحافت ذہنی تیاری، خبر کی فوری ترسیل اور اشاعت کا منہ بولتا نمونہ ہے۔ میر صاحب 1965ء کی جنگ کے بعد خود تاشقند مذاکرات کور کرنے کے لئے روس گئے تھے۔ وہاں سے معاہدے کی خبر کے بعد ہی جنگ کے نیوز روم کو پیغام ملا کہ بڑی خبر کی تیاری کریں۔
میر صاحب نے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی موت کی خبر ہی نہیں بلکہ تصویر بھی بھیج دی۔ یہ دور ٹیکنالوجی کا نہیں تھا۔ بیرون ملک سے ریڈیو فوٹو آیا کرتے تھے۔ میر صاحب نے لاش کا ریڈیو فوٹو اپنے کیمرے سے بناکر پوسٹ آفس کے نظام کے تحت بھیجا، جو ٹی اینڈ ٹی کے ہیڈ آفس واقع چندریگرروڈ سے حاصل کی گئی۔ یہ رپورٹرز کے لئے سبق تھاکہ اگر کیمرا مین ساتھ نہیں تو خود کیمرا رکھے یہ واحد تصویر تھی جو کہیں بھی شائع ہوئی۔ میر صاحب کہتے تھے روس میں موت کا سن کر ان کے کمرے کی طرف گیا تو لاش نکالی جارہی تھی۔ میں نے کھٹ سے تصویر لے لی اس کے بعد تصویر بنانا ممکن نہیں رہا۔
اسلامی سربراہ کانفرنس کی تاریخی کوریج جنگ ہی کا اعزاز تھا۔ اس کانفرنس کو ہر پہلو سے کور کیا گیا۔ غیر وابستہ تحریک ہو یا سارک کانفرنس، انسانی حقوق ہوں یا عراق، ایران جنگ، مسئلہ افغانستان کی بات ہو یا فلسطین کی، جنگ گروپ کے اخبارات نے ایک پالیسی کے تحت سب سے ا ٓگے بڑھ کر کوریج کی۔
چین ،ایران، افغانستان،امریکا، سوویت یونین کے بارے میں جنگ کی وسیع کوریج اس وقت بھی شاندار اور بے مثال رہی جب ٹیکنالوجی تھی یہ وسائل۔ جنگ واحداخبار رہا جس کا دہلی میں شملہ معاہدے کے بعد باقاعدہ نمائندہ اور بیورو تعینات رہا۔ اس طرح امریکا، یورپ،ایران، افغانستان، سعودی عرب، عرب امارات میں بھی جنگ کے نمائندے موجود رہے۔
پاکستان کو داخلی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک متلاطم دنیا کا سامنا ہے۔ امریکا سے تعلقات زیادہ اچھے نہیں لیکن ایک پالیسی کے تحت پاکستان، روس، چین کے ساتھ مل کر ایک مؤقف اختیار کر رہا ہے۔ جنگ نے ایسے مضامین شائع کئے جن میں ہم آہنگ خارجہ پالیسی پر زور دیا گیا۔ اور ان حقائق پر زور دیاگیا کہ افغان لڑائی پاکستان کی شمولیت پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن مستقبل کی غلطیوں سے بچنا بھی ضروری ہے۔ان غلطیوں کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔وسطی ایشیا سے پاکستان کے تعلقات بہت اچھے ہیں لیکن ابھی تک ان سے زیادہ فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا۔ وقت آنے پر وسطی ایشای سے راستہ تجارت بھی بہت اہم ہوگا۔