• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کیلئے PTI کی درخواست دائر

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 7 اپریل 2022ء کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست عدالتِ عظمیٰ میں دائر کر دی گئی۔

عدالتی فیصلے پر نظرِثانی کی درخواست عدالتِ عظمیٰ میں سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

درخواست بابر اعوان اور محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں 5 رکنی بینچ کے 7 اپریل کا حکم واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ قومی اسمبلی کو آرٹیکل 69 کے تحت ٹائم ٹیبل نہیں دے سکتی، تحریکِ عدم اعتماد یا وزیرِ اعظم کا انتخاب 1973ء کے آئین میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو اختیار نہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے معاملات کو مائیکرو مینیج کرے۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے آرٹیکل 5 کے تحت رولنگ دی، یہ رولنگ آئینی تھی۔

درخواست میں تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ عدالت اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کر کے اسے واپس لے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 7 اپریل کے فیصلے کے تحت اسمبلی میں ہونے والی کارروائی کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔

7 اپریل کو سپریم کورٹ نے کیا فیصلہ دیا؟

واضح رہے کہ جمعرات 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا، تمام وزیر اپنے عہدوں پر بحال ہو گئے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے پانچ صفر سے متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ آئین کے خلاف قرار دے کر کالعدم کر دی، وزیرِ اعظم عمران خان کی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی مسترد کر دی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وزیرِ اعظم آئین کے پابند تھے، وہ صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں کر سکتے تھے، قومی اسمبلی بحال ہے، تمام وزیر اپنے عہدوں پر بحال ہیں، اسپیکر کا فرض ہے کہ اجلاس بلائے۔

عدالتِ عظمیٰ نے اسپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس فوری بلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 9 اپریل کو صبح 10 بجے سے پہلے پہلے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران کسی رکنِ قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے، تحریکِ عدم اعتماد کا عمل مکمل ہونے تک اجلاس مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔

قومی خبریں سے مزید