مملکتِ خدادادا پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین محل وقوع، زرخیز خطۂ زمین و اذہان، بڑی آبادی اور چار موسموں سمیت دیگر بیش بہا وسائل سے نوازا ہے۔ یہ تمام ذرائع کسی بھی ملک کی معیشت کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور کسی بھی ملک کی پائے دار ترقی اور اس کے عوام کی خوش حالی میں معیشت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نیز، معیشت کے استحکام اور کم زوری کے اثرات ملک کے دوسرے شعبوں پر بھی نظر آتے ہیں۔
لہٰذا معیشت کی اس اہمیت کے پیشِ نظر روزنامہ جنگ نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملکی اقتصادیات کے عروج و زوال اوراس پر عالمی معیشت کے اثرات کا بھرپور انداز میں احاطہ کیا۔ روزنامہ جنگ کے مستعد رپورٹرز نے اپنی امتیازی اور تحقیقاتی رپورٹنگ سے نہ صرف قارئین کو معیشت کے اتار چڑھائو سے با خبر رکھا بلکہ صنعت کاروں اور کاروباری افراد کو بھی اپنی آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے میں مدد دی۔
دوسری جانب روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے جید ماہرین معیشت کے تبصروں، تجزیوں نے عوام اور صنعت و حرفت سے وابستہ افراد کے علاوہ اہل بست کو کشاد کو بھی مستقبل میں جھانکنے اور پیش بندی کا موقع فراہم کیا۔ روزنامہ جنگ نے اپنے قارئین کو عالمی معیشت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بروقت آگہی دینے کے لیے دی اکنامسٹ اور فنانشل ٹائمز سمیت دنیا کے دیگر موقر اور مستند ترین اخبارات و جرائد میں شایع شدہ تحقیقی اور معلوماتی آرٹیکلز کے اردو تراجم شایع کیے۔
قیام پاکستان کے وقت بڑے پیمانے پرمہاجرین کی آمد اور ان کی آباد کاری کے لیے درکار وسائل کی بات ہو یا امریکی امداد کی، آئی ایم ایف سے تعلق کا قضیہ ہو یا بیرونی و اندرونی قرضوں کا سلسلہ، پاک، بھارت جنگوں کے معیشت پر اثرات کا معاملہ ہو یا سقوط ڈھاکا کی بعد کی صورت حال، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی معاونت کے ’’ثمرات‘‘ کا تذکرہ ہو یا کورونا کی تباہ کاریاں، روزنامہ جنگ نے اپنے قارئین کے لیے معیشت کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی معیشت نیم صنعتی تھی۔ یہ ٹیکسٹائلز، زراعت اور خوراک کی پیداوار پر مشتمل تھی جب کہ بعد ازاں ٹیکنالوجی کی وجہ سے اس میں تنوع پیدا ہوا۔ ملک میں سیاسی بے یقینی اور بدعنوانی کی وجہ سے عمومی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کی سطح پست رہی۔ تاہم مجموعی طور پر بھارت سے ہونے والی تین جنگوں، سقوطِ ڈھاکا اور فوجی اور سیاسی حکومتوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کے باوجود ملک کی معیشت کی بڑھوتری بہتر رہی۔ گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستانی معیشت نے عروج و زوال کے متعدد ادوار دیکھے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں مجموعی داخلی پیداوار یا جی ڈی پی کا حجم تقریباً 10ارب روپے تھا جب کہ پاکستان میں قائم بینکوں میں جمع شدہ رقم کا مجموعی حجم ایک ارب روپے سے کچھ زاید تھا اور آزادی کے ابتدائی برسوں میں ان بینکوں کا ٹیکس سے قبل منافع نہ ہونے کے برابر تھا۔ قیام پاکستان کے وقت ایک امریکی ڈالر 3روپے30پیسے کے برابر تھا۔ پاکستان کی بیرونی تجارت کا حجم انتہائی کم تھا۔ گرچہ قیام پاکستان کے بعد حکومتوں کی توجہ مملکت خداداد پاکستان کو بھارت کی طرف سے ملنے مسائل کے خاتمے پر مرکوز تھی مگر اس کے ساتھ ہی اس وقت بھی حکومتوں نے ملکی معیشت کو صنعتوں کے قیام سے مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
صدر ایوب خان کے دور حکومت میں امریکی امداد کے نتیجے میں ملکی معیشت کو تقویت ملی اوراس دور میں صنعت کاروں نے ملک میں نئی صنعتیں لگائیں جس کے سبب روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ تاہم اس دور میں 22 امیر خاندان بھی مشہور ہوئے۔ ایوب خان کے دور میں دوسرے پانچ سالہ منصوبے کا اعلان ہوا۔ اسی دور میں غریب اور امیر کا فرق اور ملک کے دونوں بازوئوں میں عدم اعتماد کا بحران بڑھا۔
علاوہ ازیں 1965ء کی جنگ کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے جب کہ امریکا نے پاکستان کی امداد بھی روک دی۔ 1960ء کی دہائی کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کو دنیا بھر میں ایک ماڈل سمجھا جاتا تھا اوراس کی تیز رفتار ترقی کی پوری دنیا نے تعریف کی۔ اس دوران کئی ممالک نے پاکستان کی اقتصادی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کی۔ ان ممالک میں جنوبی کوریا بھی شامل ہے جس نے ’’دوسرے پانچ سالہ منصوبے‘‘ کو نقل کیا۔
1950ء کی دہائی کے دوران اقتصادی نمو کی شرح 3.1 فی صد سالانہ رہی۔ اس عشرے میں سیاسی اورمعاشی عدم استحکام اور وسائل کی کمی کے باعث قوم کی ضروریات پوری کرنے میں مسائل درپیش تھے۔ 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کرنسی کا تنازع پیدا ہوا۔ 1950ء کی دہائی کے وسط میں یہ مسئلہ حل ہونے تک دونوں ممالک کے تجارتی روابط تنائو کا شکار رہے۔ 1951-52ء اور 1952-53ء میں مون سون کی بارشوں سے آنے والے سیلابوں سے مزید معاشی مسائل پیدا ہوئے۔
نیز ملک کے مغربی اور مشرقی بازوئوں میں یکساں ترقی نہیں ہوئی۔ صدر ایوب خان کے 11 سالہ دور حکومت میں، جو 27 اکتوبر 1958ء سے 25 مارچ 1969ء تک جاری رہا، معاشی ترقی کی شرح بلند رہی۔ اس عرصے میں ملک میں آٹو موبائل اور سیمنٹ سمیت دیگر صنعتیں قائم ہوئیں۔ علاوہ ازیں حکومت نے تربیلا اور منگلا ڈیم سمیت نہریں اور پاور اسٹیشنز قائم کیے۔ نیز، اسی دور میں پاکستان کا خلائی پروگرام بھی شروع کیا گیا۔ علاوہ ازیں ایوب خان کے دور میں زرعی اصلاحات بھی کی گئیں۔ ابلتہ ٹیکس وصولی کی شرح اوسطاً جی ڈی پی کے 10 فی صد سے بھی کم رہی۔
1970ء کے عشرے میں ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہو گئی۔ علاوہ ازیں اسی عشرے میں سقوط ڈھاکا کی وجہ سے بھی پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوئی۔ 1970ء کی دہائی ہی میں صنعتوں کو قومیانے کا عمل شروع ہوا۔ علاوہ ازیں1973ء کے تیل کے عالمی بحران کی وجہ سے پاکستان کے لیے امریکی امداد میں کمی واقع ہوئی جس کے آگے چل کر معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا اور ان کی حکومت نے بڑی بڑی صنعتوں کے علاوہ بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور تعلیم سمیت دیگر اداروں کو بھی قومیا لیا۔
علاوہ ازیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت ہی میں پورٹ قاسم، پاکستان اسٹیل ملز اور ہیوی میکینیکل کمپلیکس سمیت کئی سیمنٹ فیکٹریوں کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم، صنعتوں کو قومیانے کے نتیجے میں 1960ء کی دہائی کے مقابلے میں 1970ء کی دہائی کے دوران سالانہ شرح نمو میں کمی واقع ہوئی۔ دوسری جانب قومیائے گئے ادارے اور صنعتیں بھی خسارے میں چلی گئیں۔ مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوا جب کہ 1971ء سے 1977ء کے دوران افراط زر کی شرح اوسطاً 16 فی صد تک بڑھ گئی۔ 1970ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو برسر اقتدار آئے تو انہیں بھارت سے جنگی قیدی واپس لانے، بنگلا دیش تسلیم کرنے اور قوم کا مورال بلند کرنے جیسے سخت مراحل سے گزرنا پڑا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دورمیں کچھ اہم نوعیت کے صنعتی منصوبے شروع کیے گئے جن پاکستان اسٹیل ملز بھی شامل ہے۔ نیز، پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور کی روشنی میں نجی شعبے کے کچھ اداروں اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا عمل شروع ہوا۔ قومیانے کی پالیسی کے نتائج ملے جلے رہے۔
1980ء کی دہائی میں ڈی ریگولیشن کی پالیسی کی وجہ سے پاکستانی معیشت بحال ہونا شروع ہوئی۔ نیز، غیر ملکی امداد اور ترسیلاتِ زر میں بھی اضافہ ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں صنعتوں پر سے حکومتی کنٹرول ختم ہوا، ادائیگیوں کے توازن میں پائے جانے والے خسارے پر قابو پا لیا گیا اور پاکستان خوردنی تیل کے سوا دوسری بنیادی اشیائے خوردونوش میں خود کفیل ہو گیا۔ ضیاء الحق کے دور حکومت ہی میں تارکین وطن پاکستانیوں کی ترسیلات زر سے معیشت کو طاقت ملی جو 1982-83ء تک 3ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔
ضیا دور میں پاکستان کو افغان جنگ امریکی اعانت کی وجہ سے اربوں ڈالرز کی امداد بھی ملی جس سے معیشت میں بہتری واقع ہوئی۔ 1971ء کی دہائی کے آخر میں جنرل ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کے باعث پاکستان کو ملنے والی امداد کی وجہ سے معیشت میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ بعد ازاں 1980ء کی دہائی میں خلیجی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ سے معیشت کے شعبوں میں بہتری کے آثار نظر آئے اور پاکستان میں غربت میں بھی کمی ہوئی۔
تاہم یہ بہتری دیرپا ثابت نہیں ہوئی کیونکہ ملکی وسائل بڑھانے اور معیشت کو پائیدار بنیادروں پر استوار کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا نہیں گیا تھا۔ ضیاء الحق کے بعد بھی اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تحت پاکستان آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسنے والا پاکستان اس شکنجے سے نہیں نکل سکا اور ان کے بعد اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا اپنا فرض منصبی سمجھا۔
1990ء کی دہائی میں بار بار پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں۔ اس دوران ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے معیشت متاثر ہوئی۔ 1990ء کی دہائی میں جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہو کر 4 فی صد ہو گئی اور قرضوں کے بحران میں اضافہ ہوا۔ برآمدات منجمد ہو گئیں اور افراط زر 18 سے 34 فی صد تک پہنچ گیا۔ اگرچہ مذکورہ بالا دونوں جماعتوں نے نج کاری کی حوصلہ افزائی کی لیکن وہ اس حوالے سے بنائی گئی پالیسیوں کو کامیابی سے نافذ العمل نہ کرسکیں اور دونوں نے اس کی ذمے داری سیاسی غیر یقینی صورت حال اور جمہوری عمل میں مقتدر حلقوں کی مداخلت پر ڈال دی۔ 1998ء میں ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان پرمعاشی پابندیاں نافذ کر دی گئیں۔1990ء کی دہائی میں جمہوری حکومتوں کی بار باربرطرفی سے کسی بھی حکومت کو سنبھل کر کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا جس کے معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہوئے۔
اسی بنا پر 1990ء کی دہائی کو معیشت کی کارکردگی کے لحاظ سے ناکام دہائی قرار دیا گیا ہے مگر یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1990ء کی دہائی میں اوسط سالانہ شرح نمو 2000ء کی دہائی سے زیادہ رہی۔ جی ڈی پی کے تناسب سے 2000ء کی دہائی کے مقابلے میں 1990ء کی دہائی میں مجموعی سرمایہ کاری اور ٹیکسوں کی وصولی کا تناسب بہتر رہا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ترقیاتی اخراجات اور تعلیم کی مد میں کیے جانے والے اخراجات کا تناسب بھی بہتر رہا۔ البتہ 1990ء کی دہائی میں افراط زر اور بجٹ خسارے میں زبردست اضافہ ہوا۔
2001ء میں جنرل پرویز مشرف پاکستان کے صدر بنے اور انہوں نے بھاری اندرونی اور بیرونی قرضوں، اونچے مالی خسارے اور کم ٹیکس وصولی، غربت اور بے روزگاری میں اضافے اور ادائیگیوں کے کمزور توازن پر قابو پانے کے لیے کوششیں شروع کیں۔ اس دور میں پاکستان کو قرضوں اور درآمدات کی وجہ سے ہونے والی مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے درکار غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا تھا۔ ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں واضح کمی آئی تھی اور پاکستان کی نجی سرمائے کی مارکیٹس تک رسائی بھی نہیں تھی۔
بہتر پالیسیوں اور اقتصادی نظم و ضبط کی وجہ سے 2002ء سے 2007ء کے دوران معاشی نمو میں تیزی آئی۔ 1999ء سے 2008ء تک جاری رہنے والے پرویز مشرف کے دور میں کم و بیش 11.8 ملین نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ اسی عرصے میں پرائمری اسکولز میں بچوں کے داخلے میں اضافہ ہوا اور قرضوں کے جی ڈی پی کے تناسب 100 سے کم ہو کر 55 فی صد ہو گیا۔ علاوہ ازیں مالی ذخائر 2004ء میں بڑھ کر 10.7 ارب ڈالرز ہو گئے جو اکتوبر 1999ء میں 1.2 ارب ڈالرز تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں افراط زر کی شرح میں کمی واقع ہوئی، سرمایہ کاری کی شرح میں جی ڈی پی کے 23 فی صد اضافہ ہوا اور 14 ارب ڈالرز پر مشتمل غیر ملکی نجی سرمایہ کاری ملک میں آئی۔
علاوہ ازیں اس عرصے میں شرح مبادلہ بھی بہتر رہی۔ دوسری جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی معاونت کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالرز ملے جس کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بہتری واقع ہوئی۔ پرویز مشرف کے اقتدار کے پہلے تین برسوں میں معیشت کی شرح نمو1990ء کی دہائی کی اوسط سالانہ شرح نمو سے کم تھی۔ نائن الیون سے پہلے مشرف دور میں مالی سال 2001ء میں معیشت کی شرح نمو صرف2فی صد رہی۔ اسی مالی سال میں پاکستان کے مجموعی قرضوں میں599ارب روپے کا اضافہ ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی مالی سال میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ تھا۔ مالی سال2002ء میں افراط زر کی شرح3.9فیصد تھی جو مالی سال2008ء میں بڑھ کر 12.9فیصد ہو گئی۔
اسی مدت میں جی ڈی پی کے تناسب سے قومی بچتوں، داخلی بچتوں اور ٹیکس وصولی میں زبردست کمی ہوئی جب کہ جی ڈی پی کے تناسب سے اسی مدت میں بجٹ خسارہ 4.3فی صد سے بڑھ کر 7.3فی صد، تجارتی خسارہ 0.4فی صد سے بڑھ کر 8.8فی صد اور جاری حسابات کا خسارہ 1.9فی صد سے بڑھ کر 8.2فی صد ہو گیا جو اب تک پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت سے امریکا نے پاکستان کے کچھ قرضوں کومعاف کیا، پیرس کلب نے 2.5ارب ڈالرز کے قرضوں کی تنظیم نو کی۔ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات میں اضافہ ہوتا رہا پرویز مشرف کی حکومت نے2005ء میں اپنے دور کو معیشت کی کارکردگی کے لحاظ سے ’’سنہرا دور‘‘قرار دیا۔
جنرل پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد 2008ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ آصف علی زرداری کے دور صدارت اور یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پر تشدد واقعات اور بد عنوانی میں اضافہ ہوا۔ نیز، اسی عرصے میں غیر پائیدار اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت ایک مرتبہ پھر جمود کا شکار ہو گئی۔ معشیت کی شرح نمو 4.09 فی صد تک گر گئی جب کہ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے دور 2004ء سے 2008ء میں یہ شرح 8.96 سے 9.0 فی صد رہی جب کہ سالانہ شرح نمو اوسطاً 5.0 فی صد سے کم ہو کر کم و بیش 2.0 فی صد ہو گئی۔
پیپلز پارٹی کے دور میں26 ستمبر 2008ء کو فرینڈز آف پاکستان گروپ کا ایک اعلامیہ جاری ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو سست اور افراط زر کی شرح اونچی رہی جب کہ جی ڈی پی کے تناسب سے بیرونی سرمایہ کاری، داخلی بچتوں اور ٹیکسوں کی وصولی کم رہی اور بجٹ خسارہ بڑھا۔ پیپلزپارٹی کو2008ء میں جی ڈی پی کے تناسب سے 8.2 کا زبردست جاری حسابات کا خسارہ ورثے میں ملا تھا جو مالی سال2011ء میں مثبت ہو گیا۔ 2013ء میں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تو اسے توانائی کی قلت کے باعث نہایت کمزور معیشت ملی۔ مسلم لیگ (ن) کو تیزی سے بڑھتے افراط زر، سست رفتار شرح نمو، قرضوں کی بلند سطح اور بڑے بجٹ خسارے کا سامنا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے بعد فوراً بعد آئی ایم ایف سے 6.3 ارب ڈالرز کا توسیعی فنڈ پروگرام لیا اور اس کے بعد توانائی کی قلت میں کمی، محصولات میں اضافے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے، سکیورٹی بہتر ہونے، ترسیلات زر بڑھنے اور صارفین کی جانب سے خریداری میں اضافے کے سبب مالی سال 2014-15ء میں شرح نمو سات برس کی بلند ترین سطح 4.3 فی صد تک پہنچ گئی جب کہ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں 10 ارب ڈالرز تک بڑھ گئے۔ مئی 2014ء میں آئی ایم ایف نے اس بات کی تصدیق کی کہ 2014ء میں افراط زر کم ہو کر 13 فی صد ہو گیا جو 2008ء میں 25 فی صد تھا۔ اس بہتری کے نتیجے میں پاکستان کی رینکنگ بھی مستحکم ہو گئی۔
نواز شریف کے 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ انہیں تباہ حال معیشت ورثے میں ملی ہے اور پھر جلد ہی پاکستان نے نئے قرضوں کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کر لیا۔ مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور میں معیشت کی شرح نمو کسی بھی مالی سال میں 4فی صد سے کم نہیں رہی جب کہ افراط زر کی اوسط شرح تقریباً 4.1فی صد رہی۔
مالی سال 2013ء کے مقابلے میں مالی سال 2018ء میں جی ڈی پی کے تناسب سے مجموعی سرمایہ کاری، قومی بچتوں، ٹیکسوں کی وصولی اور بجٹ خسارے میں بہتری آئی جب کہ جاری حسابات کا خسارہ جو مالی سال2013ء میں صرف1.1فی صد تھا، مالی سال2018ء میں بڑھ کر 6.1فی صد ہو گیا۔ مسلم لیگ ن کے دور میں بہرحال انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے، بجلی کی پیداوار بڑھانے اور سی پیک کے ضمن میں اچھی پیش رفت ہوئی۔ البتہ 2014ء میں دھرنے کی سیاست اوراحتجاجی تحریکوں سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام ستمبر 2016ء میں اختتام پذیر ہوا۔ اگرچہ پاکستان کئی اصلاحات نہ کر سکا لیکن اس پروگرام کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو استحکام ملا۔ پاکستان کی کریڈٹ لائن بہتر ہوئی اور شرح نمو کو بھی تقویت ملی۔ دوسری جانب 2015ء سے پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں نسبتاً مستحکم رہی۔ بعد ازاں نومبر 2017ء اور مارچ 2018ء کے دوران اس میں 10 فی صد کمی واقع ہوئی۔ علاوہ ازیں درآمدات میں قابل ذکر اضافے، برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی کے باعث ادائیگیوں میں توازن کے حوالے سے خدشات پیدا ہوئے۔ 2016ء میں عالمی اداروں اور غیر ملکی ماہرین معیشت نے پاکستان کی معاشی ترقی کو حوصلہ افزا قرار دیا ۔
پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے انتخابات سے پہلے ایک10 نکاتی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے 100روز کے اندر عدل پر مبنی ٹیکس کی پالیسی نافذ کر دی جائے گی۔ یعنی وفاق اور صوبے میں ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عاید کر دیں گے۔ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا اور کالے دھن کو سفید ہونے سے روکا جائے گا۔ نیز، ہنگامی بنیاد پر ان وجوہات کو دور کیا جائے گا جن کی وجہ سے گردشی قرضہ پیدا ہوتا ہےاورتوانائی کے شعبے میں اصلاحات نافذ کی جائیں گی۔
تاہم، اس کے برعکس پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا، پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے تین برسوں میں معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو صرف 1.9فیصد رہی جب کہ اسے 5.5فی صد کی شرح نمو ورثے میں ملی تھی۔ تحریک انصاف کے دور میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے غیر ضروری طور سے اگست2018ء سےجولائی2019ء کی مدت میں شرح سود 7.5فی صد سے بڑھا کر 13.25فی صد کر دی جب کہ اگست 2018ء کے بعد تیز رفتاری سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 124.20روپے سے گرا کر جون2019ء میں162روپے کر دی حالاں کہ بنیادی ضرورت معیشت کےمختلف شعبوں میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنی تھیں۔ ان دونوں ناقابل فہم اقدامات سے ملکی معیشت کو6 ہزارارب روپے کا جھٹکا لگا۔
اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو متعدد چیلنجزکا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں مالیاتی عدم استحکام، غربت اور صحت و تعلیم کی ناکافی سہولتیں شامل تھیں مگر تین برسوں میں ترقی کے حوالے سے مختلف مراحل طے کیے گئے۔ کووڈ 19 کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے سمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی اختیار کی گئی اور پاکستان کو ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے وبا سے نمٹنے کے لئے دنیا کا تیسرا بہترین کارکردگی دکھانے والا ملک قرار دیا۔ ادھر عام آدمی کی ترقی کے لئے حکومت نے کم آمدن والے طبقات کو سستی رہائش فراہم کرنے کے لئے نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام، سماجی تحفظ کے لئے احساس پروگرام، نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیلئے کامیاب جوان پروگرام شروع کیے۔
تاہم گزشتہ تین سال میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، محصولات کی وصولی، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ کے ساتھ کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے قدر میں کمی کے باعث ملک میں مہنگائی بے تحاشا اضافہ ہوا۔ نئے ٹیکسز میں 1700 ملین روپے اضافے کے باوجود جی ڈی پی کی شرح کے اعتبار سے ٹیکس ریونیو کی اس سطح میں کمی آئی جہاں پی ایم ایل این نے چھوڑی تھی، ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ سامنے آیا (پی ایم ایل این کے اوسطاً 1664 ارب روپے کے مقابلے میں جی ڈی پی کا اوسط 8 فیصد یا 3408 روپے)، کسی دوسری حکومت کے مقابلے میں زیادہ قرض لیا (پچھلے 71 برسوں میں لیے گئے تمام قرضہ جات کا دو تہائی)، اپنے پراپرٹی ٹائیکون دوستوں کو مستقل ایمنسٹی دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مزید 60 لاکھ پاکستانی بے روزگار ہو گئے، 2 کروڑ غربت کے منہ میں دھکیل دیے گئے اور پاکستان دنیا کی بڑی معیشتوں میں تیسرا سب سے زیادہ افراط زر رکھنے والا ملک بن گیا۔
پہلے دو برسوں میں قدرمیں 43 فیصد گراوٹ اور برآمدات میں کمی کے بعد تیسرے برس انہیں صرف 3فیصد تک بڑھایا گیا، رواں برس پاکستان کی برآمدات 25 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ (ڈالر کی غیر مستقبل مزاجی سے 2018 کے مقابلے میں اضافہ کم و بیش 10 فیصد ہے) تاہم درآمدات میں 65 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس برس ہمیں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی خسارے (جی ڈی پی کے 15 فیصد سے زاید ) کا سامنا ہو گا۔ تاہم سفری پابندیوں کی وجہ سے اضافہ شدہ ترسیلات زر کے لیے رواں خسارہ بھی ملکی تاریخ کا دوسرا بدترین خسارہ ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف کے آخری سال 2007-08 میں جی ڈی پی کے 8.1فیصد کے بعد دوسرا بڑا خسارہ ہے۔