• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی ارتقاء آزادی سے وابستہ ہے۔ انسان آزاد ہو تو اس کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں، اس کی شخصیت نکھرتی، ابھرتی ہے اور تکمیلِ ذات کاسفر اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم، بہ عنوان، خضرِ راہ: میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے:

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب

اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی

آزاد فضامیں سانس لینا، آزادی سے جینا، خود کو آزاد محسوس کرنا، آزادی سے بات اور کوئی عمل کرنا، ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے، لیکن آزادی حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے دی جانی والی قربانیوں کے قصّے کتابوں میں پڑھنا الگ بات ہے اور قربانی دینا علیحدہ بات ہے۔

آزادی کی قیمت اور عہدِنو

ہم آج جس آزادی کا جشن منارہے ہیں، وہ بھی بہت سی جانی اور مالی قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی تھی۔ آگ اور خو ن کی ندیاں بہیں، رشتے ،ناطے چھوڑنے پڑے، پُرکھوں کی ہڈّیاں چھوڑی گئیں، یادیں اور یاد گاریں قُربان کرنا پڑیں، گھربار، کاروبار اور آسائشوں کی قُربانیاں دی گئیں، تب کہیں جاکر آزادی جیسی عظیم نعمت ملی۔ لیکن یہ سفر یہیں پر ختم نہیں ہوا، بلکہ آزادی حاصل کرنے کے بعد استحکامِ پاکستان اور تحفّظ پاکستان کی منزلوں کی جانب ایک اور کٹھن سفر کا آغاز ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قوموں کی زندگی میں یہ نعمت حاصل کرنے کے مراحل بہت جاں گُسل ہوتے ہیں، لیکن اس کی حفاظت کے لیے بھی بہت قُربانیاں درکار ہوتی ہیں۔

ایسی ہی کچھ قُربانیاں حال ہی میں ہم نے معرکہ حق کے دوران دی ہیں، لیکن اپنے ازلی دشمن، بھارت، کے سامنے سر نہیں جھکایا، بلکہ اسے اس کی شرانگیزیوں کانپے تُلے انداز میں جواب دے کر دنیا بھر میں اُسے شرم سار کردیا ہے۔ چناں چہ اس سال ملک بھر میں یومِِ آزادی اور معرکۂ حق کی تقریبات ایک ساتھ اور بھرپور انداز میں منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یعنی اس برس چودہ اگست کو صرف آزادی کی یاد نہیں منانا بلکہ اس کی حفاظت کا عہد بھی کرنا ہے۔

بلاشبہ آزادی کا تحفظ ہر انسان کے وقار اور عزت نفس کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ آزادی کا ثمر ہی ہوتا جس کی بہ دولت انسانوں کو اپنی صلاحیتیں بہ روئے کار لانے اور معاشرے کی ترقی میں حصہ لینے کے مواقعے ملتے ہیں۔ آزادی کا تحفظ ایک بنیادی انسانی حق ہے جو ہر فرد کو حاصل ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ کسی شخص کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی زندگی گزارنے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے، اور اپنے عقیدے پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ آزادی کے تحفظ میں قانون کی حکم رانی، انسانی حقوق کا احترام، اور جمہوری اقدار کا فروغ بھی شامل ہیں۔

قائد اور آزادی کا حقیقی تصوّر

چودہ اگست کو ہمیں برطانوی استعمار کی غلامی سے آزادی ملی تھی اور اسی روز پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی خود مختار نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس لیے یہ دہری خوشی کا دن ہے اور اس روز پاکستانی عوام ملک بھر میں، بلکہ دنیا میں جہاں بھی پاکستانی بستے ہیں، آزادی اور نئے وطن کی خوشی میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 25 اگست 1947ء کو کراچی میونسپل کارپوریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا مقصد ہر شہری کونہ صرف ہر قسم کی محتاجی اور خوف سے نجات دلانا ہے بلکہ اسے آزادی، اخوت اور مساوات کی نعمتیں بھی مہیا کرنا ہے جس کی تلقین ہمیں اسلام کرتا ہے‘‘۔

قائد اعظمؒ نے ہمیں آزادی اور بے لگام آزادی کا فرق بھی سمجھایا۔ 24مارچ 1948ء کو ڈھاکا یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ ’’آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہےکہ آپ دیگر شہریوں اور ملک کے مفاد کو نظر انداز کرکے جو طرز عمل چاہیں اختیار کرلیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ایک متحد اور منظم قوم کی طرح کام کریں‘‘۔

لیکن آج جب ہم قائد اعظمؒ کی تقاریر اور انٹر ویوز پڑھتے ہیں توبدقسمتی سے آج کا پاکستان بابائے قوم کے افکار کی ضد نظر آتاہے۔ 14اگست کو سبز ہلالی پرچم کو لہرانے اور اسے سلام کرنے سے آزادی کا تحفظ نہیں ہوتا۔ آزادی کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب ہم آزادی کا حقیقی مطلب سمجھیں گے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری کو وہ حقوق دیئے جائیں جن کا وعدہ آئینِ ِپاکستان میں کیا گیا ہے۔

پاکستان کا موجودہ آئین 14اگست 1973ء کو نافذ ہواجس پر ہر مکتبہ فکر کے راہ نماؤں نے دست خط کیے تھے۔آج اس آئین کو منظور ہوئے باون برس بیت چکے ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ اس آئین کا تحفظ بھی دراصل پاکستان کی آزادی کا تحفظ ہے۔ اس آئین کے مطابق آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر پاکستانی آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی مرضی سے زندگی گزارسکے، قانون سب کے لیے برابر ہو اور ریاست ہر شہری کے لیے ماں جیسا کردار ادا کرے۔

آزادیِ اظہارِ رائے اور شُترِبے مہار

یہ درست ہے کہ شخصی آزادی اظہارِ رائے کی آزادی کے بغیر نامکمل ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آزادیِ اظہارِ رائے کی حقیقت کیا ہے۔ آزادیٔ اظہار رائے دراصل وہ آزادی ہے جو قدرت کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی ہے۔ ملوکیت اور آمریت جیسے ناکام تجربات کرنے کے بعد دنیا نے بھی اسے تسلیم کر لیاہے کہ انسانی فطرت کو اجتماعی طور پہ جبراً کسی ایک نظریے کا اسیر نہیں بنایا جاسکتا۔ انسانی جبِلّت اس جبر کو قبول نہیں کر سکتی، کیوںکہ ہر انسان خود سوچنے ،سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ 

کسی روبوٹ کی طرح مخصوص طرز پہ اس کی پروگرامنگ نہیں کی جا سکتی۔ آمریت اور ملوکیت سے نکل کر دنیا اب جمہوریت کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ کہیں نہ کہیں انسانوں کی آزادیِ اظہارِ رائے کو شرف قبولیت بخشنا ہے۔ اس سے ہر کوئی واقف ہے کہ جمہوری ملک کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ اس ملک کے عوام کچھ بھی کرتے رہیں، ان پہ کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ جو چاہیں کرتے رہیں ان کو روکا نہیں جا سکتا۔ ہر جمہوری ملک کا اپنا دستور ہوتا ہے جس میں انسانی آزادی کو اصولوں کا پابند کیا گیا ہے جس میں حکومت سے لے کر عوام تک کی حدود کا تعین کیا جاتا ہے۔

آزادی کا تقاضا بھی یہی ہے ، ورنہ یہ بے بنیاد بے مہار آزادی بہتوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ یہ آمریت کی ہی ایک بدلی ہوئی شکل ہوتی جس کے محرک حکم راں کے بجائے عوام ہوتے۔ اس روشنی میں مغرب کی آزادیِ اظہارِ رائے کو اگر پرکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ آزادی کا دہرا معیار رکھتے ہیں۔ 

آج بعض مغربی ممالک آزادیِ اظہارِ رائے کو اس قدر وسعت دینے پر تُلے ہوئے ہیں کہ اپنے سرکش جذبات کی تسکین کے لیے مذہب اور ان کے مقدّسات کی بے حرمتی کو بھی آزادیِ اظہار ِرائے کا نام دیں۔ لیکن مسلّمہ تہذیب و ثقافت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مذہب، رنگ اور نسل کا احترام کیا جائے۔ اس سے فکری اختلاف رکھنا آپ کا حق ہے، لیکن اس کی تضحیک کرنا بڑے جرائم میں شامل ہے۔ خود اسلام نے بھی اس کی ممانعت کی ہے اور اس کا احترام کرنے کی ترغیب دی ہے۔

آج ہم سب کو اچھی طرح یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح آزادی کو اپنی شرطوں پہ محدود نہیں کیا جا سکتا، بالکل اسی طرح اس کو بے لگام اور ہر حد سے آزاد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح کسی ادارے کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے قاعدے اور قوانین ہوتے ہیں، اسی طرح ملک کا نظام پُرامن طور پہ چلانے کے لیے آئین کا ہونا اور اس پر عمل درآمد ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی سیاسی یا مذہبی فکر اپنانے یا اس سے اختلاف کرنے کی آزادی تو ہو سکتی ہے، لیکن اس کی تضحیک اوربے حرمتی کرنے کا حق کوئی قانون یا آئین نہیں دیتا۔

اسلام، آزادی اور فرد

آزادی کے ضمن میں اسلام کی فکر یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو محفوظ رکھا جائے اور صرف اس حد تک اس پر پابندی عائد کی جائے جس حد تک نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے۔ اسلام انسان کی آزادی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ہر شخص انفرادی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ جواب دہی مشترک نہیں ہے، بلکہ ہر شخص فرداً فرداً ذمے دار ہے اور اسے فرداً فرداً اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ 

اس جواب دہی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو اپنی شخصیت کا ارتقاء اپنے میلانات، صلاحیتوں اور اپنے انتخاب کے مطابق کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے۔ اس لیے اسلام افراد کے لیے اخلاقی اور سیاسی آزادی کے ساتھ ان کی معاشی آزادی کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اگر افراد کو معاشی آزادی حاصل نہ ہو تو ان کی اخلاقی اور سیاسی آزادی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنے معاش کے معاملے میں کسی دوسرے شخص، ادارے یا حکومت کا دستِ نگر ہو وہ اگر اپنی کوئی آزادانہ رائے رکھتا بھی ہو تو وہ اس رائے پر عمل کرنے میں آزاد نہیں ہوسکتا۔ 

اس لیے اسلام معاشی نظام کے لیے ہمیں ایسے اصول دیتاہے جن سے فرد کے لیے اپنی روزی کمانے کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل رہے اوراس پر صرف اتنی پابندی عائد کی جائے جتنی حقیقت میں انسانی فلاح و بہبودکے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے اسلام سیاسی نظام بھی ایسا چاہتا ہے جس میں حکومت لوگوں کی آزاد مرضی سے بنے اور لوگ اپنی مرضی سے اسے بدلنے پر قادر ہوں۔

علاوہ ازیں لوگوں کےیا ان کے معتمد علیہ نمائندوں کے مشورے سے اس کا نظام چلایا جائے۔ لوگوں کو اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور حکومت کو غیر محدود اختیارات حاصل نہ ہوں بلکہ وہ ان حدود کے اندر ہی رہ کر کام کرنے کی مجاز ہو جو قرآن اور سنت کے بالاتر قانون نے اس کے لیے مقرر کر دیے ہیں۔ 

اس کے علاوہ اسلام میں خدا کی طرف سے لوگوں کے بنیادی حقوق مستقل طور پر مقرر کر دیے گئے ہیں جنہیں سلب کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ افراد کی آزادی محفوظ رہے اور کوئی ایسا جابرانہ نظام مسلط نہ ہونے پائے جس میں انسانی شخصیت کا ارتقاء ٹھٹھر کر رہ جائے۔

آزادی برقرار رکھنے کا عزم اور معرکہ حق

پاکستان نے اپنی آزادی اور سلامتی پر آنچ نہ آنے دینے کے عزم کے ساتھ بھارت کی تمام تر اور شدید شر انگیزیوں کے باوجود اپنے سیاسی، سفارتی، عسکری اور حربی اعصاب پوری طرح قابو میں رکھے۔ اگرچہ اندرون ملک بھارت کو فوری اور بھرپور جواب دینے کے لیے دباو روز بہ روز بڑھ رہا تھا،لیکن پاکستان نے مذکورہ تمام شعبوں میں بہت تحمّل، تدبّر اور ہوش مندی سے فیصلے کیے۔

کیوں کہ اس مرتبہ پاکستان کو پوری طرح یہ احساس تھاکہ بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کو اگر اب قطعی طور پر نہیں روکا گیا تو ان کی رفتار، تعداد اور منفی اثرات بڑھتے جائیں گے۔ پاکستان کو بھارت کی طاقت ور عالمی کھلاڑیوں سے قربت، اس کے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم، خِطّے میں اس کی پولیس مین کا کردار ادا کرنے کی بڑھتی ہوئی خواہش اور کوششوں، خِطّے کے ممالک پر اپنی عسکری اور سیاسی طاقت اور بڑی معیشت ہونےکی دھونس جمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینے کی حرکتوں اور چین کا راستہ روکنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا پوری طرح احساس تھا۔

اسے یہ بھی معلوم تھاکہ بھارت کے فیصلہ ساز اس وقت اس کی کم زور اقتصادی حالت ، دہشت گردی کی تیز لہر اور اندرونی سیاسی چپقلشوں کی وجہ سے تر نوالہ سمجھنے لگے ہیں، جسے بھارت کی ایک ہانک سہم جانے پر مجبور کرسکتی ہے۔

یقینا ایسے حالات میں مذکورہ شعبوں میں مناسب فیصلہ سازی بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس طرح کے جاں گسل حالات میں پاکستان نے بھارت کی مذکورہ شعبوں میں حکمت عملی کو صبر، تحمل، تدبّر اور ہوش مندی سے اپنے بہت کم نقصان کے ذریعے نہ صرف آوٹ کلاس کیا بلکہ اسے نہ صرف خِطّے میں بلکہ عالمی سطح پر شدید سیاسی ، عسکری،حربی اورتیکنیکی نقصان بھی پہنچایا۔

پاکستان نےاس ساری کشیدگی اور جنگ کے دوران سیاسی ، سفارتی اور حربی میدان میںجس طرح دانش مندانہ فیصلےکیے اورجس طرح عالمی برادری تک اپنی بات پہنچائی، اس نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان ایک ذمے دار جوہری ملک ہے اور بہت موثر عسکری اور حربی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود وہ بین الاقوامی اور عسکری امور میں افراط وتفریط کا شکار ہوکرمحض غیض و غضب میں آکر یا اپنی اندرونی سیاسی ضرورتوں کے تحت دنیا کا امن داو پر نہیں لگاتا۔ چناں چہ اس نے پہلے دن سے پہلگام کے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا اور اس میں مدد دینے کو تیّار نظر آیا۔

تحمّل اور ہوش مندی کے ساتھ دشمن پر کاری ضرب

پاکستان نے بھارت کے تمام تر اکسانے کے باوجود جنگ میں پہل نہیں کی۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو جوابی کارروائیوں میں الجھانے اور اپنی توانائیاں اور وسائل اس میں ضایع کرنے کی حکمت عملی میں بری طرح ناکامی ہوئی، لیکن وہ پاکستان کی اس حکمت عملی کو سمجھنے میں بری طرح ناکام رہا۔ اس نے سمجھا کہ پاکستان کے پاس جواب دینے کی صلاحیت نہیں، وہ بھارت کی کارروائیوں سے ڈرگیاہے اور چوں کہ بعض بڑی طاقتوں کا جھکاو بھارت کی جانب ہے اس لیے پاکستان اس کا ہر ظلم و ستم چپ کرکے سہہ جائے گا۔

لیکن دوسری جانب پاکستان ابتدا میں ایک حکمت عملی کے تحت خاموش رہ کر ایک تو دنیا میں اپنا کیس مضبوط کررہا تھا کہ ہم پر امن رہنا چاہتے ہیں اورہم بھارت کی طرح جارح اور غیر ذمے دار ملک نہیں ہیں۔ اور دوسری جانب وہ بھارت کی عسکری کارروائیوں سے بھارت کے عسکری دماغوں اور ان کی حکمت عملیوں کو پڑھ اور سمجھ رہا تھا، اپنی توانائیاں اور وسائل ضایع ہونے سے بچا رہا تھا، طاقت کے عالمی مراکز کا ردعمل دیکھ رہا تھا اور اپنے دوستوں سے رابطہ کرکے سیاسی، عسکری اور حربی حکمت عملی وضح کررہا تھا۔

ابتدا میں پاکستان کی بہ ظاہر خاموشی اور تحمّل نے بھارت کے سیاسی اور عسکری دماغوں کو پہلے فرسٹریشن میں مبتلا کیا اور پھر غلط فیصلے کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے پاکستان کو سیاسی اور عسکری میدان میں کم زور سمجھا اور اپنے تئیں یہ فیصلہ کرلیا کہ انہوں نے پاکستان کوعالمی سطح پرتنہا کردیا ہے اور اب وہ بھارت کے لیے تر نوالہ ثابت ہوگا۔

انہوں نے ابتدائی جھڑپ کے لیے ہی اپنے بہترین طیارے، جن پر انہیں غرور تھا، یعنی رفال بھیج دیے۔ یہ فیصلہ بہ ذات خود بھارت کی کم زور عسکری اور حربی فیصلہ سازی کی غمازی کرتا ہے۔ کیوں کہ قدیم زمانے سے جنگوں کا یہ اصول چلا آرہا ہے کہ جنگ کے ابتدائی مرحلے میں کوئی بھی فوج اپنے بہترین سپاہی یا ہتھیار میدان میں نہیں اتارتی۔

شاید بھارت کے عسکری اور سیاسی فیصلہ سازوں نے اپنی ابتدائی سیاسی اور سفاتی کوششوں اور عسکری شر انگیزیوں سے بہ زعم خویش یہ سمجھ لیا تھا کہ پاکستان اپنی اندرونی سیاسی کش مکش، بہت برے اقتصادی حالات، بعض عالمی طاقتوں کے پاکستان کی جانب منفی رویے، بھارت کی جانب ان کے واضح جھکاو اور ماضی کے مقابلے میں پاکستان کے پاس اعلی پائے کے مغربی ہتھیاروں کی کمی کے سبب اس مرتبہ پاکستان پہلے کی طرح ردعمل نہیں دے سکے گا۔ اس فکر کے تحت انہوں نے یہ غلط فیصلہ کرلیاکہ پہلے ہی مرحلے میں اپنی فضائیہ کےجدید اور اعلی ترین اثاثے استعمال کرکے پہلے ہی ہلّے میں پاکستان کی فضائیہ کو دھول چٹاکر اس پر اپنی دھاک بٹھادی جائے۔ 

شاید ان کا خیال تھاکہ اس مرتبہ انہیں رفال کی وجہ سے فضا میں پاکستان کی فضائیہ پر برتری حاصل ہوگی اور اس جھڑپ میں پاکستان کے دس بارہ اہم جنگی طیارے تباہ ہوجائیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح نہ صرف دنیا بھر میں بھارت کی عسکری صلاحیتوں اور طاقت کی دھاک بیٹھ جائے گی، بلکہ پاکستان اس سے ڈر جائے گا، اس کی دنیا بھر میں سبکی ہوگی اور وہ عسکری اور حربی میدان میں بھارت سے کہیں پیچھے نظر آئے گا۔

لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شُد۔ہُوا اس کے برعکس۔ نہ صرف رفال گرے، بلکہ بھارت کی پوری فضائی طاقت زمیں بوس ہوتی نظر آئی، کیوں کہ رفال کے ساتھ اس کی فضائیہ کےہرمان، ہر شان نے ذلت آمیز انداز میں زمین کی راہ دیکھی۔ سخوئی، مِگ اور یو اے وی بھی تو اس کی پہلی صف کے’’یودھا‘‘تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے بھارت کے سیاسی اور عسکری فیصلہ سازوں کے دماغوں پر جھنجلاہٹ اور غصہ حاوی ہونا شروع ہوا۔ پھر انہوں نے ایک کے بعد دوسرا غلط فیصلہ کرنا شروع کیا اور اپنی ہی بنائی ہوئی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔

آج بھارت اپنی ہی بنائی ہوئی دلدل میں مسلسل دھنس رہا ہے اور ہم اپنی آزادی اور اسے کام یابی سے برقرار رکھنے کا جشن منا رہے ہیں۔

آزادی اور ملکی سرحدیں

 کسی کے گھرکی طرح کسی ملک کی حدود میں داخل ہونے کا معاملہ بھی ہے۔ آج کی دنیا میں ہر ملک کی جغرافیائی سرحدیں ہیں جنہیں بلااجازت عبور کرنا سنگین جرم سمجھاجاتا ہے۔ مگر ہمارا پڑوسی ملک بھارت دوسروں کی دیکھا دیکھی اب یہ سمجھنے لگا ہے کہ وہ بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی بہانے سے کسی بھی ملک میں بلا اجازت داخل ہوسکتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور سرحدی جھڑپوں کے بارے میں دنیا بھر میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔ یہ واقعات کئی حوالوں سے دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں پیدا ہونے والے حالات سے بہت مختلف تھے۔ دنیا بھر میں یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ حالیہ واقعات کے دوران پاکستان نے بھارت کے شر انگیز پروپیگنڈےاور جارحانہ فکرکے مقابلے میں سیاسی، سفارتی، عسکری اور حربی شعبوں میں بہت تحمّل، تدبّر اور ہوش مندی سے کام لیا جس کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ ان تمام شعبوں میں بہت بہتر ہوئی اور اس کاموقف دنیا بھر میں درست تسلیم کیا گیا۔

علاوہ ازیں ماضی میں دنیا میں ہماری جو تصویر پیش کی جاتی تھی، اس کے رنگ بدلے، اس کا پھیکاپن دور ہوا، مذکورہ شعبوں میں ہماری فیصلہ سازی کی صلاحیت اور معیار کی تعریف کی گئی، خِطّے اور دنیا بھر میں ہماری سیاسی، سفارتی، عسکری اور حربی صلاحیتوں کی دھاک بیٹھی اور بھارت کو ان تمام شعبوں میں سخت ہزیمت اٹھانا پڑی۔

 آزادی کی حدود اور عالمی قوانین

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی شخصیت کے دو پہلو ہیں، ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی۔ اسی وجہ سے انسان دو قسم کی زندگی کا حامل ہے، ایک خصوصی زندگی اور دوسری عمومی زندگی۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی کچھ خصوصیات ہیں اور ہر ایک کے لیے کچھ آداب وقوانین ہیں۔

اجتماعی ماحول میں انسان مجبورہے کہ اپنے اوپر کچھ پابندیاں عائد کرے اور اپنی آمد ورفت میں تحمل کرے۔ لیکن واضح ہے کہ شب و روز وہ اپنے تئیں ان پابندیوں میں خود کو جکڑے نہیں رکھ سکتا۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ شب وروز میں کچھ مدّت آزاد رہے، آرام کرے، اپنے گھر والوں اور اولاد سے نجی گفتگو کرے اور جتنا ممکن ہوسکے اس آزادی سے فائدہ اٹھائے۔ 

اسی لیے وہ اپنا گھر چاہتا ہے اور اس میں پناہ لیتا ہے۔ انسان کےلیے کچھ تحفظ اور آزادی درکار ہے۔ اگر ہر شخص کو آزادی ہو تو وہ کسی کے بھی گھر میں داخل ہوجائے۔ لیکن اگر ایسا ہونے لگے تو پھر گھر میں آزادی، آرام وسکون کا مفہوم ختم ہوجائے گا اور وہ کوچہ وبازار کے ماحول میں بدل جائے گا۔

یہی وجہ کہ انسان کے درمیان اس سلسلے میں ہمیشہ کچھ خاص قوانین وآداب موجود رہے ہیں اور دنیا کے تمام قوانین میں لوگوں کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہونا ممنوع ہے اور اس کے لئے سزا تک مقرر ہے۔ یہاں تک کہ تحفظ، امن اور دیگر حوالوں سے ضروری ہے کہ بلااجازت داخل نہ ہوا جائے۔ اس ضمن میں محدود ومعیّن طریقے اور ادارے ہیں جو یہ اجازت دینے کا حق رکھتے ہیں۔