نسل پرستی دنیا بھر میں دم توڑ رہی ہے۔ امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کی محنت بالآخر رنگ لائی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام بارک اوباما دنیا کی واحد سپر پاور کے دو مرتبہ صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں گوروں اور کالوں کے معرکے ماضی کا حصہ بن گئے۔ نیلسن منڈیلا کی انتھک جدوجہد نے آخرکار کالے اور گورے کو ایک گھاٹ پانی پلا دیا۔ اب جبکہ دنیا میں نسل پرستی قصہ پارینہ بن چکی، کم از کم ایک ملک ایسا ضرور ہے، جہاں اب بھی گوروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور میلے رنگ والوں کو کم ہی لفٹ کرائی جاتی ہے، اور وہ ملک ہے پاکستان، جہاں الحمدللہ مسلمان بستے ہیں اور آقائے نامدار رسول عربی کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، جنہوں نے بہت پہلے حجتہ الوداع کے خطبہ میں یہ کہہ کر نسل پرستی پر خط تنسیخ کھینچ دیا تھا کہ ”گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔“ یوں تو یہ فرمودات عالیہ ہر کلمہ گو کو ازبر ہیں، مگر چودہ سو برس بیت جانے کے باوجود ہم پاکستانی آج بھی کالے گورے کے چکر میں بری طرح سے جکڑی ہوئی قوم ہیں۔روسی یلغار کے ساتھ ہی افغان مہاجرین کا سیلاب پاکستان میں داخل ہوا، تو کسی کو کچھ علم نہیں تھا کہ کدھر جانا ہے۔ ٹھکانوں کی تلاش میں البتہ پیسے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ غریب غرباء کا رخ سرکاری طور پر بسائی گئی خیمہ بستیوں کی طرف تھا، جہاں زندگی سخت اور اخراجات نہ ہونے کے برابر تھے جبکہ پیسے والوں نے شہروں کا رخ کیا، زیادہ زور پشاور اور اسلام آباد پر تھا۔ سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر آباد پشاور افغانوں کیلئے اجنبی نہیں تھا۔ سرحد پار رشتہ داریاں بھی تھیں اور کاروباری تعلقات بھی، سو آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ مشترکہ تمدن اور زبان سونے پر سہاگہ تھی۔ یوں افغان پشاور کے در و بام سے خاصے مانوس تھے۔ دوسرا شہر اسلام آباد ان کیلئے البتہ نیا تھا۔ پاکستان کا دارالحکومت، جو چند برس پہلے ہی معرض وجود میں آیا تھا اور ابھی تکمیلی مراحل سے گزر رہا تھا۔ چنانچہ پڑھے لکھے اور تعلقات والے صاحب ثروت افغانوں نے اسلام آباد کو ترجیح دی۔ شہر کی آبادی ان دنوں کچھ زیادہ نہ تھی۔ یہی کوئی لاکھ، ڈیڑھ لاکھ نفوس کی بستی۔ اسلام آباد کا سیکٹر G/9 نیا نیا آباد ہوا تھا، بہت سے مکان خالی تھے، کرایہ دار مشکل سے مل رہے تھے۔ ایسے میں ایک طرف افغان مہاجرین کو مکانوں کی تلاش میں چنداں دشواری نہیں ہوئی اور دوسری طرف مالکان کی بھی چاندی ہوگئی تقریباً سبھی خالی مکان ایک دم سے کرایہ پر اٹھ گئے اور کرایہ بھی معقول، کیونکہ آنے والوں کی جیبیں بھری ہوئی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان کے شہروں پر یورپ کا گمان گزرتا تھا۔ خواتین کو مکمل آزادی تھی جو مغربی لباس پہنتیں، مخلوط تعلیمی اداروں میں مردوں کے ساتھ پڑھتیں اور ان کے شانہ بشانہ روزگار کماتیں۔ ان پُراعتماد، تعلیم یافتہ اور فیشن ایبل خواتین کی اپنے کنبوں کے ساتھ پاکستانی شہروں میں آمد مقامی آبادی کیلئے کلچرل شاک سے کم نہ تھی۔ کہیں آنے جانے میں اور مردوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں انہیں کوئی الجھن نہ تھی۔ وہ مردوں کے ساتھ ہاتھ ملانے میں جھجھک محسوس نہیں کرتی تھیں اور بے دریغ ہاتھ آگے بڑھا دیتی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے گیٹ ٹو گیدرز میں افغان مردوں کا بڑھا ہوا ہاتھ منتظر ہی رہتا اور پاکستانی عورت اس قسم کی جرأت نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ اس کا مرد دوہرے معیار کا شکار تھا کہ ہم تو سب سے ہیلو ہائے کریں، مگر ہماری عورتیں سات پردوں میں چھپ کر بیٹھیں۔ ان گوری چٹی، پڑھی لکھی اور پراعتماد خواتین کی آمد سے پاکستانی سوسائٹی میں ہلچل سی پیدا ہوگئی اور ہماری نسل پرستی کی جبلت انتہا کو چھونے لگی۔ نوجوانوں میں افغان لڑکیوں کیلئے پسندیدگی پیدا ہوئی اور دھڑا دھڑ شادیوں کے پیغامات جانے لگے۔
غریب الوطنی بھی بری چیز ہوتی ہے، انسان کو اندر سے ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی نفسیات اور سوچ ہر دو کو متاثر کرتی ہے۔ انسان لاکھ صاحب حیثیت ہو، مہاجرت میں جوان بچیوں کا ساتھ ہو تو بوجھ ضرور محسوس کرتا ہے، اور خوامخواہ کے آسرے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ یہی افغان مہاجرین کے ساتھ بھی ہوا۔ ان کی بچیوں کیلئے مقامی نوجوانوں کے پیغامات آئے تو انہیں ریلیف سا محسوس ہوا اور تیزی کے ساتھ فیصلے ہونے لگے اور وقت نے بتایا کہ ان میں زیادہ تر نامناسب بلکہ غلط تھے۔ مقامی لڑکوں نے گوری رنگت کی لڑکیوں کے شوق میں خوب غلط بیانیاں کیں اور حقائق کو چھپایا، مہاجر کنبوں کے پاس، جن کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور وہ مکار لوگوں کی باتوں میں آگئے۔ کنواروں کے ساتھ ہونے والی شادیاں تو پھر بھی کسی طور چلتی رہیں خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب پہلے سے شادی شدہ اور بال بچے والوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کردیئے۔ گھر بیٹھی بیویاں انہیں میلی لگنے لگیں اور وہ چندے آفتاب و چندے ماہتاب افغان لڑکیوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹر صغریٰ کا کیس بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ کابل کی ایک نواحی بستی کی اس پرکشش اور باوقار خاتون نے طب کی تعلیم فرانس سے حاصل کی تھی، مہاجرت اختیار کر کے کنبہ کے ہمراہ اسلام آباد میں آباد ہوئی تو صرف تیس برس کی تھی، شوہر جنگ کا ایندھن بن چکا تھا، گھر میں بند ہو کر بیٹھنا اچھا نہ لگا تو مہاجرین کیلئے کام کرنے والے ایک میڈیکل مشن میں شامل ہوگئی۔ وہیں پاکستان کی ایک نمایاں بلکہ نہایت نمایاں شخصیت سے مد بھیڑ ہوگئی تو بیچارہ ”حسن پریشاں“ کی تاب نہ لا سکا اور پہلی ہی نظر میں ڈھیر ہوگیا، مگر اپنے پر خبط رکھا کہ بے صبری کا مظاہرہ منصب کے منافی تھا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ’عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے‘ بے چینی بڑھی تو صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ پہلے سے شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ ہونے کے باوجود شادی کا سندیسہ بھیج دیا۔ بی بی بیچاری حیران و پریشان تھی کہ کیا کرے۔ دو ایک مقامی دوستوں سے مشورہ کیا تو پتا چلا کہ اس قسم کے معاشقے تو صاحب کا شوق ہے جو کڑھی کے ابال کی طرح پائیدار نہیں ہوتا، اور عفیفہ نے بڑی مشکل سے اس عفریت سے جان چھڑائی تھی۔یادش بخیر یو این کی گڈ ول ایمبیسڈر انجلینا جولی 2010ء کے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے پاکستان آئیں اور متاثرین کی آبادکاری کی مد میں ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔ ان کی آمد کا بڑا مقصد سیلاب کی تباہ کاریوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور عالمی برادری کو آفت رسیدگان کی مدد کیلئے آمادہ کرنا تھا۔ متاثرین سے ملنے وہ مختلف کیمپوں میں گئیں، ان کی حالت زار پر رنجیدہ ہوئیں اور انہیں ہرممکن مدد کا یقین دلایا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات بھی پروگرام کا حصہ تھی۔ جس کیلئے موصوف نے اپنی فیملی کو خصوصی پرواز کے ذریعے آبائی شہر ملتان سے اسلام آباد بلایا۔ ”شاہی خاندان“ کے برینڈڈ اور مہنگے ملبوسات کی چکاچوند اور دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانوں کی بھرمار دیکھ کر جولی حیران ہی نہیں، پریشان بھی ہوگئی تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ نے انہیں نادر اور قیمتی تحائف سے لاد دیا۔ وطن لوٹ کر انہوں نے کسی سے پاکستانی حکمرانوں کے اس طرز عمل کا ذکر کیا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ سب ایک چٹی چمڑی والی ایکٹریس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے تھا، اور اگر اس کی جگہ کالی، پیلی چمڑی والی اس سے بھی بڑی اداکارہ ہوتی تو کوئی اسے معمولی سی لفٹ بھی نہ کراتا۔ جولی کیلئے یہ انکشاف ناقابل یقین تھا۔