• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن سے شائع ہونے والے اخبار آبزرور نے اپنی حالیہ اشاعت میں یہ انکشاف کیا ہے کہ داعش و القاعدہ خود کش حملوں کے لیے خواتین کو بھی بھرتی کررہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یورپین یونین کے شعبہ انٹیلی جنس نے اس مقصد کے لیے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ فرانسیسی انٹیلی جنس آفیسر نے بتایا ہے کہ فی الحال خواتین کو بھرتی کرنے کے چند اہم ثبوت ہی ملے ہیں۔ اِدھر امریکی انٹیلی جنس کے ایک ذمہ دار اہلکار نے بتایا ہے کہ مزاحمت کار عراقی، افغانی یا عربی خواتین سے شادی کرنے کے بعد یا دوستی کرکے انہیں مختلف طریقوں سے خود کش حملوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔

یورپین اسٹرٹیجک ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ القاعدہ کی جانب سے خواتین اور بچوں کو خود کش حملوں کے لیے استعمال کیے جانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں القاعدہ کے اسٹرٹیجک اثاثے کمزور پڑ رہے ہیں اور اس کی جانب سے خواتین و بچوں کو خود کش حملوں کے لیے استعمال کیے جانے کا عمل القاعدہ کی بڑھتی ہوئی کمزوری کا ثبوت ہے۔ عالمی تجزیہ نگاروں اور یو ایس آرمی وار کالج کے ماہرین سمیت برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی فائیو نے بھی اپنی تحقیق میں اس رجحان کو خطرناک قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین خود کش حملہ آوروں کی ایک بڑی تعداد ذہنی طور پر بیمار ہوتی ہے جنہیں القاعدہ اور مقامی مزاحمت کار اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل بلجیم کی پیدائشی شہری ایک خاتون عراق کے شہر یعقوبہ میں ایک کامیاب خود کش حملے میں اپنے ساتھ پانچ امریکی فوجیوں کو بھی لے ڈوبی تھی۔ اس خاتون یا خود کش حملہ آور کا نام میوریل تھا، اس کی عمر تقریباً 38برس تھی، اس خاتون نے ایک مراکشی مسلمان کے ساتھ دوستی کرکے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ عورت انتہا پسندی میں مردوں پر بھی بازی لے جائے گی۔ یورپ کے اخبارات نے میوریل کو پہلی خود کش حملہ آور قرار دے رکھا ہے۔ میوریل، جس نے اسلام قبول

کرنے کے بعد اپنا نام مریم رکھ لیا تھا۔ بلجیم کے ایک گائوں میں پیدا ہوئی۔ ہائی اسکول کے بعد چھوٹی موٹی ملازمت کرکے ماں کا ہاتھ بھی بٹایا پھر بھی متوسط طبقے کے چنگل سے نہ نکل سکی پھر ایک روز یوں ہوا کہ اس کی ملاقات ایک مراکشی نژاد حسام جورس سے ہوئی، یہ دوستی بعد میں محبت میں بدل گئی۔ یہ اس کی کسی بھی لڑکے سے پہلی بھرپور دوستی تھی، اس نے اپنا سب کچھ اقدار، تہذیب حتیٰ کہ مذہب بھی اس مراکشی مسلمان حسام کو سونپ دیا۔ اس کی ماں نے دونوں کی دوستی پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ ہالینڈ کے ایک اخبار نے مریم کی ماں ایلیان کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا، جس میں اخبار لکھتا ہے ’’جس آدمی نے میوریل کو مریم بنایا وہ ایک عام سا مراکشی تھا جو شادی کے بعد اس کو مراکش لے گیا لیکن وہاں وہ زیادہ عرصہ نہ رہ سکا اور واپس بلجیم آگیا اب دونوں بلجیم میں رہنے لگے۔ حسام کام تو کرتا نہیں تھا بس گزارہ الائونس اور دوسری مراعات پر ان دونوں کی گاڑی چل رہی تھی لیکن پھر اچانک ان دونوں کی زندگیوں میں مالی لحاظ سے تبدیلی آنے لگی‘‘۔ یہ تبدیلی دیکھ کر نہ صرف اس کی ماں بلکہ ہمسائے بھی بہت حیران ہوئے، جب ماں نے پوچھا تو دونوں میں سے کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا لیکن ایلیان کے کان کھڑے ہو چکے تھے۔ وہ اپنے اس خدشے کے بارے میں دونوں سے پوچھنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک ایک دن یہ دونوں بلجیم سے غائب ہو گئے اور تب بغداد کے شمال جنوب میں واقع مشہور شہر یعقوبہ سے ایک دن خاتون کے خود کش حملے کی اطلاع آئی جس میں پانچ امریکیوں سمیت 15افراد لقمہ اجل بن گئے۔ حملہ آور کے جسم کے چیتھڑے اڑ گئے شکل و صورت اور جنس کے پہچاننے کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔ بس خون میں لت پت ایک پاسپورٹ ملا۔ یہ حملہ مریم نے کیا تھا۔ بلجیم کے پاسپورٹ پر اس کے تمام کوائف درج تھے، اس پاسپورٹ نے اس کے ہونے کی تصدیق کردی اور یوں اس مریم نے برین واشنگ کے ہاتھوں مجبور ہوکر پہلی خود کش یورپی خاتون ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کر لیا۔ اور اس دن سے اہلِ یورپ (جس میں میں بھی شامل ہوں) کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا لیکن مریم کو اس ’’راہ‘‘ پر ڈالنے والوں کو کون بتائے کہ دنیا میں57اسلامی ممالک ہونے کے باوجود مسلمانوں کے حالات نہیں سدھرے تو پھر یہ چند خود کش حملہ آور مسلمانوں کیلئے کیا سدھار لائیں گے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔

تازہ ترین