• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی انخلا کے بعد پڑوسی ملک افغانستان کے معاشی حالات نہایت ابتر ہیں، امریکہ نے افغانستان کے 9ارب ڈالر منجمد کردیئے ہیں جس سے افغانستان میں کھانے پینے کی اشیاء اور پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرنے کی صلاحیت نہیں رہی اور ملک کو سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے۔سری لنکا ،جو ہمارے ساتھ 1948ءمیں آزاد ہوا تھا، نے 12اپریل 2022ءکو زِرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور اپنے 51ارب ڈالر کے قرضوں میں سے 7ارب ڈالر کے قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث خود کو دیوالیہ قرار دے دیا جس سے 2 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک کے عوام کو بجلی، پیٹرول، غذائی اجناس، ادویات اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ سری لنکن کرنسی نہایت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے جس میں ایک سال کے دوران 100فیصد کمی آئی ہے۔ قرضوں کی ادائیگیوں اور تجارتی خسارے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں جس سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہوگئی ہے۔

سری لنکا کی معیشت کا 12 سے 13 فیصد انحصار سیاحت پر ہے۔ 2018ء میں تقریباً 23 لاکھ سیاحوں نے سری لنکا کا رخ کیا لیکن 21 اپریل 2019ء کو ایسٹر کے موقع پر ایک شدت پسند تنظیم کے خود کش دھماکے میں 243افراد کی ہلاکت کے بعدسری لنکا کی سیاحت کو شدید نقصان پہنچا جبکہ رہی سہی کسر کورونا وبا اور روس یوکرین جنگ نے پوری کردی۔ سری لنکا کی معیشت صرف سیاحت کے نقصانات سے دیوالیہ نہیں ہوئی بلکہ حکمرانوں کے غیر دانشمندانہ فیصلوں، کرپشن، ناقابل برداشت قرضوں اور موروثی سیاست نے بھی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سری لنکا، چین کا سب سے بڑا قرض نادہندہ ہے جس کے بعد جاپان اور بھارت کے قرضے ہیں۔ سری لنکا نے چین سے سخت شرائط پر قرضے لے کر Hamabantoda انٹرنیشنل پورٹ بنائی لیکن جب وہ 1.4 ارب ڈالر کا قرضہ واپس نہیں کرسکا تو اسے پورٹ چین کے حوالے کرنا پڑی۔

سری لنکا کے صدر کوٹابایا راجہ پکسے نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ VAT ٹیکس کم کردیں گے اور ملک میں آرگینک فوڈ کو فروغ دیں گے لیکن برسراقتدار آتے ہی سری لنکن صدر نے VAT ٹیکس میں کمی اور فرٹیلائزر کی امپورٹ پر پابندی لگادی جس سے ریونیو اور فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوئی اور سری لنکا کو ہماری طرح غذائی اجناس بھی امپورٹ کرنا پڑیں جس سے تجارتی خسارہ بڑھتا چلا گیا۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی بدانتظامی، ناقابلِ برداشت قرضے اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں نے بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔ انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے سری لنکا کی عالمی ریٹنگ کم کردی۔ زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ جانے پر حکومت نے بیرونی قرضوں اور حکومتی بانڈز کی عدم ادائیگی کے باعث دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے اور اب سری لنکا آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالر کا 3 سالہ بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

سری لنکا کی معیشت تباہ ہونے کی کچھ سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ کئی عشروںسے اقتدار صدر راجہ پکسے کے خاندان کی لونڈی ہے جو 2004ء میں وزیراعظم اور 2005ء میں سری لنکا کے صدر بنے۔ راجہ پکسے کے 3بھائی طویل عرصے سے اقتدار پر قابض ہیں، ایک بھائی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب وزیراعظم ہیں جب کہ تیسرے بھائی پارلیمنٹ کے اسپیکر اور کابینہ میں وزیر ہیں۔ حکومت پر گرفت مزید مضبوط کرنے کیلئے راجہ پکسے کے چوتھے بھائی کو وزیر خزانہ بنایا گیا ہے حالانکہ وہ دہری شہریت کے حامل ہیں جس کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی۔ سری لنکا میں موجودہ معاشی بحران اور صدر کے استعفے کے مطالبے کے باعث سری لنکا کی 26 رکنی کابینہ مستعفی ہوچکی ہے مگر صدر اور وزیراعظم سمیت چاروں بھائی اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔

خطے کے تیسرے اور 22کروڑ سے زائد آبادی والے ملک پاکستان کو بھی آج شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اورخدانخواستہ موجودہ حالات سری لنکا کی طرح سنگین ہوسکتے ہیں۔ سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کا 119فیصد ہوگئے تھے اور سری لنکا میں پاکستان کی طرح خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی طرح 502حکومتی اداروں پر بجٹ کا 20فیصد خرچ ہوجاتا تھا۔ ان اداروں میں بھی سیاسی بھرتیاں کی گئیں، سری لنکا بھی 26سال تک تامل ٹائیگرز کی وجہ سے خانہ جنگی اور دہشت گردی کی زد میں رہا۔ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم بھی وہی غلطیاں تو نہیں کررہے جو غلطیاں سری لنکا سے سرزد ہوئیں؟

پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں مقبولیت کیلئے ایمنسٹی اسکیم، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں کمی کرکے ملکی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا اور اب آئی ایم ایف نے ان غلط فیصلوں کو واپس لینے کو کہا ہے۔ زراعت کے شعبے کو نظر انداز کرکے ہم آج 9 ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کررہے ہیں جو پہلے ایکسپورٹ کرتے تھے۔ سستی متبادل انرجی کو نظر انداز کرکے ہم 14ارب ڈالر کے فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں جبکہ ہمارے بیرونی قرضے سری لنکا سے دگنے 102ارب ڈالر ہو چکے ہیں، سری لنکا کی طرح زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے جس سے افراطِ زر یعنی مہنگائی ،میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کو سری لنکا کی صورتحال سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ہمیں اختلافات کو طول دینے کے بجائے ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مل کران اختلافات کو ختم کرنا ہو گا تاکہ موجودہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین