• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحافی قبیلہ۔۔۔بالخصوص مزحمتی صحافت پر یقین رکھنے والوں کے لئے کڑا وقت تھا۔۔۔جب حکومت وقت نے صحافت کے شعبہ کو مٹانے کے لئے أزادئ اظہار رائے پر قدغن لگانےکا فیصلہ کر لیا۔۔۔زبان بندی کے غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل کو جائز قرار دینے کے لئے سنگین قانون کا أغاز کر دیا گیا۔۔۔اس دوران میڈیا انڈسٹری پر دباؤ ڈال کر حکومت کے خلاف مزاحمتی صحافت کرنے والوں کو ملازمتوں سے برخاست کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔۔۔

اب بھی صحافت اور صحافیوں کے خلاف نفرت کے حکومتی رویے میں کمی نہیں أئی اور "کنٹینر کے ذمانہ" میں عمران خان کی جانب سے میڈیا سے انتقام کے اعلان پر عملدرأمد بھی باقی تھا اور جسے حکومتی منشور کے بنیادی مقصد کی حیثیت دی جاتی تھی ۔۔۔جس کے تحت "تنقید کو تخریب" سمجھنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے مزاحمتی کے پیروکار صحافیوں کو غدار قرار دے دیا اور PECA کے ڈریکونین قانون میں صدارتی أرڈیننس میں ترامیم کے ذریعے اس کی سنگینی میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ ایک صحافی خصوصأ مزحمتی صحافیوں اور ان کے بچوں کے لئے زندہ رہنا دشوار ہو گیا۔۔۔

صحافت کے خلاف حکومت کی "سونامی" یہاں بھی نہیں تھما بلکہ حکومت پر تنقید کرنے اور مزاحمتی صحافت کا قلع قمع کرنے اور مخالف أوازوں کو ہمیشہ کے لئے دفنانے کا یہ رستہ اختیار کیا کہ ڈریکونین قانون کے صدارتی أرڈیننس میں مزاحمتی صحافی کو دہشت گرد اور غدار تصور کرتے ہوئے یہ سوچے بغیر ایک بیروزگار صحافی یہ سزائیں کیونکر برداشت کر سکتا ہے, قید اور پانچ کروڑ روپے تک جرمانے کی سزائیں مقرر کر دیں ...

"انسداد صحافت" کی اس حکومتی تحریک کے دوران ملک بھر سے لگ بھگ بارہ ہزار میڈیا ورکرز کو ملازمتوں سے برطرف کر کے گھر بھیج دیا گیا۔۔۔انہیں اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لئے ہزاروں صحافی اس پر خطر پیشے کو خیر باد کہہ گئے...اس کے ردعمل میں صحافیوں نے بچوں کے رزق کے لئے مزدوریاں کیں۔۔۔بائیک چلائے (بائیکیا)، منڈیوں میں کام کئے، ریڑیاں لگائیں، فوڈ پانڈہ میں کام کیا اور یہاں تک کہ پکوڑے بیچے۔۔۔ اور بعض اپنے بچوں کو بھوکا چھوڑ کر رازق حقیقی سے جا ملے۔۔۔

حکومت کی اس لرزہ خیز سازش کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین أف جرنلسٹس (PFUJ) نے بھرپور تحریک کا أغاز کر دیا۔۔۔اور پی۔ایف۔یو۔جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کے ساتھ سابق صدر افضل نے اس تحریک کو منتقی انجام تک پہنچانے کے لئے اسلام أباد ہائی کورٹ میں PECA کے ڈریکونین قانون کے خلاف اپیل دائر کردی۔۔۔تب قلم قبیلے کو امید کی روشن کرن دکھائی دی۔۔۔چیف جسٹس اسلام أباد مسٹر جسٹس اطہر من اللہ جو أزادئ اظہار اور أزادئ صحافت پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔صحافت ،صحافی اور سچ کی سربلندی کو اپنی عبادات میں شمار کرتے ہیں۔۔۔

۔۔۔اور ...پھر وہ دن أ گیا جب چیف جسٹس مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے قلم قبیلے کو بے أبرو ہونے سے بچا لیا اور اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے أزادئ اظہار رائے اور أزادئ صحافت کو بنیادی حقوق قرار دیا اور کہا کہ أئین کے أرٹیکل 19 اور 19/A بنیادی حقوق کو تحفظ دیتے ہیں ۔۔۔ چیف جسٹس نے PECA کو بنیادی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوۓ اس قانون کو مسترد کر دیا ۔۔۔ انہوں نے FIA کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا سائبر قوانین کے تحت 95000 مقدمات زیر التوا ہیں لیکن FIA ٹارگٹ کر کے مقدمات کی تحقیقات اور کارروائیاں کر رہا ہے ۔۔۔

جس قدر بڑا احسان شعبہ صحافت پر عدل نے کیا ہے ۔۔۔ اس کے عوض صرف "شکریہ ! ۔۔۔۔مسٹر جسٹس اطہر من اللہ" کہنا کافی نہیں ۔۔۔اس کے لئے

لفظ لفظ چنتا رہا اپنے قبیلۀ صحافت کے محسن کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ ادا کرنے کے لئے محبت اور عقیدت کے اظہار کرتا لیکن الفاظ خود اپنے قوت اظہار کو صحیح معنی پہنانے میں مایوس دکھائی دئیے۔۔۔تو أپا کشور ناہید سے کہا کہ اپنے لفظوں کے خزانے سے کچھ دے دیں۔۔.جواب ملا۔۔۔جو ذہن میں ہے۔۔۔لکھ دو۔۔۔

تازہ ترین