• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک میں جوواقعات پیش آئے اور جس طرح سے ان پر پیش رفت ہوئی، وہ قومی آرکائیوز میں تاریخ کے انتہائی ذلت آمیز باب کے طور پر جگہ پائیں گے۔حکومت تبدیل کرنے کی سازش کے ماسٹر مائنڈ کچھ عرصے سے اس کے تانے بانے بن رہے تھے لیکن اسے عملی جامہ پہنانے میں کچھ وقت لگا۔ تاہم آخری بے رحم جھٹکے میں ملزموں، مفروروں، جھوٹوں، دھوکے بازوں، جعل سازوں پر مشتمل گروپ اقتدار پر قابض ہوگیا۔کئی ایک مقدمات کا سامنا کر رہے افراد کی گروہ بندی سے حکومت وجود میں آگئی۔

عمران خان تبدیلی کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے تھے۔لیکن جب اُنھوں نے شریف اور زرداری جیسے لیڈروں کی قیادت میں فعال مافیا کا تعاقب شروع کیا تو ان پر ایسے تمام افراد کی طرف سے مخالفت کے زہریلےتیر برسائے جانے لگے جو ادارہ جاتی راہداریوں میں مورچے جمائے بیٹھے ہیں۔ وہ سب اس منظم منصوبہ بندی میں اپنا طے شدہ کردار ادا کرنے وہاں موجود ہیں جس کابنیادی مقصد ریاست کو جب بھی، جہاں کہیں اور جس طرح سے بھی لوٹا جا سکتا ہےلوٹ لیا جائے۔ اس عمل میں، اور تین دہائیوں تک حکومت کرنے کے بعد، دو خاندان ملک کے اثا ثوں کو ہڑپ کرتے گئے جب کہ ان کی ذاتی سلطنتیں تیزی سے پھیلتی چلی گئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ کسی نے محسوس کیا کہ سیاسی مافیاز احتساب کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں اکیلے نہیں۔ انھوں نے ہر اہم جگہ پر اپنے ہم نوائوں کو تعینات کررکھا ہے، وقت آنے پر وہ ناموافق اقدامات کو پٹری سے اتارنے کیلئے نظام کے اندر سے دست تعاون فراہم کرتے تھے۔

جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو خان دوسرے محاذ پر بھی لڑ رہا تھا۔ وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو غلامی کی بیڑیوں سے نکال کر اسے آزادراہوں پر گامزن کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو اس ملک کی سلامتی اور معاشی مفادات کے تحفظ میں معاون ثابت ہو۔ ایک ایسے ملک کیلئے جو ماضی میں پاکستان سے اپنی مرضی کا کام لینے کا عادی رہا ہو، یہ آزاد خارجہ پالیسی ناقابل قبول تھی۔ خواہ وہ افغانستان اور اس کے مصیبت زدہ لوگوں کے لیے آواز بلند کرنا ہو یا مسلم ممالک کے درمیان اتحاد پر زور دینا ہو۔ چاہے وہ چین کے ساتھ پاکستان کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات ہوں اور چین CPEC کی مزید توسیع ہو یا اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار، ملک کی خارجہ پالیسی میں اس کے ابتدائی برسوں سے ہونے والی تاریخی خرابی کا تدارک کرنے کیلئے روس کا دورہ ہو یا کشمیر اور فلسطین کے لوگوں سمیت دنیا کی محروم برادریوں کے حقوق کے بارے میں واشگاف بات کرنا ہو،امریکہ نے انھیں چھپا ہوا خطرہ مان لیا۔ امریکی پالیسی کا کلیدی جزو چین کی ترقی، اور دنیا کی اہم معیشت کے طور پر اس کے ابھرنے کو روکنا ہے۔ خان کی قیادت میں پاکستان کیلئے یہ ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے اسے دنیا کے اس حصے میں امریکی عزائم کو پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا چنانچہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش رچائی گئی۔

پاکستانی سفیر سے ہونے والی ملاقات میں امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے عمران خان کی پالیسیوں پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔اُنھوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو پاکستان کی غلطیاں معاف ہو جائیں گی لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک کوسنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنے فرض کے طورپرسفیر کی طرف سے ملاقات کے مواد کو دفتر خارجہ تک پہنچایا گیا۔خان پر روس کا دورہ منسوخ کرنے اور بعد ازاں یوکرین کے خلاف روسی آپریشن پر تنقید کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی افسروں اور تحریک انصاف کے کچھ ارکان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں تاکہ اس منصوبے پر عمل درآمد کیلئےسب کو اکٹھا کیا جا سکے۔ بھاری اور پرکشش ترغیب نے تحریک انصاف کے 20سے زائد اراکین پارلیمنٹ کی سمت تبدیل کردی۔

آج پاکستان اقوام عالم کے درمیان ایک ایسے ملک کے طور پر کھڑا ہے جو اپنے وقار اور اپنی ساکھ سے محروم ہے۔ پریشان کن سوال یہ ہے کہ کیا ریاست جس خرابی کی دلدل میں دھنس چکی، اس سے نکلنے کی کوئی امید باقی ہے؟لیکن پھر مجھے ناقابل ِیقین عظیم ہجوم کی یاد آتی ہے جو عمران خان کی آواز پر ملک بھر کے تقریباً 100 شہروں اور قصبوں میں ان کی اور پاکستان کیلئے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے نکلا تھا۔ بے پناہ جذبے کے ساتھ، تقریباً ہر شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں عوام کا اژدھام تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پاکستان نے یکجہتی کے ایک تاریخی اور طاقتور مظاہرے میں اپنے قائد پر سب کچھ نچھاور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس دن، اتوار، 10 اپریل کو، ہماری آنکھوں نے ایک کرشمہ رونما ہوتے ہوئے دیکھا: ایک قوم غلامی کے طوق کو اُتار پھینکتے ہوئے، خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی شدید مذمت کرنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ عوامی غیرت پکاررہی تھی کہ اس طرح کی بے عزتی قابلِ قبول نہیں، اور ایک غیر آئینی اور درآمد شدہ حکومت کے خلاف مزاحمت ہوگی۔ میں اس جذبے کو انقلاب کی شکل اختیار کرتے دیکھ رہا ہوں۔ عمران خان نے پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے قدم آگے بڑھادیا ہے۔ اس کی روح روشن کرنے کے لیے عزم و ہمت کی شمع جلا دی ہے۔ اب یہ بجھے گی نہیں۔

تازہ ترین