پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی میں خفیہ اداروں نے کارروائی کر کے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک مبینہ دہشت گرد کو گرفتار کر لیا۔ جہاں ایک جانب اس جنگ میں پیش قدمی نظر آئی وہاں دوسری جانب اس پورے واقعے کو اسلامی جمعیت طلبہ سے منسوب کرکے جمعیت کی کردار کشی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یوں پچھلے بارہ سالوں سے افغانستان اور قبائلی علاقوں میں جاری جنگ کو بھول کر جمعیت مخالف عناصر پنجاب یونیورسٹی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درپے ہوگئے ہیں ۔حالانکہ دو مبینہ دہشت گرد یو ای ٹی لاہور سے بھی گرفتار ہوئے ہیں،جنہیں کسی خبر کا حصہ نہیں بنایا جارہا۔پنجاب یونیورسٹی سے گرفتار ہونے والا مبینہ دہشت گرد کون تھا؟ اُس کے مقاصد کیا تھے؟ اُس کا تعلق کہاں سے تھا؟ وہ کتنا مطلوب تھا؟ ان تمام سوالوں کو بالائے طاق رکھ کر سارے کا سارا الزام اسلامی جمعیت طلبہ پر تھوپ کر جمعیت کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر متعارف کرانے کی ایک گھٹیا کوشش کی گئی۔حقیقت تو یہ ہے کہ جمعیت کسی بھی خفیہ اور پاکستان مخالف سرگرمی میں نہ کبھی ملوث تھی اور نہ اب ملوث ہے اور یہ بات پاکستان کی عوام اور تمام خفیہ ادارے بخوبی جانتے ہیں۔ ملک بھر میں طلبہ سیاست کے لئے طلبہ یونین کے نام سے ایک ادارہ موجود تھا جس پر جنرل ضیاء الحق جیسے آمر نے آج سے 30سال قبل پابندی لگا دی تھی۔ طلبہ سیاست کے لئے یونین کا پلیٹ فارم نہ ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے آئین کی روشنی میں مختلف طلبہ تنظیمیں اپنے اپنے دستور اور ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہیں ۔اسی لئے کسی بھی تعلیمی ادارے کے اندر طلبہ تنظیم کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں بلکہ طلبہ کا یہ جمہوری حق ہے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا وجود ہمیشہ سے جمعیت مخالف قوتوں پہ ناگوار گزرا ہے اور حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کا یہ واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں کی انتظامیہ براہ راست اسلامی جمعیت طلبہ سے مدمقابل ہے اور پچھلے کئی سالوں سے صرف ایک ہی راگ الاپتی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے وجود کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنے جمعیت کے خلاف اس غیر قانونی اور غیر جمہوری موقف پر ڈٹا رہنے کے لئے ہر کچھ عرصے بعد اسلامی جمعیت طلبہ پر الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔اس مبینہ دہشت گرد کی گرفتاری کے واقعے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ استعمال کرکے میڈیا اور اپنے ہم خیال صحافیوں کے ذریعے جمعیت کے تشخص کو مجروح کر رہی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ پر پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ الزام لگاتی ہے کہ جمعیت نے پنجاب یونیورسٹی ہاسٹلز پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب ہر چند عرصے بعد پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے یہ موقف بھی پیش کیا جاتا ہے کہ موجودہ انتظامیہ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلبہ کو ختم کردیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئے روز پنجاب یونیورسٹی میں نیا تماشا کیوں رونما ہوتا ہے؟میں خود بھی پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہوں اور جمعیت کا ناظم بھی رہا ہوں۔ موجودہ وائس چانسلر صاحب سے جمعیت کا ایک دلچسپ تعلق موجود ہے، جب کبھی انہیں اپنے ناکام پہلو کو چھپانا ہوتا ہے تو کسی بھی واقعے کو جمعیت سے منسوب کر کے یونیورسٹی کی اندرونی سیاست کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں اور یوں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں ۔آج کل بھی وہ سنگین الزامات کی زد میں ہے۔ میں ان کا بڑا احترام کرتا ہوں بلکہ یونیورسٹی کی نظامت کے دوران ایک دفعہ ٹیچرز ڈے کے موقع پر ان کے دفتر میںجاکر پھول بھی پیش کر کے آیا اور خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی بعد ازاںشکریہ ادا کرنے وہ خود ہاسٹل نمبر 1تشریف لائے۔ میں ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ہاسٹل نمبر1کو یہ شرف بخشا اور اکثر یہ شرف بخشتے رہتے ہیں۔ ہاسٹل نمبر1 ماسٹرز اور ایم فل کے طلبہ کے لئے مختص ہے اور سینئر طلبہ یہیں مقیم ہوتے ہیں۔عموماً اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی کی نظامت سینئر طالب علم کے ہاتھ میں ہوتی ہے لہٰذا جمعیت کا کوئی نہ کوئی فرد یہاں مقیم ہی ہوتا ہے۔چونکہ مبینہ دہشت گرد کی گرفتاری اسی ہاسٹل سے ہوئی ہے لہٰذا اس واقعے کو جمعیت سے منسوب کرکے کہ جمعیت نے مبینہ دہشت گرد کو پناہ دی ہے ایک نئے کھیل کا آغاز کردیا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق جس کمرے سے مبینہ دہشت گرد کو پکڑا گیا اس کمرے کی الاٹمنٹ جس طالب علم کے نام پر ہے اُسے منظر عام پر لایا نہیں جا رہا جبکہ ایک طالب علم جسے جمعیت کا ناظم بنا کر پیش کیا جارہا ہے کو اس کمرے کا الاٹی قرار دیا جا رہا ہے جب کہ متعلقہ طالب علم ایوننگ پروگرام میں اپنی تعلیم بھی مکمل کر چکا ہے اور وہ کبھی بھی اس کمرے کا الاٹی نہیں رہا اور نہ ہی اس کا جمعیت کے ساتھ کوئی تعلق ہے جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق آفٹر نون اور ایوننگ کا کوئی بھی طالب علم ہاسٹل میں اپنی الاٹمنٹ نہیں کروا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ بغیر کسی تصدیق کے مبینہ طالب علم کی ہاسٹل میں الاٹمنٹ کا ڈھنڈورا کیوں پیٹ رہی ہے۔ دوسری جانب اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں نیو کیمپس اور اولڈ کیمپس ملا کر طلبہ کے لئے16اور طالبات کے لئے10ہاسٹلز موجود ہیں۔جن میں8000طلبا وطالبات کی گنجائش موجود ہے جبکہ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق 16000کے قریب طلبا اور طالبات جن کا تعلق اسی جامعہ سے ہے وہ ان ہاسٹلز میں موجود ہیں یوں پنجاب یونیورسٹی کے اپنے ہی طلبہ اپنی یونیورسٹی کی نااہلی کی وجہ سے نئے ہاسٹل نہ بننے کے سبب ان ہاسٹلز میں اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں کے ساتھ مقیم ہوجاتے ہیں اور یہ صورتحال پاکستان کی تمام یونیورسٹیز کی ہے۔اس طرح 8000طلبا اور طالبات پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز پر قابض ہیں ۔جنہیں اسلامی جمعیت طلبہ سے منسوب کردیا جاتا ہے۔موجودہ وائس چانسلر صاحب کے دورِ اقتدار میں 150کے قریب جمعیت کے ذمہ داران کو (EXPEL)کر دیا گیا۔جمعیت کے ذمہ داران کو بغیرکسی جواز اور عدالتی اور قانونی کارروائی کے بغیر ہی یونیورسٹی سے EXPELکر دیا گیا ان کے تعلیمی مستقبل کو تاریک بنانے کی تمام تر ذمہ داری وائس چانسلر صاحب پر عائد ہوتی ہے ۔ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں کسی بھی طلبہ تنظیم کے کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے جب کہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی کسی بھی سرگرمی کو سیاسی لیبل لگا کر اور غیر قانونی تنظیم کا تصور دے کر کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔جس کے لئے یونیورسٹی میں250سے زائد مسلح سیکورٹی گارڈز تعینات کئے گئے ہیں جب کہ خفیہ پولیس کے بھی کئی اہلکار موجود ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کے اندر پنجاب پولیس کی ایک باقاعدہ چوکی بھی موجود ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس سیکورٹی کا ہیڈ آفس پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر1 میں موجود ہے جو کہ چار کمروں پر مشتمل ہے اور وہ کمرہ جہاں سے اس مبینہ دہشت گرد کو گرفتار کیا گیا یونیورسٹی انتظامیہ کے سیکورٹی کے ہیڈ آفس کے بالکل سامنے موجود ہے۔ہاسٹل نمبر1 وہ واحد ہاسٹل ہے جس میں سپریٹنڈنٹ کا کوئی باقاعدہ آفس موجود نہیں اور یوں ہاسٹل سپریٹنڈنٹ کی نااہلی، سیکڑوں گارڈز کی موجودگی اور سیکورٹی ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے دہشت گرد کی موجودگی،اس کا قیام اور گرفتاری اور پنجاب یونیورسٹی میں نقص عامہ کے تمام جرم کو چھپانے کے لئے اس واقعے کو دوسرا رنگ دے کر جمعیت کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ ان تمام سیکورٹی گارڈز کی نگرانی کے لئے ایک بے ضرر قسم کے ریذیڈنٹ آفیسر(RO)موجود ہیں جو کہ وائس چانسلر صاحب کے بہت قریبی اور پنجاب یونیورسٹی میں اساتذہ کے ایک سیاسی گروپ کے سربراہ بھی ہیں۔پنجاب یونیورسٹی میں جاری یہ جنگ دراصل اساتذہ کے دو گروہوں کی آپس کی جنگ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کے دو روایتی گروہوں کے مقابلے میں وائس چانسلر صاحب کا اپنا سیاسی گروہ حکمران طرز کی زندگی گزار رہا ہے۔جن میں سے بیشتر سیاسی اساتذہ ایک سے زیادہ انتظامی عہدوں پر فائزہیں اور کسی بھی انتظامی عہدے میں کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آتے ہیں لہٰذا یونیورسٹی کا حکمران ٹولہ جنہیں سیاسی اساتذہ کہاجا سکتا ہے اپنی تمام تر نااہلی وقتاً فوقتاً اسلامی جمعیت طلبہ پر ڈال کراپنے اقتدار کو دوام بخشتے رہتے ہیں۔