عرب دنیا میں داعش اور حوثیوں نے خوف طاری کر دیاہے۔ اب ان دونوں عسکری طاقتور تحریکوں کی پاکستان پرحملےکی تیاری کی اطلاعات ہیں۔ سفارتی حلقوں کے مطابق داعش اور حوثیوں کا اتحاد ہوگیا ہے کہا جارہا ہے کہ سی آئی اے آر اے ڈبلیو (را) اور اسرائیلی موسادکی ان دونوں عسکری تحریکوں کی پشت پناہی کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔ بہت وثوق سے کہا جارہا ہے کہ داعش کے اہم لیڈر بھارت میں مقیم ہیں، جن کی آر اے ڈبلیو کے عسکری عہدیدار تربیت کررہے ہیں۔ یہ بات اب پوشیدہ نہیں ہے کہ اسرائیل بھی اندرون خانہ حوثیوںکو اپنے مقاصد کے لیے اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ عرب دنیا میں خوف پھیلانے کے لیے حوثی جنگجوئوں کو کہاں سے روپیہ اور اسلحہ مل رہا ہے۔ یہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔عرب انٹیلی جنس کے سینئر حکام کا کہنا ہے موساد اور حوثیوں کے درمیان2020ء میں ایک خفیہ مقام پر ایک معاہدہ ہوا تھا بالکل اسی طرح جس طرح القاعدہ اور سی آئی اے کے درمیان معاہدے تھے۔ ان ہی معاہدوں کی وجہ سے القاعدہ نےوہ کام کئے جس سے امریکہ کی افواج کو عرب دنیا اور افغانستان میں اترنے کا موقع ملا، یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہےکہ بھارت داعش کو سپورٹ کررہا ہے،داعش کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آیا، کس نے داعش کو روپیہ فراہم کیا۔ بھارتی انٹیلی جنس کا مکرہ چہرہ اس کےعمل سے واضح نظر آرہا ہے داعش اور حوثی عسکری لحاظ سے خودکفیل بتائے جاتے ہیں۔ ان کی تربیت بھی بالکل فوج کی طرح کی ہے۔ ان کے پاس میزائل سمیت دیگر سامان حرب بھی ہے۔ امریکہ بھارت اور اسرائیل ان دونوں عسکری گروپس کو اب پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ میںبڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنےمیں سی آئی اے آر اے ڈبلیو اور موسادشامل ہیں۔ باہر بیٹھے ہوئے لوگ استعمال کئے جارہے ہیں۔ ایوب خان کے دور سے بلوچوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہوا۔ حقوق سے محروم بلوچوں کے اندر اس وقت سے غم و غصہ موجود ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں گورنر بلوچستان کے ذریعے بلوچوںکا غصہ کم کرنے کےلیے کام کئے گئے ۔ لیکن بلوچ بھائیوں کا غصہ تاحال اب بھی موجود ہے۔ آج بلوچستان میں کہنے کو تو بقول ہمارے میڈیا کے امن ہی امن ہے لیکن تصویر کچھ اور بتا رہی ہے۔ بلوچوں سے ہمدردی کا اظہار حقیقی معنوں میں ہونا چاہئے۔ سیاسی حربے استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ وقت گزررہا ہے، دشمن بلوچستان کی سرحدوں کے اندر پوری طاقت سے داخل ہونا چاہتاہے، جس کے مقاصد نیک نہیں ہیں، وہ جذباتی لوگوں کو استعمال کررہاہے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے بلوچستان میں چین کے فارمولے کے تحت قیام امن اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر آگئے بڑھائیں تاکہ چین کی بھی شکایات دور ہوجائیں اورامریکہ بھارت اور اسرائیل کے پاکستان کے خلاف مذموم عزائم ناکام ہوجائیں ۔