• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ عجیب و غریب گفتگو آج اتنے بہت سے سال گزرنے کے بعد بھی یاد آتی ہے۔

بائیس سال پرانی بات ہے ، واشنگٹن میں ایک امریکی تھنک ٹینک کی غیر رسمی سی نشست کے دوران صحافت کے فرائض اور اخبار کی ذمہ داری پر بات چل نکلی۔ مختلف ملکوں کے صحافی اپنے اپنے حساب سے رائے دیتے گئے۔ اس ہال میں پانچ بھارتی صحافی تھے ، دو ہم پاکستانی تھے اور تھنک ٹینک کی ساوتھ ایشیا ڈیسک کے تین امریکی تھے جو صحافت اور ریسرچ کا تجربہ رکھتے تھے۔

بنیادی باتوں پر تو سبھی متفق تھے ۔ سچ کا ساتھ دینا چاہئے ، غیر جانب دار رہنا چاہئے ، اظہار رائے کی آزادی کے لئے لڑنا چاہئے ، وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ دیر گفتگو ہو چکی تو میں نے پوچھا ، کیا آپ میں سے کسی نے ایسی سنسر شپ کا سامنا کیا ہے جس میں آپ کو ہر رات اخبار کی کاپیاں اٹھا کر محکمہ اطلاعات کے افسروں کے پاس لے جانی پڑیں اور وہ ایک ایک خبر چیک کرنے اور ناپسندیدہ خبریں نکال دینے کے بعد ، اخبار چھاپنے کی اجازت دیں؟گفتگو میں مصروف لوگ خاموش ہو کر میری طرف دیکھنے لگے۔ 

مجھے محسوس ہوا کہ خالص اکیڈمک قسم کی گفتگو کے دوران میرا سوال شاید انہیں بے محل لگا ہے ۔ یا شاید یہ میرا گمان تھا ۔ ان کے ردعمل کی پروا کئے بغیر میں نے کچھ اور سوالات پوچھے ۔ کیا آپ لوگوں نے اپنے کیرئیر کے دوران کبھی مارشل لا دیکھا ہے؟ کبھی کسی سیاسی حکومت نے آپ کے اخبارات کے نیوز پرنٹ کی سپلائی منقطع کر دینے کی کوشش کی ہے؟ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے اخبار کی پالیسی حکومتی پالیسی سے ہم آہنگ نہ ہو تو اخبار یا اس کے مالک کے خلاف مالی بدعنوانی کے مقدمے دائر کر دئیے جائیں؟ کیا آپ کے اخبارات پر کبھی یہ دباؤ ڈالا گیا کہ کسی سرپھرے ، بے باک ، گستاخ صحافی کو ملازمت سے کھڑے کھڑے فارغ کر دیا جائے؟

اس چھوٹے سے ہال میں بیٹھے سب لوگ خاموش رہے ۔میں نے گزارش کی کہ یہ جو صحافت کے فرائض اور اخبار کی ذمہ داری کے معاملات ہیں ، ان کی کوئی ایک تعریف نہیں ہو سکتی۔ ہر ملک ، معاشرے ، طرز حکومت میں یہ تعریف مختلف ہو سکتی ہے ۔ بنیادی باتیں بے شک یکساں رہتی ہیں ۔ لیکن ان پر عمل درآمد کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔

امریکی دارالحکومت میں ہونے والی اس گھنٹے بھر کی میٹنگ میں تو بہت زیادہ باتیں نہیں ہو سکیں ۔ ایجنڈا بڑا تھا اور وقت محدود ۔ مگر اس رات ، صحافی دوستوں کے ساتھ تفصیل سے بات چیت ہوئی اور میں نے اپنی نوعمری کا ایک تجربہ ان کے سامنے بیان کیا ۔ وہ تجربہ جس نے مجھے صحافت کی اور اخبار کی ذمہ داری کے بارے میں وہ سکھایا جو میں نہیں جانتا تھا۔ آج ، جب روزنامہ جنگ نے ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے ، شاید وہ تجربہ سب کے سامنے بیان کرنے کا مناسب وقت ہے۔

یہ 1977 کے ستمبر یا اکتوبر کی بات ہے ۔ یعنی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کا زمانہ تھا ۔ میں کراچی یونیورسٹی میں صحافت کا طالب علم تھا ۔ انہی دنوں روزنامہ جنگ میں نائٹ ڈیسک پر دو عارضی اسامیوں کے بارے میں پتا چلا۔ یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سےمجھے اور میرے کلاس فیلو عبد السلام سلامی کو ان عارضی اسامیوں پر کام کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں اس کام کے لئے منتخب کئے جانے پر خوش ضرور تھا مگر اندر ہی اندر خوف زدہ بھی تھا ۔ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کی مرکزی نائٹ ڈیسک پر، جہاں تجربہ کار صحافی اخبار کا پہلا اور آخری صفحہ ترتیب دیتے تھے ، کام کرنا ایک ناتجربہ کار طالب علم کے لئے بہت کڑے امتحان کے سوا بھلا کیا ہو سکتا تھا ۔

جنگ کے نیوز روم میں یہ خوف دو دن میں ختم ہو گیا ۔ وہاں ایک عجیب بے تکلفانہ سا ماحول تھا ۔ ظفر رضوی صاحب ان دنوں نیوز ایڈیٹر تھے ۔ نیوز روم میں ٹیلی پرنٹرز کا مخصوص شور تھا ، نیوز ڈیسک پر کام کرنے والوں کے شرارتی جملے، تبصرےاور بلند قہقہے تھے، لوگ سر جھکائے ٹیلی پرنٹرز سے موصول ہونے والی خبروں کے ترجمے کرتے جاتےاور باہم گفتگو میں بھی شریک رہتے تھے۔ یہ ماحول دیکھ کر میں مطمئن ضرور ہوا کیونکہ ایسے ماحول میں ہم جیسے نوآموزوں کو کھل کر کام کرنے اور دائیں بائیں بیٹھے صحافیوں ہمایوں عزیز ، نصیر ہاشمی اور دیگر لوگوں سے رہنمائی حاصل کرنے کا موقع دستیاب تھا ۔ لیکن تھوڑی سی مایوسی بھی ہوئی۔ یہ مایوسی کہ بھلا اس ماحول میں صحافت، آزادی اظہاراور جمہوری قدروں کی حفاظت کرنے کی وہ ذمہ داریاں کیسے پوری کی جاتی ہوں گی جو کتابوں میں درج ہیں ، اور دنیا بھر کے طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہیں۔

اس نیوز ڈیسک کے ایک کونے پر ، راہ داری کے بالکل سامنے ، ایک خاموش طبع بزرگ صحافی سر جھکائے کام میں مشغول رہتے تھے ۔ سب انہیں زبیری صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ یہ 45 سال پرانی بات ہے اور میری یادداشت بہت اچھی نہیں ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا پورا نام خورشید زبیری تھا ۔ نوعمری کے اس زمانے میں ہم جیسے بچونگڑے ، عارضی طور پر ہی سہی ، مگر جنگ کی نیوز ڈیسک کا حصہ بننے ، کچھ خبروں کا ترجمہ کرنے اور رات کو ریڈیو مانیٹرنگ کرنے پر اپنی ہی خوشی میں مگن رہتے تھے ، یہ سوچنے کی فرصت کہاں تھی کہ دوسرے لوگ کیا کام کر رہے ہیں۔

کچھ وقت گزرا تو ہمیں احساس ہوا کہ زبیری صاحب ذرا تاخیر سے کام شروع کرتے ہیں ۔ ترجمے کے لئے خبریں تو ہم سب کو وقفے وقفے سے دی جاتی تھیں مگر زبیری صاحب کو نیوز سروس سے انگریزی میں موصول ہونے والی بہت سی لمبی لمبی خبریں ایک ساتھ دے دی جاتی تھیں ۔ پھر وہ سر جھکا کر کام کرنا شروع کرتے تھے اور دو ڈھائی گھنٹے تک مصروف رہتے تھے ۔ کسی سینئر ساتھی سے پوچھا تو پتا چلا کہ زبیری صاحب عدالتی کارروائی پر مبنی خبروں کا عمدہ ترجمہ کرنے کے ماہر ہیں اور آج کل وہ سپریم کورٹ میں چلنے والے ایک مقدمے کی پوری کارروائی روزانہ اردو میں منتقل کرتے ہیں ۔ ان کی یہ خبر فرنٹ پیج پر تو شاید صرف دو کالمی سرخی کے ساتھ لگتی تھی ، مگر اس کا باقی حصہ بقیہ جات کے صفحے پر اوپر سے نیچے تک کبھی پورے ڈیڑھ کالم ، کبھی دو کالم میں شائع ہوتا تھا۔ اتنی لمبی خبر پورے اخبار میں کوئی نہیں ہوتی تھی۔

یہ کون سا مقدمہ تھا؟

یہ نصرت بھٹو کیس تھا۔

بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے مارشل لا لگانے ، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر دس پارٹی لیڈرز کو مارشل لا ریگولیوشن 12 کے تحت نظربند رکھنے کے خلاف آئینی درخواست دائر کی تھی اور اس کی سماعت سپریم کورٹ کی نو رکنی بینچ کر رہی تھی ۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو ملکی آئین کے تحت ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کا کوئی اختیار نہیں تھا ، یہ عمل غیر قانونی ہے اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے زمرے میں آتا ہے ۔

میں مدتوں حیران رہا ۔جنگ اس زمانے میں کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اخبار نہیں سمجھا جاتا تھا۔جنگ کی طاقت اس کی خبریں ، اس کا ملک گیر نیوز نیٹ ورک ، اس کے کالم تھے ، اور ان سب خوبیوں سے جنم لینے والی بے پناہ سرکولیشن تھی ۔ عام آدمی تو کیا ، مجھ جیسے صحافت کے طالب علم بھی یہ سمجھتے تھے کہ جنگ اطلاعات تو ضرور فراہم کرتا ہے مگر اس راہ پر جانے سے گریز کرتا ہے جہاں حکومتی عتاب نازل ہونے کا خطرہ ہو ۔ نصرت بھٹو کیس کی یہ طویل کوریج دیکھ کر مجھے پتا چلا کہ سخت ترین مارشل لا کے دور میں بھی کوئی اخبار کیسے خاموشی سے اپنی ڈیوٹی ادا کر سکتا ہے ، وہ ہنستا کھیلتا نیوز روم اپنے قہقہوں کے درمیان بھی کیسے تاریخ کو درست طور پر ریکارڈ کرنے کا فریضہ یاد رکھتا ہے۔ 

سو یہ بھی ریکارڈ پر آیا کہ جس دن بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کی ، اسی دن جسٹس یعقوب علی خان کو ہٹا کر جسٹس انوار الحق کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا ۔ یہ بھی ریکارڈ پر آیا کہ شریف الدین پیرزادہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیاء الحق نے جو قدم اٹھایا اسے تختہ الٹنا نہیں کہا جا سکتا ، یہ اقدام قدیم روم کے ریاستی ضرورت کے اصول کے مطابق ہے ۔ اور یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ بنی کہ وفاق کی نمائندگی کرنے والے اے کے بروہی نے اپنے دلائل میں 5 جولائی 1977 کو مارشل لا کے نفاذ سے ملک میں خانہ جنگی کے خطرے سے بچ جانے کی نوید سنائی۔

نصرت بھٹو کیس تو شاید پچاس دن میں ختم ہو گیا تھا ۔ عدالت نے نظریہ ضرورت کو تسلیم کر کے مارشل لا کو ایک اعتبار سے جائز قرار دے دیا تھا اور بیگم نصرت بھٹو کی آئینی درخواست مسترد کر دی تھی ۔ مگر مجھے ، یعنی ایک عام سے طالب علم کو بھی، یہ پتا چل گیا تھا کہ اخبارات اور صحافیوں کو آمریت کے اور سنسر شپ کے زمانوں میں بھی کیسے اپنی ذمہ داری یاد رکھنی ہے اور مقدور بھر ادا کرنی ہے ۔اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ قدرت مجھے جنگ گروپ سے باقاعدہ وابستہ کر دے گی،میں کچھ عشروں تک صحافت اور صاحبان اقتدار کے تعلقات کو دھیرے دھیرے بگڑتے ہوئے دیکھ سکوں گا اور باضمیر لوگوں سے یہ سیکھنے کی کوشش کر سکوں گا کہ پاکستان جیسے ملک میں ریاستی طاقت سے لیس سیاسی اور فوجی آمریتوں کے سامنے اپنی بات کہنے ، لوگوں تک پہنچانے اور اپنے ضمیر کا فرض ایمان داری سے ادا کرنے کے لئے ہر بار کیا نئی ترکیب لڑائی جائے ۔

’’جنگ ‘‘کے اتنے بہت سے برسوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک پرانا مصرعہ یاد آتا ہے : جن کے رُتبے ہیں سوا ، اُن کی سوا مشکل ہے ۔ جب اس کی اشاعت کے پچاس برس پورے ہوئےتھے، اس وقت معاشرے میں عدم برداشت کا طوفان آناشروع ہو چکا تھا ۔ لسانی قتل و غارت گری ، مذہب اور فرقوں کے نام پر ہنگامہ آرائی ، خفیہ ایجنسیوں کی بے نام کارروائیاں ، خود کش دھماکے ، بیرونی طاقتوں کی شر انگیزی ۔ میڈیا کو اوپینئن میکر ، یعنی رائے تشکیل دینے والا قرار دیا جاتا ہے، مگر اس وقت میڈیا کے لئے لوگوں کو حقیقت سے آشنا کرنےاور انہیں سمجھانے کا کام کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔یہی وہ وقت تھا جب ہم نے دیکھا کہ ’’جنگ‘‘ ، دوسرے اخبارات کے مقابلے میں زیادہ مشکل میں ہے ۔ وجہ؟ وجہ یہ تھی کہ ’’جنگ‘‘ کی اشاعت سب سے زیادہ تھی ۔ اس میں چھپنے والی خبر یا رائے سب سے زیادہ لوگوں تک پہنچتی تھی ۔ ایک نہیں، سیکڑوں بار ایسا ہوا کہ کوئی خبر، اداریہ یا کالم جنگ میں شائع ہوا تو ہنگامہ مچ گیا ۔ وہی چیز کسی بڑے انگریزی اخبار میں چھپی تو کوئی رد عمل نہیں آیا ۔

بات ذرا عجیب سی ہے، مگر سچ ہے کہ’’ جنگ‘‘ کی عوام کے دلوں تک رسائی، سیاست،بادشاہ گری اور اقتدار کے کھلاڑیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ وہ بظاہر اظہار رائے کی آزادی اور آزاد صحافت کی باتیں کرتے نظر آتے تھے ،مگر ان کے دل میں یہ خواہش ہوتی تھی کہ کسی طرح جنگ کی یہ طاقت ختم ہو جائے ۔ اس کے عملی مظاہرے ہم بار بار دیکھ چکے ہیں۔ حزب اختلاف میں رہنے والی پارٹیاں جب الیکشن میں جیت کر اقتدار سنبھالتی تھیں تو ان کے تیور ہی بدل جاتے تھے ۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، تحریک انصاف ، کسی بھی جماعت کی مثال لے لیں ، طاقت سنبھالتے ہی ان کی پہلی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ’’جنگ‘‘ کو قابو میں لایا جائے ، اسے اپنی مرضی کے مطابق چلنے کا پابند بنایا جائے ۔ ان گناہگار آنکھوں نے سیاسی جماعتوں کے مشتعل ہجوموں کو ’’جنگ‘‘ کے دفاتر میں گھس کر مار پیٹ ، توڑ پھوڑ، عام کارکنوں کو زد و کوب کرتے دیکھا ہے ۔ سیاسی خبروں کو فرنٹ پیج پر نمایاں طور پر شائع کرنے کی ضد کرتے اور نہ شائع کرنے پر دھمکیاں دیتے سناہے ۔ مذہبی جماعتوں کو فتوے جاری کرتے اورسیکڑوں کارکنوں کے مشتعل جلوس لاتے دیکھا ہے ۔ ایک اتوار تو ایسا بھی گزرا جب چھپ کر تیار ہونے والے اخبار کی ہزاروں کاپیاں چھین کر جلا دی گئیں ۔ یہ سب دوسرے اخبارات کے ساتھ نہیں ، صرف جنگ کے ساتھ ہوتا رہا ۔

کسی اجنبی ، پاکستانی صحافت سے نا آشنا آدمی کو یہ سب باتیں بتائی جائیں تو شاید وہ سوچے کہ مسئلہ ’’جنگ‘‘ میں ہی ہو گا ، ورنہ ایسا دباؤ تو سارے میڈیا پر آتا ۔ ایک اعتبار سے دیکھئے تو مسئلہ واقعی ’’جنگ‘‘ میں ہی ہے ۔ ایک تو اس کی سرکولیشن باقی اخبارات سے زیادہ رہی ہے، لہذا اس کی اثر پذیری بھی زیادہ رہی ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ایک حد تک کمپرومائز کرنے اور اس کے بعد ڈٹ جانے کی پالیسی اپنائے رکھی ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر حکومت وقت کا ڈھولچی بننے کو تیار نہیں ہوتااور اپوزیشن کی خبریں دینے اور حکومتی کارکردگی کی صورت حال بتانے سے باز نہیں آتا ۔

لیکن ان سب سے بھی بڑا مسئلہ بیس برس پہلے اس وقت پیدا ہوا جب جنگ گروپ نے اپنا ٹیلی وژن چینل ’’جیو‘‘ شروع کیا اور توقعات کے عین مطابق یہ نیوز چینل دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کا نمبر ون چینل بن گیا ۔’’جنگ‘‘ سے نالاں رہنے والوں کے لئے یہ ایک نیا سر درد تھا ۔ اس کی خبریں ،ٹاک شوز، تجزیے،ریٹنگ ،ایڈورٹائزنگ ریونیو ، اس کی عوامی پذیرائی ، سب کچھ حیرت انگیز تھا۔ ’’جنگ‘‘ گروپ کی طاقت کئی گنا بڑھ گئی ۔لیکن اس کامیابی کا نتیجہ کیا نکلا؟ مزید دباؤ ۔ بے پناہ دباؤ ۔ حکومت کرنے والے کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ یہ نظارہ ہر بار مضحکہ خیز لگتا ہے کہ حکمراں بننے سے قبل جو لوگ جنگ گروپ کی صحافتی خدمات کی تعریفیں کرتے ، اسے خراج تحسین پیش کرتے نہیں تھکتے ، وہی لوگ حکمرانی سنبھالتے ہی پہلی فرصت میں جنگ گروپ کو کچل ڈالنے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔

بات پرانی نہیں ہے، لہٰذا ابھی سب کو یاد ہے کہ کیسے بعض علاقوں میں جنگ اخبار کی تقسیم پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی تھی ۔ کیسے جنگ کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا گیا تھا ۔ کیسے جیو کی نشریات بند کی گئی تھیں ، کیبل آپریٹرز کی مدد سے بار بار پاکستان بھر میں اس چینل کو آخری نمبروں پر پھینکا جاتا رہا تھا ، کیسےکچھ پروگرام بند کرائے گئے۔ کیسے نیب کے ذریعے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن پر کسی پلاٹ کا ایسا بے سر و پا مقدمہ لاد کر انہیں آٹھ ماہ قید رکھا گیا تھا جس میں عدالت نے بالآخر انہیں بری کر دیا ۔

گزشتہ ربع صدی میں ’’جنگ‘‘ نے ایسے بے شمار واقعات کے باوجود اپنے لئے جو راہ چنی تھی ، اس پر اپنا سفر جاری رکھا ہے ۔ وہی ایک حد تک مصالحت رکھنے کی اور اس حد کے بعد اپنے مؤقف پر کھڑے رہنے کی پالیسی اپنائی ہے جو’’ جنگ‘‘ کے بانی میر خلیل الرحمٰن نے وضع کی تھی ۔’’ جنگ‘‘ نے کبھی روایتی ٹیبلائڈ سطح کی صحافت اختیار نہیں کی ، خبر کو اپنی اصل طاقت تصور کیا اور صحافتی متانت کو بنیادی رہنما اصول سمجھا۔

ایک دن کچھ پرانے کاغذات میں بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، CPJ کی ایک بہت پرانی رپورٹ نکل آئی ۔ فروری 2000 میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کا عنوان تھا 'پاکستانی پریس پر 1999 میں ہونے والے حملے ۔ کہنے کو یہ صرف ایک سال کا احوال ہے، مگر اس ایک سال میں ہی وہ سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے جس کا ری پلے ہم نہ جانے کتنی بار دیکھتے آئے ہیں ۔ چہرے بدل جاتے ہیں ، تماشا وہی رہتا ہے۔

یہ جو 1999 کا سال تھا، اس اعتبار سے ذرا مختلف تھا کہ اس سال کے پہلے ساڑھے نو مہینوں میں نواز شریف برسر اقتدار تھے اور آخری ڈھائی مہینے جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کے تھے ۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ جنرل پرویز مشرف اگلے نو برس تک حکمرانی کرتے رہیں گے اور نواز شریف جلا وطن ہو جائیں گے۔

اس بائیس برس پرانی رپورٹ کی ابتدائی سطور میں سال بھر کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’وزیراعظم نواز شریف نے سال کے آغاز میں ہی پریس کا منہ بند کرنے اور مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کو اپنے مکمل کنٹرول میں لانے کی جو کوششیں کیں ، ان کی بدولت وہ ایک جابر حکمراں کے طور پر جانے گئے اور انہوں نے پاکستانی جمہوریت کو نقصان پہنچایا ۔ ان کایہ حاکمیت پسندانہ دور12 اکتوبر کو ختم ہوا جب آرمی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے حکمرانی سنبھالتے ہی خود کو پریس کی آزادی پر یقین رکھنے والا شخص قرار دیا، لیکن ساتھ ہی کہا کہ پریس کو ’’مثبت اور تعمیری کردار‘‘ ادا کرنے کی ذمہ داری کو بھی سمجھنا چاہئے ۔‘‘

یہ ابتدائی سطریں تو ایک سرسری جائزہ پیش کرتی ہیں۔ اصل اور تفصیلی باتیں اس کے بعد ہیں جنہیں پڑھیں تو ایسا لگتا ہے ، یہ بائیس سال پرانی نہیں، بائیس دن پرانی رپورٹ ہے۔

سی پی جے کی رپورٹ میں لکھا ہے ۔’’سال شروع ہوتے ہی حکومت نے ’’جنگ‘‘گروپ کے خلاف کارروائی تیز تر کر دی جو پاکستان کا سب سے بڑا اخباری گروپ ہے ۔ ’’جنگ‘‘اور دی نیوز کے لئے کام کرنے والے صحافیوں کو خفیہ لوگ ہراساں کرنے لگے، نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکیاں آنے لگیں ۔ حکومت نے مطالبہ کیا کہ ’’جنگ‘‘ گروپ کے پبلشر میر شکیل الرحمٰن ان درجن بھر سینئر صحافیوں کو برخواست کریں یا ان کی تنزلی کے احکامات جاری کریں جن کے نام حکومت کی بنائی ہوئی کسی بلیک لسٹ میں موجود تھے۔‘‘

اس معتبر بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ میں درج ہے۔’’جب ’’جنگ‘‘نے یہ احکامات نہیں مانے تو اس کے خلاف ٹیکس چوری کے کئی مقدمات دائر کر دئیے گئے ، اس کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دئیے گئے اور اس کا سارا نیوزپرنٹ قبضہ میں لے لیا گیا ۔ فروری آتے آتے یہ حال ہو گیا تھا کہ (نیوز پرنٹ نہ ہونے کے باعث) ’’جنگ‘‘ اور دی نیوز کے روزنامے صرف چار صفحے پر چھپ رہے تھے ۔‘‘

اس پرانی رپورٹ کا یہ حصہ پڑھ کر مجھے وہ دن یاد آیا جب ’’جنگ‘‘کراچی میں کام کرنے والے ہم سب لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر قبضہ میں لیا جانے والا کچھ نیوز پرنٹ چھین کر لائے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک علامتی سی کارروائی تھی کیونکہ اتنا تھوڑا سا نیوز پرنٹ بھلا ’’جنگ‘‘جیسے کثیر الاشاعت اخبار کے لئے کتنے دن کا سہارا بن سکتا تھا۔مجھے یہ بھی یاد آیا کہ اصل کارروائی راولپنڈی میں ہوئی تھی جہاں ایف آئی اے نے چھاپہ مار کر نیوز پرنٹ قبضے میں لے لیا تھا اور یہ واردات ’’جنگ‘‘ گروپ کی طرف سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے اور اس پر سپریم کورٹ کی وہ رولنگ آنے کے بعد کی گئی تھی جس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ فوری طورپر ’’جنگ‘‘ گروپ کا نیوز پرنٹ اسے واپس کرے ۔ سرکاری اہلکاروں نے کہا تھا کہ عدالتی حکم اس لئے نہیں مانا جا سکتاکہ ’’جنگ‘‘نے ڈیڑھ ارب روپے کی کوئی پرانی کسٹمز ڈیوٹی ادا نہیں کی ہے ۔ غالبا اس کے بعد ہی وہ ٹیکس چوری کے مقدمات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا ۔

سی جے پی کی جس رپورٹ کا میں نے حوالہ دیا ہے ، یہ اس کے محض ایک دو پیرا گراف ہیں۔ پوری رپورٹ تو بہت طویل ہے ۔ اس میں کامران خان ، ملیحہ لودھی ، عامر میر ، نجم سیٹھی ، امتیار عالم ، اعجاز حیدر اور دیگر صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیسز کی تفصیل بھی ہے ۔ اور یاد رکھئے ، یہ صرف ایک سال کی رپورٹ ہے ۔ اس کے بعد بھی بائیس سال سے ہر سال ایسی رپورٹ جاری ہوتی رہی ہے ۔ شاید آئندہ بھی جاری ہوتی رہے گی۔

مشکلات کا یہ سفر اگرچہ 75برس پر پھیلا ہوا ہے اور ان مشکلات کا سامنا پوری صحافتی برادری نے کیا ہے ، لیکن اس پورے سفر میں شریک ہر شخص اپنے طور پر مطمئن ضرور نظر آتا ہے ۔ مشکلات ہی تو سکھاتی ہیں کہ ان پر کیسے قابو پایا جائے ۔ اور بار بار مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہ سفر آئندہ بھی اسی طرح صعوبتوں سے پُر رہے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صحافت اور صحافت والوں کو کنٹرول کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی اس برسوں پرانی کش مکش کے داو پیچ بھی سال بہ سال بدلتے گئے ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب ہم اخبار کی کاپیاں اٹھا کر محکمہ اطلاعات کے سنسر افسروں کی بارگاہ میں پیش ہوتے تھے اور اخبار کو خلافِ منشا خبروں سے پاک کر کے افسر کاپیوں پر دستخط کرتا تھا ، گویا چھاپنے کی اجازت دیتا تھا ۔ پھر ایک سیلف سنسر شپ کا زمانہ آیا جب اخبار کو خود ہی اپنے آپ کو سنسر کرنے کی ڈیوٹی دی گئی ، ذرا چُوک ہوئی اور اخبار کا ڈیکلریشن منسوخ ، یا اشاعت معطل ۔ پھر آزادی اور جمہوریت کا زمانہ آیا جس میں اخبارات کو قابو میں رکھنے کے لئے اشتہارات دینےاور خبر رکوانے کے لئے پریس ایڈوائس جاری کرنے کا سلسلہ چلتا رہا ۔ پھر کچھ دوسرے اداروں کی جانب سے ہدایات آنے لگیں ۔ پھر سرکاری اشتہارات کے واجبات روکے جانے لگے۔

اس سارے گڑبڑ گھوٹالے کے درمیان ہی اخبارات پر الزامات اور لیبل لگانے کے سلسلے شروع ہو گئے ۔ کسی کو انڈیا کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا ۔ کوئی وطن فروش قرار پایا ۔ کسی کو یہودی لابی کا ترجمان کہہ دیا گیا ۔ کوئی امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ بنا دیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں صحافت کو کنٹرول میں رکھنے کی کوششیں کرنے والوں کے پاس بہت جدید طریقے آ گئے ہیں۔ صحافت والے بھی اس نئی دنیا میں اپنا فرض نبھانے کے نئے طریقے تلاش کرتے نظر آتے ہیں ۔

یوں دیکھئے تو صاف نظر آتا ہے کہ’’ جنگ‘‘ نے صحافتی اقدار کی سربلندی اور مشکل حالات میں بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کی جو کوششیں کیں وہ ان 75 برسوں میں خاصی کامیاب رہی ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ مکمل کامیابی نہیں ہے ۔ مکمل کامیابی شاید ایک تصور ، ایک آدرش کے سوا کچھ ہوتی بھی نہیں ۔ یہ بات البتہ یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر’’جنگ‘‘ نے اسی متانت ، عزم اور مشکلات کا سامنا کرنے کے اسی حوصلے کے ساتھ سفر جاری رکھا تو اس خطے میں آزاد صحافت کا خواب کسی نہ کسی حد تک پورا ہو سکے گا۔