• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی حکومت اور اپوزیشن نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ سیاست دان ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ یہ ہماری قوم اور نئی نسل کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ دیکھئے! انگریز نے ایک عرصے تک ہندوستان پر حکومت کی۔ ان کے ہاں بھی کچھ مسلّمہ اصول، ضوابط اور قوانین ہوا کرتے تھے۔ ”وائسرائے ہند“ ان کی مکمل پابندی کیا کرتے تھے۔ بر صغیر پاک و ہند سے انگریز کے جانے کے بعد اس خطے کے سیاست دانوں کے ہاں بھی کچھ اصول ہوا کرتے تھے۔ گاندھی ہوں یا محمد علی جناح، جواہر لال نہرو ہوں یا ابو الکلام آزاد، شاستری ہو یا لیاقت علی خان.... اس زمانے کے عمام سیاست دان چند مسلّمہ قوانین کی پابندی کیا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کے سیاست دانوں نے، چاہے سندھ کے جی ایم سید ہوں یا سرحد کے خان عبد الغفار خان، بلوچستان کے اکبر بگٹی اور خیر بخش مری ہوں یا پنجاب کے نواب زادہ نصر اللہ خان.... ان حضرات نے ایک دوسرے سے شدید ترین اختلافات رکھنے کے باوجود کچھ اصول، قوانین اور روایات کی پابندی اور پاسداری کی۔ ان اکابر سیاست دانوں کا طرزِ عمل ہماری آج کی نئی نسل کے سامنے نہیں تو تاریخ کے اوراق میں ضرور محفوظ ہے۔ ہمارےبعض حکمراں بھی اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ بعض اوقات خود بھی شرما جاتے ہیں اور قوم سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔

تاریخ پر ایک نظیر دوڑائیں تو یونان کے عظیم فلسفیوں سقراط، افلاطون اور ارسطو وغیرہ نے ”ڈیموکریسی“ کا تصور پیش کیا۔ ان فلسفیوں نے خیالی تصور پر مبنی حکومتی ڈھانچہ پیش کیا۔ اسی بنیاد پر جمہوریت پر کتابیں لکھیں۔ سیاست پر افلاطون کی کتاب کا نام ہی ”جمہوریہ“‘ ہے، لیکن وہاں جمہوریت کا جو تصور تھا، وہ نسبتاً سادہ اور محدود تھا۔ سادہ اس معنی میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں، وہ شہری ریاستیں کہلاتی تھیں۔یہ نظام سولہویں عیسوی صدی تک چلتا رہا۔ 17 ویں عیسوی صدی کے بعد یونان کی جمہوریت کا تصور عملاً ختم ہو گیا تھا۔ اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت نے لے لی تھی۔ پھر اس تصور کا احیاءاور تجدید 18 ویں صدی کے آغاز میں ہوئی۔ اس کے بعد ہی جمہوریت نے ایک منضبط اور مربوط شکل اختیار کی۔ وہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج جمہوریت کہلاتی ہے جس کا نام ”لبرل ڈیموکریسی“ ہے۔ آج امریکہ و یورپ کے اکثر ممالک میں یہی ”لبرل ڈیموکریسی“ نافذ ہے۔ امریکہ و یورپ کی پوری کوشش ہے کہ پوری دنیا میں یہ اپنے تمام اثرات کے ساتھ نافذ ہو جائے۔ یہ پندرہویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ اٹلی اپنے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ ملک کی اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال انتہائی نا گفتہ بہ تھی۔ عوام ظلم کی چکی میں پس رہے تھے تو ایسے حالات میں ”میکا ولی“ اٹلی کے لیے نجات دہندہ بن کر آیا۔ وہ اٹلی کے شہر ”فلورنس“ کا باشندہ تھا۔ اس نے بھی وقت کے بادشاہ کو بہت سے قیمتی مشورے دیے۔ اس کے چند گُر اور اصول یہ ہیں: اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو اولین ترجیح دو اور ان کا حصول سرفہرست رکھو۔ طاقتور حکمرانکو کمزور عوام پر ڈرانے، دھمکانے والے قوانین نافذ کرنے چاہئیں تاکہ ان کی سرکشی اور بغاوت کو کچلا جا سکے۔ بے رحمی، سفاکیت اور ظالمانہ روش وہ لازمی اوصاف ہیں جن کے بغیر اچھی حکمرانی کا تصور بھی محال ہے۔ خوف و ہراس کی فضا انتہائی ضروری ہے تاکہ ریاست کی حکمرانی موثر انداز سے عمل پذیر ہوتی رہے۔ دبدبہ، ڈر اور رُعب سے متاثر کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ایک اچھے حکمران کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتار دے۔ جب تم اپنے دشمن پر غلبہ حاصل کر لو تو اس کے خاندان اور عزیز و اقارب کا نشان مٹا دو ورنہ اس کے کچھ رشتہ دار کسی زمانے میں قوت حاصل کر کے تم سے تمہاری غلط کاریوں کا انتقام لے سکتے ہیں۔“ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی دو ہزار سالہ معلوم تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ ہر دور میں چند مسلّمہ اصول، ضوابط،قانون اور اخلاقیات ہوا کرتے تھے، جن کی پابندی اور پاسداری ہرحکمران اور عوام کاہر طبقہ کیا کرتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں بھی چند مسلّمہ اخلاقیات کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ کیا ہمارے آج کے حکمران،اپوزیشن اور سیاستدان زمانہ جاہلیت کے حکمرانوں سے بھی اخلاقی گراوٹ میں پیچھے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین