• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے میڈیا کو جن حالات سے گزرنا پڑتا ہے،ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں تو اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں بھی میڈیا وقتاً فوقتا مختلف پابندیوں کا شکار رہا ہے۔ پابندیاں عموماً حکومت کی طرف سے ہوتی ہیں اور بعض وقت مختلف لسانی، اور فرقہ وارانہ گروپوں کی طرف سے بھی اپنی مرضی کی خبریں شائع کرانے اور رکوانے کیلئےبھی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے عملی صحافت میں 1977 میں قدم رکھا جب ملک میں ضیاء الحق کا مارشل لا لگ چکا تھا اور صرف صحافت ہی نہیں زندگی کے متعدد شعبے مختلف پابندیوں کا شکار تھے۔

ایک تو میڈیا کو قابو میں رکھنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اسے محکمہ اطلاعات کی طرف سے ایڈوائس کی جاتی ہے کہ فلاں خبر نہیں جائے گی یا اگر جائے گی تو اسکا ڈسپلے کیا ہو گا، اسی طرح فلاں خبر کو بہت نمایاں شائع کیا جائے۔ ان ایڈوائس پر عمل انتہائی بھاری دل کے ساتھ کیا جاتا ہے یہ زبردستی ہوتی ہے۔ جو ایک طرح سے آپکی پیشہ ورانہ مہارت پر شک کا اظہار ہوتا ہےتو آپ کو بتایا جائے کہ کونسی خبر کیسے لگائی جائے۔ بعض اوقات تو سرخیاں بھی محکمہ اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ ایسا ایک بجٹ کے موقع پر ہوا تھا ۔بادل ناخواستہ ہمیں اس پر عمل کرنا پڑا تھا۔

عوام تک حقائق پہنچنے سے روکنے کے لیے مختلف ادوار میں مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے،کبھی خبروں اور کالم کی اشاعت روکی گئی،کبھی کسی کو دبانے اور کسی کو نمایاں کرنے کے لیے کہا گیا،کبھی ناپسندیدہ صحافیوں کی برطرفی کا حکم آیا تو کبھی اشتہارات بند کردیے گئے

اس سے آگے کی صورتحال سنسر شپ ہوتی ہے جب اخبار چھپنے سے پہلے ہی سرکاری محکمہ دیکھ کر اجازت دیتا ہے اسکو جو خبر پسند نہیں آتی وہ نکال دی جاتی ہے۔ ضیاء الحق کے مارشل میں ہمیں ایسی ہی سنسر شپ سے واسطہ تھا۔ رات کو محکمہ اطلاعات میں ایک میلے کا سماں ہوتا تھا۔ تمام اخبارات کے نیوز ایڈیٹرز پریس بھیجنے سے پہلے اپنی کاپیاں کلیئر کرانے کیلئے کھڑے ہوئے ہوتے تھے۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ اسکی کاپی جلد سنسر کر لی جائے تاکہ اس کی چھپائی تاخیر کا شکار نہ ہو۔ پہلے تو ایک وقت ایسا تھا جب ’’ ناپسندیدہ یا قابل اعتراض ‘‘ میٹر کو اکھاڑ کر محکمہ اطلاعات رجسٹر میں انٹری کر کے اپنے پاس رکھ لیا کرتا تھا۔ 

اور اخبار میں وہ جگہ خالی رہ جاتی تھی اور قارئین اندازہ لگا لیا کرتے تھے کہ یہاں لگی ہوئی خبر سنسر ہو گئی ہے اس لئے وہ اس سے محروم ہیں۔ اخبارات میں اکثر کئی خبروں کی جگہ خالی ہوتی تھی۔ حکومت کو احساس ہوا اس سے عوام کو اندازہ ہو رہا ہے کہ حکومت نے انہیں معلومات کے حق سے کس طرح محروم کیا ہوا ہے۔ اس لئے ایک مزید پابندی لگائی گئی وہ یہ تھی کہ جب آپ کاپی سنسر کیلئے لائیں تو اپنے ساتھ اضافی خبریں لائیں۔ اب اخبار میں کوئی جگہ خالی نہیں جائے گی تاکہ عوام کو پریس پر عائد سختیوں اور پابندیوں کا اندازہ نہ ہو سکے۔

سنسر کے اس دور کے بعض دلچسپ واقعات جو میری یادداشت میں ہیں وہ آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں تاکہ آپ بھی ان سے محظوظ ہوں۔ 80کی دہائی کے درمیان کراچی میں مختلف نوعیت کے فسادات اور ہنگامے ہو رہے تھے جو عموماً اخبار کی شہ سرخی ہوتی تھی۔ پھر اخبارات سے کہا گیا کہ ان ہنگاموں کی آپ اپنے رپورٹر کی خبر شائع نہیں کریں گے بلکہ صرف وہ پریس نوٹ جائے گا جو سرکاری طورپر ضلعی انتظامیہ جاری کرے گی اس سرکاری پریس نوٹ میں بھی اتنا مواد ہوتا تھا کہ وہ اخبارات میں لیڈ کی شکل میں شائع ہوتا تھا۔ چنانچہ اب نئی پابندی یہ لگائی گئی کہ پریس نوٹ صرف سنگل کالم خبر کی شکل میں شائع ہو گا۔

جو افسران سنسر کی ڈیوٹی پر مامور تھے۔ انہیں وسیع اختیارات حاصل تھے وہ وجہ بتانے کے بھی پابند نہیں تھے۔ کوئی بھی میٹر نکال سکتے تھے۔ انہوں نے قائد اعظم کی11اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کا اقتباس بھی سنسر کر دیا تھا۔ وہ اس کے حق میں کوئی دلیل سننے کیلئے تیار نہیں تھے۔ کیسے کیسے مضحکہ خیز واقعات ہوتے تھے۔ اسکا اندازہ آپ اس ایک واقعے سے کر سکتے ہیں۔ ایک بہت سینئر اسٹاف ممبر جو تقسیم سے قبل صحافت سے منسلک تھے۔ 

وہ ڈی ویلیو ایشن پر ایک طویل تحقیقی مضمون لکھ رہے تھے جس کی ہر قسط اخبار کے پورے صفحے پر محیط ہوتی تھی۔ پانچویں یا چھٹی قسط تھی کہ وہ سنسر آفیسر نے ناقابل اشاعت قرار دے دی لیکن ساتھ ساتھ یہ عنایت کی کہ وہ میٹر اپنے پاس رکھنے کے بجائے واپس کر دیا۔ اور کہا کہ ہمیں اندازہ ہے اس پر بڑی محنت کی گئی ہے۔ 

ان سے کہیں جب حالات اچھے ہوں تولگا لیں۔ اتفاق سے ایک دو انفارمیشن آفیسر میرے کالج اور یونیورسٹی کے زمانے کے کلاس فیلو تھے جن کی وجہ سے دیگر افسران سے بھی اچھی بے تکلفانہ دوستی ہو گئی تھی وہ بھی کبھی کبھار میرے پاس دفتر آ جاتے تھے ۔میٹر نکالنے کے بعد جب وہ ایک دن میرے پاس آئے تو یوسف رضا صاحب جن کا وہ مضمون تھا انہوں نے ان افسران سے پوچھا کہ وہ کیوں نکالا گیا اسکی وجہ تو بتائیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ہماری نظر میں وہ قابل اشاعت نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں تقسیم سے قبل سے لکھ رہا ہوں انگریز کے دور میں کبھی کبھی میری تحریر سنسر نہیں ہوئی ۔میں لکھنا جانتا ہوں کہ پابندیوں میں بھی اپنا مافی الضمیر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ 

مجھے بتائیں تو سہی انہوں نے جواب دیا کہ ہم وجہ بتانے کے پابند نہیں۔ جب رضا صاحب نے مزید اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو قرآن شریف بھی سنسر کر دیتے ہیں وہ افسران غیر سنجیدہ طور پر بات ٹالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب وہ جانے کیلئے اٹھے تو میں بھی کمرے سے باہر انہیں چھوڑنے کیلئے آیا اس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ووجہ ہم ان صاحب کو تو نہیں بتا سکتے تھے لیکن تمہیں بتا دیتے ہیں اس میں کوئی چیز قابل اعتراض نہیں صرف بھٹو کا نام قابل اعتراض ہے۔ ہمیں ہدایت ہے کہ کسی طور بھی بھٹو کا نام نہیں چھپنا چاہئے اس لئے تم ان سے کہو اس میں سے بھٹو کا نام نکال دیں اسکی جگہ سابق وزیر اعظم ،سابق حکمران یا سابق حکومت کر دیںیہ چھپ جائے گا ۔اب یہ بات ہم انہیں تو بتا نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ واپس آ کر میں نے ان سے کہا۔

اپنا مضمون نکالیں۔ انہوں نے نکالا میں نے کہا اب اس میں جہاں جہاں بھٹو کا نام ہے وہ کاٹ دیں اور اسے دوسری طرح لکھ دیں۔ انہوں نے بڑی محنت سے یہ کام کیا پھر پروف ریڈر کو دیکر کہا کہ میں نے تو اچھی طرح دیکھ لیا ہے تم بھی ایک دفعہ چیک کر لو۔ جب انہیں اطمینان ہو گیا تو اس میں اب کہیں بھٹو کا نام نہیں ہے اور سنسر حکام کی ہدایت کے مطابق کر دیا گیا ہے تو مجھ سے کہا اب تم ہی اسے جا کر کلیئر کرائو۔ میں لیکر گیا وہاں موجود افسران کا مجھ سے سوال تھا تم پورے یقین سے کہہ رہے ہو اس میں کہیں بھی بھٹو کا نام نہیں ہے میں نے کہا انہوں نے بڑی محنت سے یہ کام کیا ہے اور کائونٹر چیک بھی کرا لیا ہے۔ جس پر انہوں نے اسے کلیئر کر دیا اور پھر وہ شائع ہوا۔

اس ایک واقعے سے آپ سنسر کے مقاصد کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسکی کیا نوعیت ہوتی تھی یہ ملکی سلامتی کیلئے تھا یہ ایک فرد کے اقتدا کو دوام دینے کیلئے۔

تاریخی طور پر برسراقتدار حکومتوں نے آزادیٔ صحافت کو کنٹرول کرنے کے لیے پریس ایڈوائز کے طریقہ کار کو استعمال کیا۔ ضیاء الحق کی حکومت نے ریگولیشن کا باقاعد

ہ نظام نافذ کیا تھا۔ اس کے دور میں پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ PID اور سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ SID پریس ایڈوائز دیتا تھا۔ یہ عمومی طور پر ٹیلی فون پر دی جاتی تھی اور نیوز روم میں ایک رجسٹر میں پریس ایڈوائز کا اندراج ہوتا تھا۔ جب پری سینسر شپ نافذ کی گئی، تو انفارمیشن افسر جو اس وقت ’’سینسر افسر‘ کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ بعض خبروں، اداریوں، تصاویر اور کالمز کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتے تھے اور ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر ان خبروں کو کاپی سے ہٹانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ 

یہ خبریں محکمہ اطلاعات کے رجسٹر میں چسپاں کی جاتی تھیں۔ شروع شروع میں اخبار شائع ہوتا تھا۔ لیکن جلد ہی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نے یہ ایڈوائز جاری کی کہ اخبار میں خالی جگہ نہیں چھوڑی جائے گی۔ اب قارئین کو بظاہر محسوس نہیں ہوتا تھا کہ کوئی خبر ’سینسر‘ ہوئی ہے۔ پھر خبروں اور تصاویر کے لے آئوٹ کے بارے میں بھی ایڈوائز جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے ریفرنڈم کا انعقاد کیا اور غیرجماعتی بنیادوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیر پگاڑا کے نام زَد اُمیدوار محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا۔ محمد خان جونیجو نے آزادیٔ صحافت کو یقینی بنانے کے لیے پریس ایڈوائز کا نظام ختم کر دیا۔ محمد خان جونیجو کے دور میں متعلقہ وزارتوں نے کوئی پریس ایڈوائز جاری نہیں کی۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کے دونوں اَدوار میں کسی قسم کی پریس ایڈوائز جاری نہیں ہوئی۔ میاں نوازشریف جب وزیراعظم بنے، تو اخبارات میں خبروں کی اشاعت، خبروں کی اشاعت کو روکنے، اپنی مرضی کے اداریے اور کالم شائع کروانے کے لیے ایڈوائز کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا۔

روزنامہ ’نیوز‘ اسلام آباد میں کوآپریٹو اسکینڈل کے بارے میں اُردو میں شائع ہونے والی نظم کی اشاعت کے بعد ’جنگ‘ گروپ کے اشتہارات روک دیے گئے۔ نوازشریف کے دُوسرے دور میں بھی پریس ایڈوائز کا سلسلہ جاری رہا۔ جب ’جنگ‘ گروپ کے اخبارات نے ان ایڈوائز پرعمل درآمد نہیں کیا تو حکومت نے جنگ کی انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ صحافیوں کی فہرست دی اور مطالبہ کیا کہ ان صحافیوں کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا جائے۔ ’جنگ‘ گروپ کی انتظامیہ نے حکومت کی ایڈوائز پر عمل درآمد سے انکار کیا جس کے نتیجے میں ’جنگ‘ گروپ کے اکائونٹس منجمد کر دیے گئے اور نیوز پرنٹ کی فراہمی کو روک دیا گیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر جنگ گروپ کے اکائونٹس بحال ہوئے۔

1999ء میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کارگل کا محاذ کھولا تو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے ایڈوائز کا سلسلہ ایک بار پھر آنا شروع ہوگیا۔ اسی طرح مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے ادارے ISPR کی جانب سے بھی پریس ایڈوائز کا سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوگیا۔ کچھ مواقع پر دونوں سرکاری ادارے ایک دُوسرے سے متضاد ایڈوائز بھی جاری کرتے رہے۔

اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو ان کے دور اقتدار میں پہلے آٹھ برسوں میں اخبارات کو مکمل آزادی حاصل رہی۔ پیمرا کے قیام کےبعد ملک میں نجی ٹیلی وژن چینل نے کام شروع کیا۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر آزاد تھے مگر جب جنرل پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کیا اور جسٹس افتخار کے خلاف بدعنوانیوں کے الزام میں ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا گیا اور انہیں ان کی سرکاری رہائش گاہ میں نظربند کیا گیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے افتخار چوہدری کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کے بعد حکومت نے خبروں کی اشاعت روکنے اور مخصوص نوعیت کی خبروں کی اشاعت کے لیے پریس ایڈوائز جاری کرنا شروع کر دی۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے صدر کے انتخابات کے بارے میں عرض داشت کی سماعت شروع ہوئی تو 3نومبر 2007ء کو ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور ’جیو‘ سمیت تمام چینلز کو آف ایئر کر دیا گیا۔

2008ء میں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اگست 2008ء میں پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد آصف علی زرداری صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تو متعلقہ وزارتوں نے اس پورے عرصے میں کوئی ’پریس ایڈوائز‘ جاری نہیں کی۔ پھر میاں نواز شریف 2013ء کے انتخابات کے بعد تیسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کے بھائی شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنا دیے گئے۔ مسلم لیگ کے دور میں نوازشریف کے علاوہ شہباز شریف کی پروجیکشن کے لیے ایڈوائز جاری ہونے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا۔ حکومت پنجاب کی متعلقہ وزارتوں سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی پروجیکشن کے لیے ایڈوائز موصول ہونے لگیں۔ ایڈوائز میں شہباز شریف کی خبروں کو نمایاں جگہ دینے کے لیے کہا جاتا تھا۔

اس کے بعد ’پاناما لیکس‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے پاناما اسکینڈل کی سماعت شروع کی تو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے علاوہ مسلح افواج کے تعلقاتِ عامّہ کے شعبے کی ایڈوائز موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ ایڈوائز سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت اور جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی میں ہونے والی پوچھ گچھ سے متعلق تھیں۔

تحریک انصاف کی حکومت میں میڈیا کا بیانہ کنٹرول کرنے کے لیے مختلف نوعیت کےا قدامات اُٹھائے گئے۔ میڈیا کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لیے پہلے سرکاری اشتہارات کم کئے گئے اور پھر دُوسرے مرحلے میں مختلف معاملات پر ایڈوائز ملنے لگیں۔ یہ ایڈوائز عدالتی کارروائی، سیاسی راہ نمائوں کی سرگرمیوں، عدالتی فیصلوں، داخلہ اور خارجہ وزارتوں سے متعلق ہوتی تھیں جن کی بناء پر صحافیوں کے لیے ایک غیریقینی صورت حال پیدا ہوگئی۔

اسے بدقسمتی یا عاقبت نااندیشی ہی کہا جائے گا کہ پریس ایڈوائز کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مدیران اور متعلقہ صحافتی عملے کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس خبر کی اشاعت پر کیا ردّعمل آئے گا۔ بعض اوقات بظاہر کوئی ایڈوائز نہیں ہوتی مگر کسی خبر کی اشاعت پر متعلقہ اداروں کا سخت ردّعمل سامنے آ جاتا ہے۔ مدثر مرزا کے مطابق تحریک انصاف حکومت مریم نواز اور بلاول بھٹو کی سرگرمیوں کی کوریج پر زیادہ براَفروختہ ہوتی ہے۔ اس طرح صحافیوں میں سیلف سینسر شپ کا رویہ پروان چڑھتا ہے۔

تاریخی طورپر برسراقتدار حکومتوں نے آزادیٔ صحافت کو کنٹرول کرنے کے لیے پریس ایڈوائز کے طریقہ کار کو استعمال کیا۔ ضیاء الحق کی حکومت نے ریگولیشن کا باقاعدہ نظام نافذ کیا تھا۔ اس کے دور میں پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ PID اور سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ SID پریس ایڈوائز دیتا تھا۔ یہ عمومی طور پر ٹیلی فون پر دی جاتی تھی اور نیوز روم میں ایک رجسٹر میں پریس ایڈوائز کا اندراج ہوتا تھا۔ جب پری سینسر شپ نافذ کی گئی، تو انفارمیشن افسر جو اس وقت ’’سینسر افسر‘ کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ بعض خبروں، اداریوں، تصاویر اور کالمز کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتے تھے اور ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر ان خبروں کو کاپی سے ہٹانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ خبریں محکمہ اطلاعات کے رجسٹر میں چسپاں کی جاتی تھیں۔ شروع شروع میں اخبار شائع ہوتا تھا۔ لیکن جلد ہی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نے یہ ایڈوائز جاری کی کہ اخبار میں خالی جگہ نہیں چھوڑی جائے گی۔ اب قارئین کو بظاہر محسوس نہیں ہوتا تھا کہ کوئی خبر ’سینسر‘ ہوئی ہے۔ پھر خبروں اور تصاویر کے لے آئوٹ کے بارے میں بھی ایڈوائز جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے ریفرنڈم کا انعقاد کیا اور غیرجماعتی بنیادوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیر پگاڑا کے نام زَد اُمیدوار محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا۔ محمد خان جونیجو نے آزادیٔ صحافت کو یقینی بنانے کے لیے پریس ایڈوائز کا نظام ختم کر دیا۔ محمد خان جونیجو کے دور میں متعلقہ وزارتوں نے کوئی پریس ایڈوائز جاری نہیں کی۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کے دونوں اَدوار میں کسی قسم کی پریس ایڈوائز جاری نہیں ہوئی۔ میاں نوازشریف جب وزیراعظم بنے، تو اخبارات میں خبروں کی اشاعت، خبروں کی اشاعت کو روکنے، اپنی مرضی کے اداریے اور کالم شائع کروانے کے لیے ایڈوائز کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا۔

روزنامہ ’نیوز‘ اسلام آباد میں کوآپریٹو اسکینڈل کے بارے میں اُردو میں شائع ہونے والی نظم کی اشاعت کے بعد ’جنگ‘ گروپ کے اشتہارات روک دیے گئے۔ نوازشریف کے دُوسرے دور میں بھی پریس ایڈوائز کا سلسلہ جاری رہا۔ جب ’جنگ‘ گروپ کے اخبارات نے ان ایڈوائز پرعمل درآمد نہیں کیا تو حکومت نے جنگ کی انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ صحافیوں کی فہرست دی اور مطالبہ کیا کہ ان صحافیوں کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا جائے۔ ’جنگ‘ گروپ کی انتظامیہ نے حکومت کی ایڈوائز پر عمل درآمد سے انکار کیا جس کے نتیجے میں ’جنگ‘ گروپ کے اکائونٹس منجمد کر دیے گئے اور نیوز پرنٹ کی فراہمی کو روک دیا گیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر جنگ گروپ کے اکائونٹس بحال ہوئے۔

1999ء میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کارگل کا محاذ کھولا تو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے ایڈوائز کا سلسلہ ایک بار پھر آنا شروع ہوگیا۔ اسی طرح مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے ادارے ISPR کی جانب سے بھی پریس ایڈوائز کا سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوگیا۔ کچھ مواقع پر دونوں سرکاری ادارے ایک دُوسرے سے متضاد ایڈوائز بھی جاری کرتے رہے۔

اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو ان کے دور اقتدار میں پہلے آٹھ برسوں میں اخبارات کو مکمل آزادی حاصل رہی۔ پیمرا کے قیام کےبعد ملک میں نجی ٹیلی وژن چینل نے کام شروع کیا۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طور پر آزاد تھے مگر جب جنرل پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کیا اور جسٹس افتخار کے خلاف بدعنوانیوں کے الزام میں ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا گیا اور انہیں ان کی سرکاری رہائش گاہ میں نظربند کیا گیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے افتخار چوہدری کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کے بعد حکومت نے خبروں کی اشاعت روکنے اور مخصوص نوعیت کی خبروں کی اشاعت کے لیے پریس ایڈوائز جاری کرنا شروع کر دی۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے صدر کے انتخابات کے بارے میں عرض داشت کی سماعت شروع ہوئی تو 3نومبر 2007ء کو ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور ’جیو‘ سمیت تمام چینلز کو آف ایئر کر دیا گیا۔

2008ء میں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اگست 2008ء میں پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد آصف علی زرداری صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تو متعلقہ وزارتوں نے اس پورے عرصے میں کوئی ’پریس ایڈوائز‘ جاری نہیں کی۔ پھر میاں نواز شریف 2013ء کے انتخابات کے بعد تیسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کے بھائی شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنا دیے گئے۔ 

مسلم لیگ کے دور میں نوازشریف کے علاوہ شہباز شریف کی پروجیکشن کے لیے ایڈوائز جاری ہونے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا۔ حکومت پنجاب کی متعلقہ وزارتوں سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی پروجیکشن کے لیے ایڈوائز موصول ہونے لگیں۔ ایڈوائز میں شہباز شریف کی خبروں کو نمایاں جگہ دینے کے لیے کہا جاتا تھا۔

اس کے بعد ’پاناما لیکس‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے پاناما اسکینڈل کی سماعت شروع کی تو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے علاوہ مسلح افواج کے تعلقاتِ عامّہ کے شعبے کی ایڈوائز موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ ایڈوائز سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت اور جوائنٹ انویسٹی گیشن کمیٹی میں ہونے والی پوچھ گچھ سے متعلق تھیں۔

تحریک انصاف کی حکومت میں میڈیا کا بیانہ کنٹرول کرنے کے لیے مختلف نوعیت کےا قدامات اُٹھائے گئے۔ میڈیا کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لیے پہلے سرکاری اشتہارات کم کئے گئے اور پھر دُوسرے مرحلے میں مختلف معاملات پر ایڈوائز ملنے لگیں۔ یہ ایڈوائز عدالتی کارروائی، سیاسی راہ نمائوں کی سرگرمیوں، عدالتی فیصلوں، داخلہ اور خارجہ وزارتوں سے متعلق ہوتی تھیں جن کی بناء پر صحافیوں کے لیے ایک غیریقینی صورت حال پیدا ہوگئی۔

اسے بدقسمتی یا عاقبت نااندیشی ہی کہا جائے گا کہ پریس ایڈوائز کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مدیران اور متعلقہ صحافتی عملے کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس خبر کی اشاعت پر کیا ردّعمل آئے گا۔ بعض اوقات بظاہر کوئی ایڈوائز نہیں ہوتی مگر کسی خبر کی اشاعت پر متعلقہ اداروں کا سخت ردّعمل سامنے آ جاتا ہے۔ مدثر مرزا کے مطابق تحریک انصاف حکومت مریم نواز اور بلاول بھٹو کی سرگرمیوں کی کوریج پر زیادہ براَفروختہ ہوتی ہے۔ اس طرح صحافیوں میں سیلف سینسر شپ کا رویہ پروان چڑھتا ہے۔