• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ جمعرات کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل بینچ نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کیے گئے چند انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدامات کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے جو فیصلہ صادر کیا ہے، اسے نہ صرف پاکستان کی تاریخ کا ایک مثالی فیصلہ قرار دیا جارہا ہے بلکہ اس فیصلے کا خیر مقدم سارے ملک میں کیاجارہا ہے۔

 اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف داخل کی گئی تحریک عدم اعتماد کومسترد کرتے ہوئے اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے جو رولنگ دی تھی، اسے بھی مسترد کردیا گیا اس کے علاوہ عدلیہ کے اس فیصلے کے مطابق 9 اپریل کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک پر قومی اسمبلی کو غور کرکے فیصلہ دینا تھا۔

علاوہ ازیں وزیر اعظم کی سفارش پر صدر عارف علوی کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کو آئین اور قانون سے متصادم قرار دیا گیا،ساتھ ہی عدالت نے صدر کی طرف سے دیے گئے حکم کو بھی کالعدم قرار دیدیا۔ صدر اور وزیر اعظم کے احکامات کے تحت ایسےاحکامات اور فیصلے پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے،پاکستان میں تین مارشل لا لگے اور کئی بار غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر ملک کے آئین کو منسوخ کیا گیا مگر ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان کے عوام میں جو مایوسی پھیلی اس کی مثال ملنی بھی مشکل تھی۔

خان صاحب اتنا کچھ کرنے کے باوجود الٹا عدلیہ اور دیگر مقدس اداروں سے شکوہ کناں ہیں جبکہ اپوزیشن اور پاکستان کے عوام کی طرف سے یہ مطالبہ بڑھتا جارہا ہے کہ عمران خان اور صدر عارف علوی کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ دائر کیا جائے،وزیر اعظم اور صدر کے ان حالیہ اقدامات کے نتیجے میں نہ فقط آئین دفن بلکہ پاکستان کا نظام بھی تباہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں ملک کے لوگ بھی شدید رنجیدہ تھے، ہر آدمی پریشان نظر آرہا تھا مگر اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے سے لوگ بے حد خوش ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ اس فیصلے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دیگر چار ججوں کو ملک کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ’’نشانِ پاکستان‘‘ دیا جائے۔ ان سارے فیصلوں کے باوجود نہ وزیر اعظم اور نہ ہی قومی اسمبلی کے اسپیکر وغیرہ نے کوئی سبق سیکھا۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے کو بلایا گیا جس میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس تو ہفتے کو دس بجے منعقد ہوا مگر اسپیکر اس پر ووٹنگ کرانے کے لیے تیار نہیں تھے،اسپیکر بجائے اس کے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرکے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کراتے وہ اسمبلی سے غائب رہے اور وزیر اعظم سے ملنےچلے گئے دوسری طرف اپوزیشن کے سارے ممبر قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود تھے۔

 پی ٹی آئی کے ممبران بھی اسمبلی میں موجود تھے اور ساتھ ہی باہر اپنے اجلاسوں میں بھی جاتے رہے اس دوران تین بار قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی اور دوبار منعقد ہوا مگر اسپیکر بدستور اسمبلی سے غیر حاضر رہے مگر سلام ہے پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس کو کہ وہ ان ساری حرکتوں سے مایوس نہیں ہوئے اور سپریم کورٹ کو رات 12 بجے کھلوایا تاکہ فیصلے پر عملدر آمد نہ کرنے پرکارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے باقی چار ججوں کو اسی وقت عدالت آنے کے لیے کہا۔

بعد میں اسپیکر اسمبلی میں آئے مگر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور وزیر اعظم عمران خان کی تعریف کرتے رہے تاہم اجلاس میں پینل آف اسپیکرز کے ممبر ایاز صادق کی صدارت میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ ہوئی جس میں وزیر اعظم کے خلاف اور اپوزیشن کے حق میں 174 ووٹ آئے۔اس کے بعد عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے یہ خبر ٹی وی پر چلی تو ملک بھر میں لوگوں نےاس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین