• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اتوار کے روز قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن ڈپٹی اسپیکر نے عمران خان کی حکومت کو بچانے کیلئے آئین سے انحراف کیا۔

 پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں فوجی آمریتوں نے اتنی بار آئین کو تاراج کیا ہے کہ اب اشرافیہ کا ایک طبقہ کندھے اچکا کر کہتا ہے کہ آئین ہی تو ٹوٹا ہے کوئی قتل تو نہیں ہوا۔ کچھ بذلہ سنج سنائی دیئے کہ توہینِ آئین ہی ہوئی ہے کوئی توہینِ عدالت تو نہیں ہوئی۔

عمرانی حکومت کے مصاحب یہ بھی کہتے پائے گئے کہ آئین شکنی سے کوئی دال سبزی تو مہنگی نہیں ہوئی۔ پارلیمان میں آئین شکنی کی توجیہہ ایک بیرونی سازش کو بنایا گیا جس کا ڈھول عمران خان ایک ہفتہ پہلے سے بجانا شروع ہوگئے تھے۔

عمران کا دعویٰ ہے کہ ایک بیرونی خط یہ کہتا ہے کہ امریکہ عمران خان کی حکومت کو گرانا چاہتا ہے، عمران نے اسی پر بس نہیں کی اور الزام لگایا کہ متحدہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کیلئے پیسہ اور ساز باز امریکہ کیساتھ کی گئی۔

قوم کو عمران خان کے یوٹرن کی عادت ہوگئی ہے لیکن بیرونی سازش کا لغو الزام عمران خان نے اپنی آئین شکنی کیلئے استعمال کیا ہے۔

پاکستانی قوم نے بارہا ثابت کیا ہے کہ چالیس سال کی براہ راست اور بیس سال کی بالواسطہ آمریت کے باوجود جب بھی انہیں موقع ملا، انہوں نے جمہوریت کا انتخاب کیا۔

ہماری جمہوریت کی بنیاد 1973ء کا آئین ہے، جو اقتدار کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے اور اس ملک میں رہنے والوں کو بنیادی انسانی اور شہری حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

آئین کا تعطل دراصل قوم کا قتل ہے اور قوم کی بنیاد پر کاری ضرب لگاتا ہے۔آئین سے انحراف نے ہی پاکستان کو دو ٹکڑے کیااور پاکستان کو تین مشرقی دریاؤں کے پانی سے محروم کیا۔

سیاچن پر بھارتی تسلط کو ممکن بنایا اور بلوچستان میں ایک نہ ختم ہونے والی شورش کو ہوا دی۔اسی نے ہی پاکستان کو قومی سلامتی کے اضطراب میں باندھ کر ترقی سے محروم کردیا۔

عمران خان کی حکومت آئین سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ میڈیا، عدلیہ، انتخابات اور پارلیمان پر غیر آئینی دباؤعمران خان کو قوم پر مسلط کرنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوا۔

عمران خان نے اس قدر مہنگائی کی کہ آج غریب خود کشیوں پر اور اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کھنڈر شاہراہ دستور پر دیکھا جاسکتا ہے اور پاکستان کی جمہوریت کے چیتھڑے پارلیمان پر آویزاں ہیں۔ہمیں اس اصول پر اصرار کرنا ہے کہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں آئین شکنی ناقابل معافی اور لائقِ تعزیر ہے۔

بیرونی سازش کے معاملے میں بھی دودھ اور گٹر کے پانی کو علیحدہ کرنا ہے,جس خط کو عمران خان نے 27مارچ کے جلسے میں لہرایا ایسا کوئی خط موجود ہی نہیں۔

واشنگٹن میں متعین سفیرِپاکستان کی طرف سے ایک سفارتی مراسلہ بھیجا گیاجس میں مبینہ طور پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لُو نے امریکہ اور پاکستان کے خراب تعلقات کے بارے میں گفتگو کی۔

شواہد کا ایک ٹکڑا بھی موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ امریکہ کا پاکستان کی پارلیمان میں دائر کردہ تحریک عدم اعتماد سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ہے,یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں نہ ہی کسی سازش کا ذکر ہے اور نہ ہی پاکستانی سفیر کے مراسلے کی مزید تفتیش کی ہدایت دی گئی۔

قومی سلامتی کمیٹی نے اپنی سفارشات کومعمول کے تنبیہی مراسلوں تک محدود رکھا۔

ڈپٹی اسپیکر نے آئین کی شق 5کا غلط استعمال کرتے ہوئے 198اراکین اسمبلی کو غدار قرار دیدیا, یہ 198اراکین اسمبلی ایک درجن سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور 2018کے انتخابات میں ڈالے گئے 70فیصد ووٹوں کے حامل ہیں جنہیں بیک جنبش قلم غدار قرار دیدیا گیا۔

 پوری اپوزیشن کو بغیر شواہد، بغیر ثبوت،بغیر عدالتی کارروائی غدار قرار دینا صرف قواعد کی بے ضابطگی نہیں،آئین شکنی اور پاکستان کی جمہوریت کی تحقیر ہے۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد عمران خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کا غیر آئینی حکم جاری کردیا۔

آئین کے مطابق جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہوجائے وزیر اعظم اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار کھوبیٹھتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ وزیر اعظم کو تحلیل کا اختیار صرف اس بنیاد پر دیا گیا کہ وہ اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد رکھتے ہیں۔

ایک ایسا وزیرا عظم جس کیخلاف 198ممبران کی بھاری اکثریت عدم اعتماد کا ووٹ دینے کیلئے اسمبلی میں موجود ہو، وہ اس ایوان کو تحلیل نہیں کرسکتا۔

کچھ بہی خواہوں کی نصیحت ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے نتیجے میں 90روز میں انتخابات ہونے ہیں لہٰذا آئینی بحثیں چھوڑ کر نئے انتخابات کی تیاری کی جائے۔یہ مفروضہ یکسر غلط ہے  جس آئین کے تحت نئے انتخابات ہونے ہیں، اسی سے تو عمران خان نے انحراف کیا ہے جب تک آئین کو دوبارہ توقیر نہیں دی جاتی تب تک نئے انتخابات آئین شکنی کو دوام دیں گے اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہونگے۔

پاکستان کی عدلیہ کی جمہوری تاریخ داغدار ہے، لیکن آج عدلیہ کے پاس موقع ہے کہ وہ 22کروڑ پاکستانیوں کے آئین کی عزت بحال کرے اور آئین شکنی کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانون چارہ جوئی کرے۔

یہ حکم صحیح معنوں میں پاکستان کو اکیسویں صدی میں داخل کریگا اور سبز ہلالی پرچم کو دنیا میں اونچا کرے گا۔ پاکستان کو نظریہ ضرورت کی نہیں، نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین