• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن مجید اوررسول اکرمﷺ کی تعلیمات وسیرت نے سکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اورکسی کو تکلیف نہ دے۔غریبوں ، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، اُن کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرنے کو کوشش کرے ،چند لمحوں کیلئے ہی سہی لیکن اُنہیں فرحت ومسرت اورشادمانی فراہم کرکے اُن کے درد والم اورحزن وملال کو ہلکا کرے۔ اُنہیں اگر مدد کی ضرورت ہوتو اُن کی مدد کرے اور وہ اگر کچھ نہ کرسکتاہو تو کم ازکم اُن کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے۔ اللہ کے پیارے حبیبﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ’’بہترین انسان وہ ہے جودوسرے انسانوں کے لیے نافع ومفید ہو‘‘۔

خدمتِ خلق کے اِس مفہوم کو ہر انسان نہیں سمجھ سکتا، لیکن جو سمجھ جاتا ہے اُسکی نہ صرف دنیا بلکہ آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ آج ہم کچھ ایسے لوگوں اور اُنکی خدمات کا ذکر کریں گے جنہوں نے اِس مفہوم کو صحیح معنوں میں سمجھا۔ خدمتِ خلق کے مفہوم کو سمجھنے والی پہلی شخصیت ڈاکٹر امجد ثاقب ہیںجنہیں حال ہی میں امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب نے 2001میں پاکستان میں غربت کے خاتمے کی جدوجہد کرنے کیلئے ادارہ ’اخوت‘قائم کیا۔ یہ ادارہ بلا سود قرضوں کے ذریعے غریبوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ چند سال قبل دس ہزار روپے کی معمولی رقم سے شروع کیا جانے والا یہ ادارہ آج 162 ارب روپے سے زائد کی رقوم غریب لوگوں کو قرضِ حسنہ کے طور پر فراہم کر چکا ہے۔ پاکستان کے ڈھائی سے تین کروڑ مستحق افراد اخوت کے قرضوں سے مستفید ہو چکے ہیں۔ یہ قرضے سائل کو کسی طویل تفتیشی مرحلے سے گزرے بغیر سادہ کاغذ پر تحریر کی ہوئی درخواست پر شخصی ضمانت پر جاری کئے جاتے ہیں۔ غربت کا خاتمہ اکیلے کسی حکومت یا کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے مطابق لوگوں کو بھکاری بنانے سے بہتر ہے کہ اُنہیں عزت اور وقار کیساتھ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب غربت کے خاتمے کیلئے اخوت کے ماڈل کو دنیا کے دیگر پسماندہ ملکوں تک توسیع دینا چاہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جو کوئی بھی اخوت کی طرح غریبوں کی مدد کرنا چاہے تو وہ اُسے بلا معاوضہ تربیتی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ اخوت سے قرضہ لینے والے 99.98 پاکستانی فیصد قرضے واپس کر رہے ہیں۔

خدمت خلق کے مفہوم کو سمجھنے والی دوسری شخصیت کا نام سید عامر جعفری ہے جو ایک سماجی شخصیت بھی ہیں اور ماہر تعلیم بھی، المعروف غزالی ٹرسٹ ان کی پہچان ہے اورانہیں حکومت کی طرف سے اُن کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیاہے۔اُن کا ادارہ پاکستان میں تعلیم کے میدان میں پچھلے 26 سال سے کم وسیلہ خاندانوں کے بچوں کی تعلیم کیلئے کوشاں ہے۔ ٹرسٹ کے تحت چاروں صوبوں کے دیہات میں 700 اسکول قائم ہیں جہاں ہزاروں یتیم و نادار، مستحق اور معذور بچوں کی تعلیمی کفالت کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں ٹرسٹ کو سالانہ 12 کروڑ روپے سے زائد کا بجٹ درکار ہوتا ہے۔ ایک بچے کی سالانہ تعلیمی کفالت کا خرچ صرف 20 ہزار روپے جبکہ ایک اسپیشل بچے کی تعلیمی کفالت کا خرچ 25 ہزار روپے سالانہ ہے۔ تعلیمی کفالت کی مد میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ان یتیم، مستحق اورمعذور بچوں میں کتابیں، کاپیاں، اسٹیشنری اور یونیفارم کی فراہمی جبکہ مختلف مواقعوں پر تحائف اور فوڈ پیکیج کی تقسیم یقینی بناتا ہے۔ یہ تمام امور مخیر حضرات کے عطیات سے پورے کئے جا رہے ہیں۔ فرح دیبا اکرم صاحبہ کا عالم بی بی ٹرسٹ بھی مستحق اور یتیم بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والا اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔ اپنی نوعیت کا واحد ادارہ اِس لیے کہ یہ2005میں ایک کرایے کی عمارت میں قائم ہوا اور گزشتہ 17برس میں ہزاروں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر چکا ہے۔

شاہد لون بھی اُن خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جو خدمت خلق کے مفہوم کو سمجھنے میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ شاہد لون صاحب نے 2021 میںاللہ والے ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا مقصد پاکستان میں مفلس اور مستحق لوگوں کو باعزت طریقے سے کھانا فراہم کرنا تھا۔ آج اُن کا یہ ادارہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلا رہا ہے۔ یہ ادارہ صرف لاہور کے سرکاری اسکولوں میں 23000بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر مفت کھانا فراہم کررہا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں بچوں کے داخلوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اِس ماہِ رمضان میں مستحق افراد میں خصوصی رمضان راشن پیکیج بھی شاہد لون صاحب کی سرپرستی میں تقسیم کیا گیا ہیں۔

پاکستان میں خدمت خلق کیلئے کام کرنے والوں اداروں کا تذکرہ کیا جائے اور الخدمت فائونڈیشن کی خدمات کو پس پشت ڈال دیا جائے، ایسا ممکن نہیں۔ الخدمت فائونڈیشن کا قیام 1990 میں عمل میں آیا اور آج یہ ادارہ تعلیم، صحت ، کفالتِ یتامیٰ، صاف پانی ، مواخات (بلا سود قرضوں کی فراہمی) ، سماجی خدمات اور آفات سے بچاؤ جیسے سات شعبہ جات میں بے مثال خدمات سر انجام دے رہا ہے۔اس وقت ملک بھر میں 150شہروں میں الخدمت فائونڈیشن کے دفاتر قائم ہیں۔الخدمت فائونڈیشن پاکستان میں رضا کاروں کا سب سے بڑا نیٹ ورک رکھنے والا ادارہ ہے یہی وجہ ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے وطن عزیز پر آنے والی ہر آفت کے سامنے ڈھال بن کر قوم کو سہارا دیا ہے۔کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ بھی ایک بے مثال ادارہ ہے جو چوہدری اختر کی سر پرستی میں آزاد کشمیر میں یتیم بچوں اور مستحق افراد کی فلاح وبہبود کا کام کر رہا ہے۔کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ مظفرآباد، میرپور، بھمبر، کھوئی رٹہ سمیت دور دراز علاقوں میں اپنی فلاحی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان میں جب تک الخدمت فائونڈیشن، عالم بی بی ٹرسٹ، کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ جیسے ادارے اور ڈاکٹر امجد ثاقب،سید عامر جعفری اور شاہد لون جیسی سماجی اور دردِ دِل رکھنے والی شخصیات موجود ہیں ، تب غربااور مستحق افراد کی داد رسی ہوتی رہے گی اور خدمتِ خلق کا یہ سفر یونہی جاری و ساری رہے گا۔

تازہ ترین