• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

09اپریل کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، آواز لگی کہ نئے وزیراعظم کا انتخاب شروع ہوا چاہتا ہے، امیدوار برائے وزیراعظم شہباز شریف جن کے تجویز کنندہ سابق صدر آصف علی زرداری جبکہ تائید کنندہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تھے، یہ مناظر یہ واقعات بہت سی قوتوں کے لئے سیاسی موت اورکشمکش ثابت ہوئے کیونکہ وہ شخص جو 15دن قبل کہہ رہا تھا کہ زرداری میری بندوق کے نشانے پر ہےاس کے غرور کو زرداری نے 15 دن کے اندر ختم کرکے اپنی مرضی کا وزیراعظم منتخب کر لیا، آصف علی زرداری کی قیادت میں یہ معرکہ ایک ایسے روز ہوا جو یوم آئین یعنی 10اپریل 1973کی یاد دلاتا ہے، اور ساتھ ہی یہ دن یعنی 10اپریل 1986جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی کامیابی کا ایک سنگ میل کی یاد بھی دلاتا ہے جب محترمہ شہید بے نظیر بھٹوجلاوطنی ختم کرنے کے بعد لاہور تشریف لائیں ، جہاں دس لاکھ افراد کا جلوس سولہ گھنٹے ان کے ساتھ چلتے ہوئے شام کو مینار پاکستان پہنچا، جدید عالمی سیاسی تاریخ میں محترمہ کے لئے نکالے گئے اس جلوس کا کوئی ثانی نہیں۔ 1989میں شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ اگر آصف علی زرداری نہ ہوتے تو ان کے خلاف پیش آنے والی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ان کے مخالفین فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے نظر آتے، اور آج اگر شہباز شریف کے ساتھ آصف علی زرداری نہ کھڑے ہوتے تو نہ سردار اختر مینگل ہوتا، نہ سردار خالد مگسی، نہ ایم کیو ایم اور نہ ہی یہ ایک اہم دن ہوتا۔ اس تاریخی کارنامے کے پیچھے پہلے اور آخری کھلاڑی سابق صدر ہیں۔ آصف علی زرداری نے کمال مہارت سے عمران خان کو دوڑایا، بٹھایا اور پھر جو کہتا تھا کہ آخری گیند تک لڑوں گا اس کو میدان سے ایسا ہٹایا کہ اس سارے عمل میں پارلیمنٹ کا وقار مجروح نہ ہونے دیا بلکہ آئین پاکستان کو ہمیشہ کے لئےسر بلند کردیا۔ اس پارلیمان کے پہلے اجلاس میں آصف علی زرداری نے عمران خان کو ساتھ چلنے کی پیش کش کی تھی ، مگر عمران خان کی انا اور خود پرستی ان پر اتنی حاوی ہوگئی کہ انھوں نے آصف علی زرداری اور ان کی بہن کو جیل کی راہ دکھا ئی اور پھر ایک موقع پر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ میں جب چاہوں ان کو نکال سکتا ہوں اس میں میرا زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اورانہوں نے جو کہا وہ کر دکھایا، عمران خان نے سیاسی خودکشی ایک بار نہیں کئی بار کی، 2018میںاگر آصف علی زرداری کی پیشکش قبول کر لی جاتی تو شایدعمران خان 2023 میں بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے کیوں کہ آصف علی زرداری کنگ تو نہیں مگر پاکستان کی سیاست میں کنگ میکر کا درجہ ضرور حاصل ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ شہباز شریف سابق صدر آصف علی زرداری کی شاگردی قبول کرتے ہیں یا نہیں کیوں کہ اگر شہباز شریف آصف علی زرداری کو استاد مان لیتے ہیں تویہ استاد انھیں کامیاب کرا کے ہی چھوڑے گا کیوں کہ یہ جب کسی سے دوستی کر لیتا ہے تو پھر اپنا نقصان نہیں دوستوں کا فائدہ دیکھتا ہے۔ امید ہے یہ قومی حکومت پاکستان کے مسائل حل کرنے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھے گی۔ یہاں ایک بات یاد کراتا چلوں کہ عمران حکومت بننے کے پہلے دن ہی سابق صدر آصف زرداری نے کہہ دیا تھا کہ ہم آپ کو نہیں گرائیں گے گرنا آپ کوخود ہے۔ یہ تو مانگے تانگے کی حکومت ہے دیکھتے ہیں کتنے دن چلتی ہے۔ امید ہے شہباز شریف حکومت عمران حکومت کے نقش قدم پر چلنے سے باز رہے گی۔ سچ تویہ ہےکہ انا اورخود پرستی تباہی کی طرف دھکیل دیتےہیں جس کی حالیہ مثال عمران خان کی حکومت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین