• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ قبل تک پاکستان میں عمران خان کے ترک صدر ایردوان کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان ہی کی طرح نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ صدر ایردوان کی طرح عالمی لیڈر بننے کی راہ پر گامزن ہونے کے چرچے ہونے لگے تھے۔ ایردوان آج جس مقام پر ہیں انہیں یہ مقام آسانی سے حاصل نہیں ہوا، اس کے لیے انہوں نے بڑی جدو جہد کی ہے۔ جب انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار حاصل کیا تو ان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ترکی میں آئینی عدلیہ کے سابق سربراہ نجدت سیزر، جنہیں ایردوان سے قبل کی بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد نےملک کا صدر منتخب کروایا تھا، نے ایردوان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ایسی رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وزیراعظم ایردوان کو سب سے پہلے اپنی کابینہ کے ناموں کی منظوری حاصل کرنے میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کی تیار کردہ کابینہ کی فہرست میں چند ایک ناموں پر اعتراض ہونے کی وزیراعظم کو بھنک پڑنے پر آخری وقت میں چند ایک ناموں میں تبدیلی کرنا پڑی۔ وزیراعظم ایردوان کو اپنے پہلے دور میں مختلف اداروں کے سربراہ تبدیل کرنا تو کجا ان اداروں کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو بھی تبدیل کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ صدر نجدت سیزر اس سلسلے میں ایردوان کی راہ میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردیتے تھے اور وزیراعظم کو متنبہ کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس دور میں فوج اور عدلیہ کی تلوار وزیراعظم ایردوان کے سر پر لٹکتی رہتی تھی لیکن وزیراعظم ایردوان نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ایردوان کو اس دور میں طالبات کے ہیڈ اسکارف کا مسئلہ بھی درپیش تھا اور اس مسئلے نے پورے ترکی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور ایردوان اس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کرکے ہی اقتدار میں آئے تھے لیکن صدر نجدت سیزر کی وجہ سے وزیراعظم ایردوان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ یہ تمام مسائل حل کرنے سے قاصر تھے لیکن انہوں نے اس موقع پر بھی صبر و تحمل سے کام لیا اور سب سے پہلے ملک کی اقتصادی ترقی کی جانب توجہ مبذول کی کیونکہ اس وقت ترکی شدید ترین اقتصادی بحران سے دوچار تھا ۔

انہوں نےوزارتِ عظمیٰ کے پہلے اور دوسرے دور میں ملک کی اقتصادیات کو نہ صرف بحران سے نکالا اور ٹرکش لیرا، جوغیر ملکی کرنسیوں کے کے مقابلے میں قدرو قیمت کھو چکا تھا اور ایک ڈالر میں ملین کے لگ بھگ ترک لیرے ملا کرتے تھے، کی قدرو قیمت کا نئے سرے سے جائزہ لیا اور ترک لیرے سے چھ صفر ختم کرنے کا منفرد کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے ترک کرنسی کو مضبوط اور مستحکم بنایا۔ ترکی کی اقتصادی ترقی کو دیکھتے ہوئے اسےجی-20 ممالک کی صف میں شامل کرلیا گیا اور پھر ترکی کے دروازے دنیا کے لیے کھلتے چلے گئے۔ دنیا میں وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا مقام منوانے کے بعد ایردوان نے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروایا اور ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد دنیا میں صدر ایردوان کو اپنی عظمت منوانے اور ایک عالمی رہنما کا اسٹیٹس حاصل کرنے کی راہیں خود بخود کھلتی چلی گئیں۔انہوں نے یورپ، ایشیا، مشرق وسطیٰ، امریکہ اور روس کے رہنمائوں سے قریبی مراسم پیدا کیے۔ انہوں نے تمام تر حالات کے باوجود امریکہ (حالانکہ اسی امریکہ نے فتح اللہ گولن کے ذریعے ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی ) سے اپنی دوستی اور قربت قائم رکھی بلکہ نیٹو کے اتحادی ملک کی حیثیت میں بڑے موثر طریقے سے یورپی ممالک سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ صدر ایردوان نے روس کے صدر پیوٹن کےساتھ بھی بڑے گہرے اور قریبی مراسم قائم کررکھے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر ایردوان نے نیٹو کا رکن ہونے اور امریکی دھمکیوں کے باوجود روس سے ایس -400 میزائل بھی خریدے۔ ( اسے کہتے ہیں ڈپلومیسی ) اور پھر سب سے اہم یوکرین اور روس جنگ میں صدر ایردوان جو کردارادا کررہے ہیں وہ کردار کسی دیگر عالمی رہنما کو نصیب نہیں ہوا ۔ عمران خان کے لیے موقع تھا کہ وہ صدر ایردوان کی طرح پالیسی اختیار کرتے اور اپنے اس دور میں صرف اور صرف اقتصادیات کی طرف توجہ دیتے تو ان کی ایردوان کی طرح ملکی اداروں پر بھی وقت کے ساتھ ساتھ گرفت قائم ہو جاتی لیکن بد قسمتی سے ان کی کچھ اپنی غلطیوں اور زیادہ تر ان کے وزراء کی غلطیوں کی وجہ سےان کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوئے۔

اب دیکھتے ہیں وزیراعظم شہباز شریف، عمران خان کے جانے کے بعد کتنا عرصہ حکومت کر پاتے ہیں؟ ان کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہیں کیونکہ ان کے ساتھ نو جماعتیں ہیں اور ان سب کو لے کر چلنا بڑا مشکل کام ہے لیکن شہباز شریف کو پاکستان کے دیگر سیاسی رہنمائوں پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ جس کام کا بیڑہ اٹھالیتے ہیں وہ کام ضرور پایہ تکمیل تک پہنچا تے ہیں۔ راقم وزیراعظم شہباز شریف کو اس وقت سے جانتا ہے جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور ترکی کے دورے پر تشریف لاتے تو راقم ان کے ساتھ مترجم کے طور پر خدمات سرانجام دیتا۔ ترکی میں پاکستان سے بڑی تعداد میں سیاستدان سرکاری دورے پر آتے رہے ہیں لیکن ترکی اور پاکستان کے درمیان تعاون کے بڑی تعداد میں جو سمجھوتے میاں شہباز شریف نے کیے شاید ہی کسی اور سیاستدان نے کیےہوں۔ کئی ایک ترک فرموں نے پاکستان میں اور بالخصوص پنجاب میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جس سے پنجاب خاص طور پر لاہور کا چہرہ تبدیل ہوتے ہوئے سب نے دیکھا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف اپنی راہ میں کھڑی رکاوٹوں کی پروا کیے بغیر پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور صدر ایردوان کی طرح مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرپاتے ہیں اور پاکستان کی سیاست میں ایردوان بننے کی ان سے جو توقعات وابستہ ہیں اس پر پورا اُترے ہیں یا نہیں؟

تازہ ترین