• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریف فیملی نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ابھی بھی ان کا سفر جاری و ساری ہے اس سفر میں کئی کٹھن راستے آئے کبھی اقتدار مل گیا کبھی چھن گیا یا چھین لیا گیا کبھی مصلحت سے کبھی مصالحت سے کام لیا گیا۔ زیادہ وقت محاذ آرائی میں گزر گیا۔ نواز شریف کا بیشتر وقت اسٹیبلشمنٹ سے جھگڑوں میں گزرا وہ تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تاہم ان کی اقتدار کی مدت آٹھ نو سال سے زیادہ نہ رہی تاہم اس مختصر عرصے میں بھی انہوں نے اپنے ملک اور عوام کے لئے ایسے کام کئے کہ مسلم لیگ (ن) ایک مضبوط اور مقبول ترین جماعت بن گئی بے شمار دشواریوں رکاوٹوں کے باوجود نہ جماعت کمزور ہوئی نہ نواز شریف کی مقبولیت میں کمی آئی۔

’’شریف‘‘ خاندان کے سیاسی سفر کی کہانی جو 1985ء سے شروع ہوئی اور تاحال جاری ہے

 انہوں نے نظریاتی بنیادوں پر جماعت کو اس طرح اکٹھا کیا کہ اقتدار سے محروم ہو جانے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کے ارکان متحد رہے ورنہ ان ارکان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہ اقتدار کے ساتھ ہوتے ہیں۔ شریف فیملی میں دوسرا بڑا نام شہباز شریف اور مریم نواز کا ہے۔ اس خاندان نے سیاست میں اہم رول ادا کیا حمزہ شہباز جوان دنوں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں مقبولیت اور صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں اس خاندان میں جدوجہد اور آمریت کو للکارنے والی دلیر خاتون کلثوم نواز بھی ہیں جب 1999میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور ملک میں مارشل لا مسلط کیا گیا وہ اس خاندان کیلئے بڑا کڑا وقت تھا۔

اس وقت حیرت انگیز طور پر کلثوم نواز نے ایک وفا شعار بیوی کے علاوہ جمہوریت پسند اور محب وطن خاتون کا وہ کردار ادا کیا کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا۔ ایک گھریلو خاتون پورے مارشل لاء سے ٹکرا گئی انہوں نے ایک مثال قائم کی ان کی دلیری ہمت کا وصف مریم نواز کو منتقل ہو گیا ان کے گھرانے میں نواز شریف شہباز شریف کے والد میاں محمد شریف کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ان تمام کی تربیت اور نظم ونسق سکھانے میں ان کا بھی بڑا کردار تھا۔

میاں محمد شریف منجھے ہوئے تجربہ کار صنعت کار تھے جب ذوالفقار بھٹو نے 70کی دہائی میں اتفاق فائونڈری کو قومیا لیا تو انہوں نے مشکل حالات میں بھی مشرق وسطیٰ جاکر دو تین کارخانے بنا لئے وہ سیاست کے اسرار ورموز سے بھی واقف تھے۔ نواز شریف کو سیاست میں آنے میں ان کا کردار اہم تھا دراصل جب ان کے کارخانے کو قومی تحویل میں لیا گیا تو شاید ردعمل کے طور پر اس فیملی نے سیاست میں آنے کا ارادہ کیا 25دسمبر 1949کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا وہ آیا اور چھا گیا کہ مصداق وہ ترقی اور مقبولیت کی منازل طے کرتے گئے۔

نواز شریف حقیقی معنوں میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے مہنگی گھڑیوں ،قیمتی گاڑیوں اور عمدہ لباس کے شوقین نواز شریف نے سیاست کے پرخار راستوں پر سفر کرتے ہوئے خود کو لہولہان بھی کیا ان کے خاندان پر عروج بھی آیا زوال بھی آیا جہاں انہوں نے اقتدار کے مزے لئے وہاں مصائب اور مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ دھوپ چھائوں کا کھیل ابھی بھی جاری ہے۔ 

جنرل ضیاالحق کے دور میں پہلی بار انہیں حکومت میں کام کرنے کا موقع ملا۔یہ کوئی 1984ءکی بات ہے جب غلام جیلانی مارشل لاء دور میں گورنر کے عہدے پر فائز تھے انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد نواز شریف نے وزیر اعلیٰ بن کر صوبہ پنجاب کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنے سیاسی کیریئر کا صحیح معنوں میں آغاز کیا۔ 1988کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ابھرنے والی پارٹی کے ساتھ انہیں وفاق میں حکومت نہ مل سکی لیکن ایک بار پھر وہ وزیر اعلیٰ بن گئے لیکن یہ دور کشمکش اور جوڑ توڑ کا رہا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت گرنے کے بعد 1990ء کے انتخابات میں انہوں نے آئی جے آئی کی قیادت سنبھالی دراصل اسٹیبلشمنٹ نے قیادت تو سینئر سیاست دان غلام مصطفیٰ جتوئی کو دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن میاں نواز شریف نے اپنے پتے زیادہ بہتر استعمال کئے کامیابی انتخابی مہم چلانے کے بعد 1990ء میں پہلی بار وہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے لیکن محض تین سال میں صدر غلام اسحاق سے اختلافات کے باعث ان کی حکومت ختم کر دی گئی بطور رپورٹر مجھے یاد ہے کہ وہ ان تین برسوں میں اپنی تقاریر میں گوادر سے وسطی ایشیا کی ریاستوں تک سڑکوں کے جال بچھائے اور ان راستوں سے تجارت کو فروغ دینے کا اکثر ذکر کرتے تھے بعد میں یہ تصور سی پیک کے ذریعے شرمندہ تعبیر ہوتے نظر آیا اس دور میں موٹر ویز اور بہتر انفراسٹریکچر کے تصورات زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے متوسط اور تاجر طبقہ میں ان کی مقبولیت بڑھ گئی اس عرصے میں انہوں نے آئی ٹی کو بھی فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا لیکن حکومت جانے سے یہ ترقی کا سفر رک گیا حکومت کے خاتمے پر نواز شریف نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا جہاں جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے ان کی حکومت کو دوبارہ بحال کر دیا لیکن یہ بحالی صرف وقتی تھی اور ایک بار پھر صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات ختم نہ ہوئے ایک خاص فارمولے کےتحت نواز شریف کو بھی حکومت چھوڑنی پڑی۔

1993ءمیں ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کی بے نظیر بھٹو نے کامیابی حاصل کی اور وہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہو گئیں لیکن کرپشن کے الزامات پر ان کے اپنے ہی صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اس وقت یہ سب 58ٹو بی کی آڑ میں ہوتا تھا۔مارچ 1997ء میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف نے تین چوتھائی کی واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور دوسری دفعہ وزیر اعظم بن گئے۔ ترقی کا سفر وہی سے شروع ہوا جہاں سے ختم ہوا تھا۔ دوسرے دور حکومت میں انہوں نے بھارت سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور اس وقت کے اپنے بھارتی ہم منصب اٹل بہاری واجپائی کو لاہور آنے کی دعوت دی یہ دعوت انہوں نے قبول کی اور مینار پاکستان پر جاکر پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرنے کا عہد کیا۔

اس موقع پر کشمیر کے تنازع کے حوالے سے بھی پیشرفت نظر آئی لیکن دوسری جانب کوئی اور بھی کھیل کھیلا جا رہا تھا فوج کا ایک گروپ کشمیر کے تنازع کو بزور طاقت کسی اور انداز میں نمٹانے کی سرگرمیوں میں مصروف تھا کارگل پر فوجی جوان تعینات کر دیئے گئے جس کے انکشاف کے بعد پاک بھارت تعلقات بہتر تو کیا ہوتے سخت کشیدگی پیدا ہو گئی جنگ بہت نزدیک آ گئی امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری نے کارگل کو غلط سمجھا نواز شریف اس تمام عرصے میں سخت مشکل میں رہے انہیں امریکہ جاکر معاملات کو درست کرنا پڑا تاہم انہوں نے فوج پر الزام نہیں آنے دیا اور خود مشکلات کا سامنا کیا۔ خارجہ پالیسی میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ مذاکرات اور سیاسی سوجھ بوجھ سے معاملات کو طے کیا جائے شاید غیر شعوری طور پر وہ چین کے اس فلسفے سے متاثر ہیں کہ پہلے خود کو معاشی اقتصادی طور پر مضبوط کرو کیونکہ کمزور مملکت اور ریاست جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی ہمارے ہاں بدتاثر عام ہے خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سویلین حکومت کا کم ہی کردار ہوتا ہے۔

نواز شریف سمجھتے تھے کہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرکے مسائل اور تنازعات کا حل نکالا جا سکتا ہے لیکن پرویز مشرف نے ان کی پالیسی کو ایک خاص عمل کے ذریعے تہس نہس کر دیا اور بھارت کارگل کے بعد نارمل نہیں رہا اس نے الزام دینا شروع کر دیا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت خارجہ پالیسی خود نہیں بنا سکتی اس کا بعد میں بالآخر یہ نتیجہ نکلا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا پھیلائو بڑھ گیا اور نریندر مودی جیسے کٹر ہندو انتہا پسندبرسراقتدار آ گئے اور مقبوضہ کشمیر کی سابقہ حیثیت کو ختم کرکے اس پر اپنا قبضہ اور پکا کرنے کی ترکیب نکال لی۔

نواز شریف تمازت کے ذریعے ملکوں کےساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں وہ پاکستان کو دنیا بھر کی قوموں کے ساتھ تعاون کی پالیسی اپنانے کے حامی ہیں یہ ہی اصول وہ ہمسایوں کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں وہ امن میں ترقی دیکھتے ہیں ان کا نظریہ یہ ہے کہ اگر ہم جنگ کی حالت میں رہے گئے تو عوام تعلیم، صحت کی جدید سہولت سے محروم رہیں گے غربت اور بڑھے گی۔ غریب غریب تر ہوتا جائے گا مہنگائی عوام کو رلاتی رہے گی نواز شریف کی سیاسی و معاشی سوچ دنیا کے حالات اور ملک کے حالات کے مطابق ہے ان کی سوچ ترقی پسند اور عوام کو ریلیف دینے والی ہے ان کا موقف ہے کہ اگر امن نہ ہو گا تو عوام کی حالت زار میں نمایاں تبدیلی اورترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔

پنجاب میں اس نظریے کو عام کرنا مشکل تر کام تھا لیکن نواز شریف نے اپنے اس فلسفے اور نظریے کو بڑی ہنرمندی سے پھیلایا۔جس کی عوام نے انتخابات میں تائیدوحمایت کی اور بار بار کامیابی سے ہمکنار کرایا امن کی خواہش کے ساتھ ساتھ انہوں نے دفاع کو بھی مضبوط کیا۔1998ء میں چاغی کے مقام پر بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کئے اور تاریخ رقم کر دی امریکہ اور یورپ نے نواز شریف کو ایٹمی دھماکے کرنے سے بہت روکا سپر پاور صدر کلنٹن کے دھمکی اور ترغیب آمیز ٹیلی فون بھی آئے لیکن پاکستان تمام اسلامی ملکوں میں واحد ایٹمی قوت بن گیا تعمیروترقی کاسفر جاری تھا کہ رکاوٹ آگئی ۔

1999ء اکتوبر 12میں اس وقت کے فوجی سربراہ پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک کے سربراہ بن گئے یہ شاخسانہ کارگل کے تنازع کا تھا۔ نواز شریف کارگل کے ذمہ داروں کے تعین کے بارے میں سوچ بچار کر رہے تھے کہ فوجی آمر نے آدبوچا پرویز مشرف نے حکومت سنبھالنے کے بعد ان کی مقبولیت سے خائف نواز شریف شہباز شریف کو مختلف نوعیت کے مقدمات میں جکڑ دیا۔ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز داماد کیپٹن صفدر کو اور بھائی شہباز شریف کو گرفتار کر لیا یہ ہی موقع تھا جب نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز مار شل لا کی سخت فضائوں میں خاتون آہن بن کر سامنے آئیں پہلی بار مسلم لیگ ایسی آزمائش سے دوچار ہوئی اور آمریت کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے بہت سے ارکان ہوا کا رخ دیکھ کر اور ’’اقتدار بہت دور ہے ‘‘ کو جان کر نواز شریف کو چھوڑ گئے اس سارے ماحول سے مسلم لیگ (ق) کا ظہور آیا اس سے پہلے نواز شریف کو پہلے سزائے موت اور بعد میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

تاہم کلثوم نواز اور ان کے ساتھ مریم نواز نے فوجی آمریت کا ہمت دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا کچھ بین الاقوامی قوتوں اور دوست ممالک کی مداخلت سے کچھ معاملات طے ہوئے پرویز مشرف نے غنیمت جانا کہ اس سے پہلے کہ عوامی رائے عامہ کسی موقع پر اور خلاف اور ان کے حوالےسے اور مزاحمت پر اتر آئے ان سے پیچھا چھڑائو دوست ممالک جن میں سعودی عرب، قطر وغیرہ نمایاں تھے نے اہم کردار ادا کیا معاہدے کے بعد نواز شریف نے سزا معطل ہونے کے بعد سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرلی وہ سعودی شاہی خاندان کے مہمان رہے۔

شہباز شریف پہلے جانے سے انکاری تھے لیکن والدین کے سمجھانے پر رضامند ہوگئے بس حمزہ شہباز کاروبار کی دیکھ بھال کیلئے وطن میں ہی مقیم رہے لیکن انہوں نے سیاست میں کوئی دخل نہ دیا اور خاموشی کے ساتھ کاروبار زندگی میں مصروف رہے۔ نواز شریف کی غیر موجودگی میں 2002ء میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت نے ظاہر ہے کہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی تمام عوامل اور ماحول ان کے خلاف ہی جاتا تھا۔

سرو پیلس میں نواز شریف نے اپنے دوستوں ساتھیوں سے کسی حد تک رابطہ رکھا علاوہ ازیں حسب عادت اور حسب روایت انہوں نے وہاں بھی صنعت سازی کا فیصلہ کیا اور ایک سینٹل مل کی بنیاد رکھ دی اسی دوران وہ مختلف کوششوں سے لندن چلے گئے اسی دوران سعودی عرب میں شہباز شریف کو کینسر کی تشخیص ہو گئی اور انہوں نے امریکہ جاکر اپنا علاج کرایا 2006ء میں اپنی روایتی حریف بے نظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں ملاقات کے دوران دونوں سابق وزراء اعظم نے میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کئے اور ملک میں جمہوری دور کی واپسی اور پرویز مشرف سے چھٹکارا حاصل کرنے کا عہد کیا اس معاہدے کی خاص بات یہ تھی کہ یہ عہد بھی کہا گیا کہ سیاسی جماعتیں جو اس معاہدے میں شامل ہیں جمہوری عمل کو فروغ دینگی اور اپنے مفاد کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے مدد لیں گی جیسا کہ ماضی میں وہ کرتی رہیں ہیں۔ اس میثاق جمہوریت نے بعد میں کافی فائدہ دیا تاہم دونوں جماعتوں نے کچھ شقوں کی وقتاً فوقتاًخلاف ورزی بھی کی۔

سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ستمبر 2007ء میں نواز شریف نے وطن واپسی کی کوشش کی لیکن مشرف انتظامیہ نے طاقت کا مظاہرہ کرکے انہیں جہاز سے اترنے کی اجازت نہیں دی اور ایئرپورٹ سے ہی جہاز کو واپس بھیج دیا گیا لیکن دو ماہ بعد انہوں نے ایک بار پھر وطن کا رخ کیا ۔لاہور کے ایئرپورٹ پر نواز شریف شہباز شریف کا فقیدالمثال استعمال کیا گیا ۔دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ انتخابات کی تیاریاں عروج پرتھی تاہم کشیدہ ماحول میں نواز شریف ہسپتال پہنچنے والے اولین قومی لیڈر تھے دکھ اور پریشانی ان کی چہرے سے عیاں تھی جن جذبات کا انہوں نے اظہار کیا ہر محب وطن پاکستان ان سے بے حد متاثر ہوا۔

فروری 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات میں نواز شریف کی مسلم لیگ دوسری اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شرکت کی لیکن یہ شراکت داری زیادہ عرصے قائم نہیں رہی اور اخلافات بڑھنے لگے اختلافات کی نوعیت اتنی شدید ہو گی کہ 2011میں نواز شریف نے پی پی پی حکومت کے خلاف میموسکینڈل میں سپریم کورٹ میں پٹیشن درج کی جس میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر خود پیش ہوئے دو سال بعد مئی 2013ء میں پھر عام انتخابات کا انعقاد ہوا 2008ء میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اکثریت ملی تھی جہاں شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ 

انہوں نے پانچ سال میں تعمیروترقی کا شاندار کام کیا کہا جاتا ہے ان کی شب وروز کی محنت کے باعث 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ایک بار پھر کامیابی ملی ۔شہباز شریف نے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا جدید سسٹم بنایا انہوں نے لاہور، ملتان اور راولپنڈی اسلام آباد میں میٹروبس اور لاہور میں اورنج لائن ٹرین بنائی۔ علاوہ ازیں وہ انڈر پاسسز ،فلائی اووز بنانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

تاہم نواز شریف کی مقبولیت کا بھی بڑا حصہ کامیابی کا باعث بنا نواز شریف ایک بار پھر ملک کے وزیر اعظم بن گئے لیکن سازشیں اور مداخلت ان کا تعاقب کرتی رہیں اسٹیبلشمنٹ سے بھی ان کی بنتی نہیں تھی اس بار نواز شریف کو انتخابات کے فوراً بعد ہی مشکلات اور مسائل میں الجھا دیا گیا نئے سیاسی حریف اور سابق کرکٹر عمران خان جن کو بعض قوتیں پرموٹ کرنے میں مصروف تھی نے دھاندلی کے الزامات عائد کر دیئے اور حکومت ختم کرانے کے لئے اگست 2014ء سے دسمبر 2014ء تک اسلام آباد میں مسلسل دھرنا دیا طاہر القادری ان کے ساتھ تھے۔ 

نواز شریف نے مخالفین کی پرواہ کئے بغیر ترقی اور معاشی استحکام کیلئے شاندار کام کیا ملک کی ترقی میں دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ حائل تھی خوف اور مایوسی کے سائے منڈلا رہےتھے ناامیدی بڑھ رہی تھی لیکن سخت نامصائب حالات میں بجلی کے نئے کارخانے لگائے گئے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا قومی مجموعی پیداوار 5.6فیصد ہو گئی ڈالر پٹرول اور آٹا کی قیمتوں کو قابو میں رکھا موٹر ویز ہوائی اڈے تعمیر ہو رہے تھے مہنگائی بھی زیادہ پریشان کن نہیں تھی۔ 

سی پیک کے معاہدے امید کی نئی کرنوں کی مانند قوم کی امنگوں کو جلابخش رہے تھے مستقبل تابناک نظر آ رہا تھا۔ لیکن ثبات اک تغیر کی ہے زمانے میں کے مصداق 2016ء میں پاناما پیپر کے منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی فضا میں تلاطم آ گیا لیکن اس سے پہلے یہ ذکر ضروری ہے کہ نواز شریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں وزارت خارجہ کی ذمہ داری اپنے ذمے ظاہر کی تھی اس دور میں بھی انہوں نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی 2014ء میں نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں انہوں نے شرکت کی اور دسمبر 2015ء میں نریندر مودی اچانک لاہور پہنچ گئے جاتی عمرہ میں ان کی آمد کو بہت سے حلقوں نے ہدف تنقید بنایا اس سال 2016ء اکتوبر میں نواز حکومت اور فوج کے مابین اختلافات ابھر کر سامنے آئے جب ڈان لیکس کی خبر منظر عام پر آئی تو اس خبر کے آنے کے بعد حکومت کےسخت دبائو کا سامنا کرنا پڑا اور پرویز رشید کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے مطلب یہ کہ نواز شریف نے مصالحت کا دامن چھوڑا نہیں لیکن غلط فہمیاں دور نہ ہوئیں 2017ء میں نواز شریف کو متحدہ عرب امارات میں اقامہ ظاہر نہ کرنے یا اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں صادق و امین کی شق کی خلاف ورزی پر اسمبلی سے نااہل کر دیا گیا۔ 

نواز شریف نے عوام رابطہ مہم جاری رکھی ان کی مقبولیت میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ۔2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اور پنجاب میں بھی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے نمایاں رہی لیکن عمران خان کو سہارا دینے والے زیادہ طاقتور تھے ان حراست کے دوران بیگم کلثوم نواز کا لندن میں کینسر کے باعث انتقال ہو گیا جو ان کے لئے سخت دکھ تکلیف کا باعث بنا نواز شریف نے جدوجہد ترک نہ کی اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف اور سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر جمہوری اقدار کی پاسداری کا علم بلند کرتے رہے۔

خوبصورت سرخ و سپید نواز شریف 72سال کے ہو گئے ہیں لیکن اپنے فلسفے اور نظریے پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں جیل میں بیماری کے بعد وہ عدالت اور حکومت کی رضامندی سے لندن چلے گئے اس عرصے میں انہوں نے اپنے نظریات اور سوچ کی آبیاری کیلئے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو آگے کر دیا۔ مریم نواز اپنے والد نواز شریف کا تسلسل ہیں اگر مسلم لیگ میں کسی نے حقیقی معنوں میں نواز شریف کے نظریات کا پرچم اٹھایا ہے تو وہ مریم نواز ہیں گو کہ اس کی بھاری قیمت ان کو ادا کرنی پڑی بستر مرگ پر پڑی والدہ کی وہ تیمار داری نہ کر سکی۔ مریم نواز کرائوڈ پلئر ہیں پرجوش خطاب کرتی ہیں جہلم، منڈی بہائوالدین، مانسہرہ، آزاد کشمیر میں انہوں نے بہت بڑے بڑے جلسے کئے ان کی تقریر بہت کاٹ دار اور واضح ہوتی ہے وہ لگی لپٹی کے بغیر اپنا مدعا بیان کرتی ہیں ممکن ہے وہ اپنے بیٹے جنید صفدر کو سیاست میں لے آئیں ۔

شریف فیملی کا ایک اور اہم رکن شہباز شریف ہیں 23ستمبر 1951ء کو پیدا ہونے والے شہباز بے شمار خوبیوں اور اوصاف کے مالک ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں ان کا اہم کردار رہا ہے نواز شریف نے بجا طور پر ان کو پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیا تھا ان کے دور میں پنجاب نے تاریخی ترقی کی انہوں نےتمام بڑے شہروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پوری سعی کی۔ شہباز شریف بے حد قیمتی اور وژن والے رہنما ہیں اردو، انگریزی کے علاوہ عربی ،فرانسیسی اور جرمنی زبان پر بھی ان کو دسترس ہے وہ بے مثال منظم اور ڈسپلن کے پابند انسان ہیں دیہاتوں میں کھیت سے منڈی تک سڑکوں کی تعمیر ان کا ہی کارنامہ ہے۔

سی پیک کے منصوبے جس تیزی سے مکمل ہوئے وہ ان کی ہی کاوش ہے ۔بجلی کے کارخانے ریکارڈ مدت اور کم ترین اخراجات میں مکمل ہوئے۔ شہباز شریف کو چین میں ان کے کام کی رفتار کی منصوبوں کو شہباز سپیڈ سے پکارا جانے لگا پنجاب میں تعلیمی وظائف لیپ ٹاپ کی تقسیم صحت کے حوالے سے ریکارڈ ہسپتالوں کی تعمیر ان کی مقبولیت کا سبب ہیں وہ بیوروکریسی پر خوب نظر رکھتے ہیں کوئی کام کے سلسلے میںانہیں دھوکا یا فریب نہیں دے سکتا بے شمار منصوبوں میں انہوں نے اربوں روپے کی بچت کی۔

شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے ازحد وفادار اور ان کے ساتھ بے حد مخلص ہیں انہیں کئی دفعہ طاقتور حلقوں کی جانب سے وزیراعظم بننے کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے یہ پیشکش ہمیشہ مسترد کی وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی یا تنازع کے حق میں نہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہو گا اب ان کا نظریہ بھی روبہ عمل ہے۔ اپوزیشن کیلئے آئندہ دنوں میں راستہ کھل سکتا ہے انہیں مستقبل کا وزیراعظم بھی کہا جاتا ہے ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اس وقت پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں وہ زیرک اور دور اندیش ہیں کم بولتے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو پورا تولتے ہیں جماعتی تنظیم کو سنبھالنے کی بڑی ذمہ داری ان پر آ جاتی ہے جس کو وہ بڑی تندہی خاموش اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں ابھی نوجوان ہیں لیکن ذہنی طور پر کافی پختگی پائی جاتی ہے جذباتی نہیں ہوتے اپنے والد کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے بنا کر رکھنے کے حق میں ہیں کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے منصب کے اہل ہونگے۔

پنجاب کے ارکان اسمبلی کے بیشتر مسائل اور معاملات کی ذمہ داری ان کے سپرد ہوتی ہے۔ فیملی کے ایک رکن اسحق ڈار بھی ہیں وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے اپنی مہارت اور تجربے کا لوہا منوایا مشکل حالات میں انہوں نے معاشی عشاریے درست کئے ڈالر اور مہنگائی کو قابو میں رکھا۔