مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے ، قرآن کریم میں بیشتر مقامات پر نماز اور زکوٰۃ دونوں کا ساتھ ذکر کیاگیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ہے ۔ زکوٰۃ عبادت بھی ہے ، ضرورت مندوں اور پریشان حالوں کی اعانت کی بنیاد پر اخلاقیات کا اہم باب بھی ، نیز حب مال اور دولت پرستی کی ہوس جیسی روحانی امراض کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ بھی۔
مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی مالی حقوق عائد ہوتے ہیں ،فقط زکوٰۃ کی ادائیگی سے پوری ذمہ داری ختم نہیں ہوتی ، البتہ یہ دیگر حقوق نہ دائمی ہیں نہ ان کے لیے کوئی نصاب مقرر ہے ، بلکہ جب اور جتنی ضرورت ہو ،اس کا انتظام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کے سلسلے میں شریعت نے چند ہدایات دی ہیں ،ان کا لحاظ رکھنا مسلمانوں پر لازم ہے ، ذیل میں ان ہی شرعی اصولوں کو مختصراً ذکر کیا جاتا ہے:
زکوۃ کی ادائیگی سے متعلق بنیادی اصول :
جو کچھ دوسروں پر خرچ کیا جائے ، اس میں خالص اللہ کی رضا مقصود ہو، کسی بھی قسم کا بدلہ چاہنا، نام ونمود، ریا و دکھاوا، احسان جتانا یا لوگوں کے سامنے اس کاذکر کرنا ثواب کے ضیاع کا باعث اور سخت گناہ کی بات ہے۔
عمومی اَحوال میں صدقاتِ واجبہ، جیسے زکوٰۃ، فطرانہ وغیرہ ظاہر کرکے دینے کی اجازت ہے، البتہ صدقاتِ نافلہ پوشیدہ طور پر دینے چاہئیں، تاکہ ریا کاری پیدا نہ ہو۔ بعض مواقع پر صدقۂ واجبہ کا اظہار ضروری اور بعض مواقع پر اِخفا لازم ہوگا، اسی طرح بعض اوقات دوسروں کی ترغیب کی نیت سے یا کسی اور مصلحت کے پیشِ نظر نفلی صدقہ ظاہر کرکے بھی دیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ریاکاری پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ الغرض اَحوال کے اعتبار سے اس کی افضلیت بدل سکتی ہے۔
زکوٰۃ کے سال کا حساب قمری مہینے سے کرنا چاہیے، نہ کہ شمسی تاریخوں سے، شمسی سال قمری سال سے تقریباً گیارہ دن بڑا ہوتا ہے، تاریخ کی تبدیلی سے ملکیت میں موجود مالیت میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، نتیجتاً زکوٰۃ کی مقررہ مقدار میں کمی بیشی کا امکان رہتا ہے، جو زکوٰۃ ذمہ میں باقی رہ گئی تو مؤاخذہ ہوسکتا ہے۔
جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلو برتن ، کپڑے وغیرہ) سے زائد نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو وہ زکوٰۃ کا مستحق ہے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک ( کسی مستحقِ زکوٰۃ کو مالک بنانا) شرط ہے۔جہاں تملیک نہ پائی جائے وہاں زکوٰۃ کی رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی۔
اگر صاحبِ نصاب آدمی سال مکمل ہونے سے پہلے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہے تو جائز اور درست ہے، زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، البتہ رقم دینے سے پہلے یا دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت ضروری ہے، رقم دے دینے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔
زکوٰۃ کے مستحق افراد کو زکوۃ کی رقم سے سامان یا راشن لے کر دینا بھی جائز ہے۔
زکوٰۃ کی رقم کسی بھی کام کی اجرت میں نہیں دی جاسکتی اور اس طرح اجرت میں دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
ملازمین اگر مستحق ہوں تو انہیں بغیر کسی عوض کے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، بطور تنخواہ زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
اپنے اصول (والد ، والدہ ،دادا ، نانا ، دادی ،نانی اوپر تک) اور فروع (بیٹا ، بیٹی، پوتا، پوتی نیچے تک ) و زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔
سید کو (’’سید‘‘ کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عباس اورحضرت عقیل اورحضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم اجمعین کی اولاد میں سے ہیں)کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ۔ اگر سید آدمی غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی اِمداد زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں ، اور یہ بڑا اجروثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے۔
کسی غیر مسلم کو (چاہے وہ یہودی ہو، عیسائی ہویا ان کے علادہ دیگر مذاہب کے ماننے والے) کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔
رفاہ عامہ کے کاموں مثلاً مساجد، ہسپتال ، سڑک اور پل وغیرہ کی تعمیر میں زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ (صدقہ فطر،فدیہ اور کفارہ وغیرہ) کی رقم دینا درست نہیں، اور اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوۃ اد انہیں ہوگی۔ اسی طرح زکوٰۃ کی رقم سے براہ راست ہسپتالوں کے لیے مشینیں اور دیگر آلات خریدنا بھی جائزنہیں۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں ان لوگوں کو ترجیح دینی چاہیے جو اپنی عزت وآبرو اور خودداری کو برقرار رکھتے ہیں اور لوگوں پر اپنی حاجت مندی ظاہر نہیں کرتے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر مانگنے والوں کی وجہ سے اکثر صبر وقناعت کے ساتھ فقر وفاقہ برداشت کرنے والے مالی امداد سے محروم رہ جاتے ہیں۔
زکوٰۃ کا سب سے بہترین مصرف اپنے دین دار اقرباء ہیں ، جب کہ وہ مستحق ہوں۔ فساق وفجار کودینے سے دینی تعلیم میں مشغول لوگوں کو زکوٰۃ دینا زیادہ افضل ہے۔ اصول وفروع اور زوجین کے علاوہ تمام رشتے داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، جب وہ زکوٰۃ کے مستحق ہوں۔ مستحق رشتہ داروں کوزکوٰۃ دینے سے دوہرا ثواب ہوتا ہے،کیونکہ اس میں صلہ رحمی بھی ہوجاتی ہے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی میں خصوصی طور پر معاشرے میں موجود معذور ، نادار ، یتیم ، اور بیواؤں کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔
•اس زمانے میں علم دین کی طلب اور نشرواشاعت میں مصروف لوگ بہترین مصارفِ زکوٰۃ میں سے ہیں ۔ قرآن کریم میں ذکر کردہ مصارفِ زکوٰۃ میں سے "فی سبیل اللہ"میں فقہائے کرام نے طلبہ علم کو داخل فرمایا ہے۔ لہٰذا دینی مدارس میں (جہاں رہائشی طلبہ ہوں اور ان کے کھانے پینے ،علاج معالجہ کے اخراجات مدرسہ اٹھاتا ہو، انہیں) زکوٰۃ دینا زکوٰۃ کی عبادت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دین کی نشرواشاعت میں معاون بنناہے اور صدقہ جاریہ بھی ہے۔
صدفہ فطر:اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے۔
عید کی نماز سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا بہتر ہے ،لیکن اگر پہلے ادا نہ کرسکا تو بعد میں بھی ادا کرنا لازم ہے، اور جب تک ادا نہیں کرے گا ذمہ پر واجب رہے گا۔
صدقہ فطر بھی ان لوگوں کو دیا جاسکتا ہے جنہیں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، یعنی صدقہ فطر کے مستحق وہی افراد ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں ، یعنی مسلمان فقیر آدمی جو سید/ہاشمی نہ ہو اور جنہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں، انہیں صدقہ فطر دینا بھی جائز نہیں۔ البتہ غریب پُرامن غیر مسلم لوگوں کو زکوٰۃ کے علاوہ صدقات( صدقہ فطر ،کفارہ اور نذر)دیئےجاسکتے ہیں ،مگر مستحق مسلمانوں کو دینا زیادہ بہتر ہے۔
•اگر کسی بالغ مرد وعورت نے کسی وجہ سے روزے نہ رکھے، تب بھی ان پر صدقہ فطر نصاب ہونے پر لازم ہے۔
صدقہ فطر جس طرح اجناس (گندم ، جَو، کھجور اورکشمش)کی صورت میں دیا جاسکتاہے اسی طرح ان اجناس کے بجائے ان کی قیمت یا اس قیمت سے کپڑے یا راشن وغیرہ خرید کر مستحق کو دیا جاسکتا ہے۔
نفلی صدقات :نفلی صدقہ حسب استطاعت دیا جاسکتا ہے، نفلی صدقات میں شریعت نے کسی خاص دن ، مقدار ، یا خاص جانور کی قید نہیں لگائی،اسی طرح صدقہ میں کسی جانور کے ذبح کرنے کی بھی شرط نہیں ۔
نفلی صدقات میں والدین اور قریبی عزیزوں کو مقدم رکھنا چاہیے، اس میں صلہ رحمی اور صدقہ دونوں کا ثواب ہے۔
نفلی صدقات مساجد کی ضروریات ، مدارس کی تعمیر وغیرہ میں دیئے جاسکتے ہیں ۔نفلی صدقات سے حاجت مند غیر مسلموں کی مدد کرنا جائز ہے۔جانوروں یا پرندوں کو گوشت وغیرہ ڈال کر اسے جان کا صدقہ سمجھنے کی کوئی اصل نہیں ، البتہ جانوروں کو کھلانا مطلقاً موجب اجر ہے ۔ پیشہ ور گداگروں کو نفلی صدقہ بھی نہیں دینا چاہیے،البتہ اگر کوئی مانگنے والا غالب گمان کے مطابق مستحق ہو تو اسے دینا درست ہے۔
نفلی صدقے سے آدمی خود بھی کھاسکتا ہے ، البتہ جتنا حصہ صدقہ کیاجائے ،وہ صدقہ ہوگا اور جتنا حصہ خود رکھا وہ صدقہ نہیں کہلائے گا۔نفلی صدقہ اگر کسی مالدار (صاحب نصاب)شخص کو دیاجائے تو یہ جائز ہے ، البتہ وہ صدقہ نہیں رہتا، بلکہ ہبہ بن جاتاہے۔ خیرات کے نام سے کیے جانے والے صدقہ میں سے جو کچھ فقراء ومساکین پر خرچ ہوگا وہ صدقہ ہوگا اور ثواب کا باعث ہوگااور جو مالداروں کے حصہ میں آیا ہوگا، وہ صدقہ شمارنہ ہوگا بلکہ ہدیہ ہوگا۔