• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں رہتے پوری زندگی گزر گئی۔ جب بھی کراچی سے باہر نکلے، کراچی والوں کی صفائیاں ہی دیتے رہے۔ پہلا الزام تو یہی رہا کہ کراچی والے مہمان نواز نہیں، وقت نہیں دیتے، پہچانتے نہیں، گھر جاؤ تو پہلے یہ پوچھتے ہیں کہ کب تک رکنے کا ارادہ ہے ؟ اور رات اگرقیام نہ کروانے کا ارادہ نہ ہو تو کہتے ہیں ’’ کھانا کھا کر جانا ‘‘۔

آج سے 25سال قبل ملتان سے بذریعہ بس کراچی آرہا تھا۔ رات کے وقت روانگی ہوئی۔ یونیورسٹی کے 2شستہ و مہذب طالب علم ساتھ والی نشستوں پر بیٹھے تھے۔ تعارف ہوا اور جب انہیں پتہ چلا کہ میں کراچی والا ہوں تو راستے بھر کراچی والوں سے متعلق پوچھتے رہے۔ سہراب گوٹھ آ گیا اور میں نے آنکھ تک نہ جھپکی۔ ان کی ایک ایک بات کا خندہ پیشانی سے جواب دیتا رہا۔

میں نے کہا کہ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔ اس لیے زندگی ایک لگے بندھے ٹائم ٹیبل کے تحت گزرتی ہے۔ آپ دبئی کی مثال لے لیں۔ گو کہ چھوٹی سی جگہ ہے لیکن اس کی زندگی کراچی سے بھی تیز تر ہے۔ دنیا کے تمام بڑے ترقی یافتہ شہر اسی صورت حال سے اور بھی زیادہ دوچار ہیں۔میں نے انہیں بتایا کہ بڑے شہروں میں محبت، خلوص، پیار اور مہمان نوازی کم نہیں ہوتی۔ وقت کی قلت پڑ جاتی ہے۔ چھوٹے شہروں میں فاصلے کم اور وقت زیادہ ہوتا ہے۔ میل ملاپ اور روز کی بیٹھکیں عام ہوتی ہیں۔ مہمان آجائے تو اس کی خاطر مدارات میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا جاتا۔ اتفاق دیکھئے جو لڑکے مجھے ملتان سے کراچی آتے ہوئے ملے۔ برسوں بعد ان میں سے ایک مجھے دوبارہ مل گیا۔ میں تو اسے نہ پہچان سکا لیکن وہ مجھے پہچان گیا۔ اپنا تعارف کرایا اور بہت سادگی سے اس دن کے سوالوں پر معذرت کرنے لگا، اس دن ہم نے آپ سے بہت تلخ سوالات کئے تھے لیکن آپ نے جس تحمل اور دلائل سے جواب دیے، ہمیں احساس تو ہو گیا تھا کہ جو کچھ ہم سوچتے اور سمجھتے ہیں سب کچھ ایسا نہیں۔ کافی کچھ پروپیگنڈا اور ہمارے ذہن کی اختراع بھی ہے۔اس دن اس کے اردو بولنے میں مقامی رنگ نمایاں تھا جس میں ایک الگ مزا تھا مگر آج اس کی اردو کراچی والی تھی ماسوائے چند الفاظ کے۔ میں نے کہا تمہاری اردو بہت صاف ہو گئی ہے۔

کہنے لگامجھے کراچی آئے4 سال ہو گئے ہیں۔ یہاں ملازمت کرتا ہوں۔ یقین جانیں گھر سے آفس اور آفس سے آنے جانے میں جان نکل جاتی ہے۔ گھر آنے کے بعد اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ کسی کے ہاں جایا جائے۔ میں نے کہا پھر کوئی مہمان آجائے تمہارے شہر سے تو ؟ نظریں جھکا کر کہنے لگا ’’سر جھوٹ نہیں بولوں گا۔ بس ایک کوشش ہوتی ہے کہ اس کی بہترین مہمان نوازی کروں مگر 2،تین گھنٹے سے زیادہ کی سکت نہیں ہوتی۔ سارا معاملہ وقت کا ہے‘‘۔میں نے کہا تو اب وہ وضاحتیں جو میں نے دی تھیں، کیا اب آپ بھی وہ پیش کرتے ہیں؟ بولا : ’’آپ سے کہیں زیادہ کرنی پڑتی ہیں لیکن وہ مانتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں تجھے کراچی کی ہوا لگ گئی ہے‘‘۔میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ’’ بڑے شہروں کے لوگ بڑے کشادہ و سادہ دل ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر الزام کا جواب بہت اطمینان و دلیل سے دیتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا’’گھر جانا ہوتا ہے ؟‘‘ کہنے لگا ’’ تہوار وغیرہ پر تو ضرور جاتا ہوں مگر تیسرے روز کی صبح ہی نکلنے کی سوچتا ہوں۔ گھر والے بہت روکتے ہیں مگر میری ملازمت تو پرائیوٹ ہے مجھے تو پہنچنا ہوتا ہے۔ اکثر شادی و فوتیگی میں بھی نہیں پہنچ پاتا‘‘۔ میں نے اسے بتایا کہ جس رات تم مجھے ملے تھے،میں اسی صبح ایک تدفین میں شرکت کے لیے ملتان پہنچا تھا۔ رات بھر کا جاگا تھا اور رات کو پھر بس میں سوار ہو گیا اور پوری رات کتنی دلجمعی اور اطمینان سے تمہارا ہر الزام سنتا رہا۔ کسی مرحلے پرتمہیں لگا کہ میں اکتا گیا ہوں۔ چاہتا تو آنکھیں موندھ کر سو جاتا۔ بس ایک بات یاد رکھنا بڑے شہر میں رہو تو دل بھی بڑا رکھو ورنہ تمہیں یہ سننے کو بھی ملے گا کہ کراچی والے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔ وہ مسکرا کر رہ گیا۔ میں نے اسے بتایا کہ باتیں تو ہم بھی بہت محسوس کرتے ہیں مگر کبھی زبان پر نہیں لائے۔ کراچی والے کبھی دوسرے شہر کے لوگوں پر الزام نہیں لگاتے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں جس فوتیگی پرگیا تھا۔ وہاں نماز جنازہ میں لوگوں کی شرکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کراچی والے اتنا شادی میں بن سنور کر نہیں جاتے جس طرح وہ سفید کڑک شلوار سوٹ میں تازہ تازہ شیو کر کے آئے تھے۔ کار والوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جنازے سے آگے اپنی شاندار کاریں کھڑی کردیں تاکہ ایک ایک شخص میت کے ساتھ ساتھ کاروں کو بھی دیکھ لے۔میں نے اسے بتایا کہصرف ٹی شرٹ تبدیل کی تھی اور اسی ٹی شرٹ اور جینز کی پینٹ کے ساتھ تمہیں ملا تھا۔ تصنع اور بناوٹ کی کھوٹ کراچی والوں میں مشکل سے ملے گی کیونکہ اس کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔میں نے جو خاص بات وہاں نوٹ کی وہ کراچی والوں کے عمومی مزاج کے بالکل خلاف تھی۔ وہاں سرکاری افسروں اور زمینداروں کو غیر ضروری اہمیت و عزت دی جارہی تھی۔ کراچی والے اس عادت سے بہت دور ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں آ کر تم میں کیا تبدیلی آئی ؟ ہنسا : اپنے کام میں اتنا مصروف رہتا ہوں کہ کہیں اور دھیان جاتا ہی نہیں۔ میں نے کہا : کیا بے حس ہو گئے ہو ؟ بولا : ایسا بالکل بھی نہیں۔جب ضرورت ہو تو محلے اور رشتے داروں سے رابطہ اور ملاقات ضرور کرتا ہوں۔ میں نے کہا ’’تم نے کبھی دیکھا اگر سڑک پر کوئی معمولی سا بھی حادثہ ہو جائے تو ذرا سی دیر میں کتنے موٹرسائیکل اور کاروں والے رک جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر الزام ہے کہ ان کے پاس وقت نہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ فلاحی ادارے موجود ہیں جو کسی سے کچھ نہیں پوچھتے اور سب کے لیے دست تعاون دراز کرتے ہیں‘‘۔اس کے بعد وہ چلا گیا اور کراچی کی بھیڑ میں کہیں گم ہو گیا۔

تازہ ترین