• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے، دونوں طرف سے ووٹوں کی خریداری زور و شور سے جاری ہے، تحریک انصاف کے 24ایم این ایز نے فی الحال اپنا الگ گروپ بنا لیا ہے۔ باپ کے 4ممبران پی ڈی ایم میں شامل ہوچکے ہیں۔ وزیر اعظم نے بھی سرپرائزز دینا شروع کر دیے ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹا کر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا ہے۔مسلم لیگ (ق)میں بھی پھوٹ پڑ چکی ہے اور طارق بشیر چیمہ (ق)لیگ سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔ میں چند حقائق قوم کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے:

یہ کہانی ہے پاکستانی سیاست کے الیکٹ ایبلز کی، جس کی حکومت آنے والی ہو یہ سب اس پارٹی میں چلے جاتے ہیں۔ 2002 الیکشن میں مسلم لیگ (ن)کے 140 اراکین مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے۔ 2008 کے انتخابات میں 90 ارکان مسلم لیگ (ق)چھوڑ کر پی پی پی میں شامل ہو گئے۔ 2013کے الیکشنز میں 120ارکان اسمبلی پی پی پی کو چھوڑ کر دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں آ گئے۔ 2018 میں انہی ارکان کو پی ٹی آئی جوائن کروادی گئی جن کی تفصیلات پیش خدمت ہیں: 1993میں شاہ محمود قریشی مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں گئے،سردار امجد کھوسہ مسلم لیگ میں چلے گئے، 1999میں شفقت محمودپیپلز پارٹی سے آل پاکستان مسلم لیگ میں، 2002میں خسرو بختیار، عامر سلطان چیمہ، عمر اسلم اعوان، شیخ رشید بھی مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ (ق) میں، 2004 میں غلام سرور، طارق بشیر چیمہ پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ق) میں، پرویز خٹک بھی پیپلز پارٹی سے شیر پائو گروپ میں چلے گئے۔ 2006 میں سید فخر امام مسلم لیگ (ق) سے پیپلزپارٹی میں، 2008 میں فردوس عاشق اعوان مسلم لیگ (ق) سے پیپلزپارٹی میں، 2008میں ثنا اللہ مستی خیل مسلم لیگ (ق)سے مسلم لیگ (ن)میں اور 2008 میںشیخ رشید مسلم لیگ (ق)سے عوامی مسلم لیگ میں، شیریں مزاری آل پاکستان مسلم لیگ سے تحریک انصاف میںچلی گئیں۔2011میںجاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن)سے تحریک انصاف میں،شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں، شفقت محمود آل پاکستان مسلم لیگ سے تحریک انصاف میں،پرویز خٹک شیر پائوگروپ سے تحریک انصاف میں،میاں محمدسومرو مسلم لیگ (ق)سے تحریک انصاف میں، اعظم خان سواتی جے یو آئی سے تحریک انصاف میںچلے گئے۔2012میں فواد چوہدری آل پاکستان مسلم لیگ سے پیپلز پارٹی میںاورعمر ایوب مسلم لیگ (ق )میں شامل ہوئے۔ 2013میںنیاز احمد جھکڑمسلم لیگ (ق) سے پیپلز پارٹی،سید فخر امام پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن)میں۔ غلام سرورمسلم لیگ (ق)سے تحریک انصاف میں،خواجہ شیرازمسلم لیگ (ق)سے پیپلزپارٹی میںاوررانا قاسم واپس پیپلز پارٹی میں آگئے۔ خسرو بختیار مسلم لیگ (ق)سے مسلم لیگ (ن )میں چلے گئے اور شیریں مزاری پی ٹی آئی میں آگئیں۔ باسط سلطان بخاری مسلم لیگ (ق)سے مسلم لیگ (ن)میں، مجاہد علی پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں،جعفر خان لغاری،عاصم نذیر، زبیدہ جلال، صاحبزادہ محبوب سلطان، غلام بی بی بھروانہ، عامر طلال گوپال مسلم لیگ (ق)سے مسلم لیگ (ن)میں، احمد حسین ڈیہڑپیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن)میں اور رمیش کمار بھی مسلم لیگ (ن)میں آگئے۔2013میں سردار نبیل گبول پیپلز پارٹی چھوڑ کر متحدہ قومی موومنٹ میں چلے گئے۔ 2014میں جاوید ہاشمی تحریک انصاف چھوڑ گئے، 2015میں ریاض فتیانہ مسلم لیگ (ق)سے تحریک انصاف میں اور سردار نبیل گبول متحدہ قومی موومنٹ چھوڑ کر واپس پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔2016میں رانا قاسم نون پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن)میں، فواد چوہدری مسلم لیگ (ق)سے تحریک انصاف میں،راجہ ریاض پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں، حسین ڈیہڑمسلم لیگ (ن ) سے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ نزہت پٹھان مسلم لیگ ہم خیال سے تحریک انصاف میں، فردوس عاشق اعوان پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں،میجر طاہر صادق مسلم لیگ (ن)سے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ 2018میں جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن)میں چلے گئے۔ زبیدہ جلال مسلم لیگ (ن)سے باہر چلی گئیں۔فہمیدہ مرزا پیپلز پار ٹی سے باہر چلی گئیں۔عمر ایوب، فخر امام، طاہر اقبال چیمہ،خسرو بختیارمسلم لیگ (ن)سے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ عامر سلطان مسلم لیگ (ق)سے تحریک انصاف میں،باسط سلطان بخاری مسلم لیگ (ق)سے تحریک انصاف میں،نیاز احمد جھکڑ، خواجہ شیراز محمود بھی پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ جعفر خان لغاری،ثنا اللہ مستی خیل،عاصم نذیر مسلم لیگ (ن)سے تحریک انصاف میں، شوکت ترین پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں، صاحبزادہ محمود سلطان، غلام بی بی بھروانامسلم لیگ (ن )سے تحریک انصاف میں،عامر لیاقت ایم کیو ایم سے تحریک انصاف میں، ندیم افضل چن،امتیاز صفدرپیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں، سردار امجد فاروق، رضا نصراللہ گھمن، افضل ڈھانڈلا، رانا قاسم، عامر طلال مسلم لیگ (ن )سے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ نصراللہ دریشک،جاوید اقبال ورائچ، عبدالشکور شادبھی تحریک انصاف میں چلے گئے۔شوکت علی بھٹی مسلم لیگ (ق) سے تحریک انصاف میں، میاں محمود شفیق، نواب شیر وسیرپیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں، رمیش کماربھی مسلم لیگ (ن) سے تحریک انصاف میں، نور عالم بھی پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں چلے گئے۔ یہ تو 2018تک کی حکومت کی کہانی ہے۔ اب اگلی حکومت آنے سے پہلے کتنے لوٹے کس پارٹی میں جاتے ہیں؟یہ جلد واضح ہو جائے گا۔ بظاہر یہ نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کو نمبروں میں تو شکست دی جا چکی ہے مگر آسمانی اور سلطانی فیصلے کا انتظار ہے۔ بقول شخصے ہنوزدلی دور است۔

تازہ ترین