• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہید ذوالفقار علی بھٹو کو جب اقتدار سے ہٹایا گیا تو تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش نہ صرف روتے نظر آئے بلکہ بہت سوں نے خود سوزیاں بھی کیں۔ دوسری طرف حال ہی میں عمران خان کو جمہوری طریقے سے اپوزیشن نے ہٹایا تو یہی محنت کش خوشیاں مناتے نظر آئے۔ عمران خان کے اقتدار میںکسی یوم مئی پر ملک کا محنت کش سکون کی نیند نہیں سو سکا۔ انہوں نے مزدوروں کابرا حشر کیا ہے۔ان کی حکومت میں بعض محکموں میں گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر مزدوروں کو جبری رُخصت دی گئی، ان کی حکومت نے ہر قومی ادارے میں مزدوروں کا استحصال جاری رکھا۔ مزدوروںکی کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ موجودہ تباہ کن معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بےروزگاری اور روپے کی گرتی ہوئی قدر سے پاکستان کا محنت کش طبقہ براہ راست متاثر ہو ا ہے ۔ عمران خان حکومت آنے کے بعد پاکستان کے مزدروں کے حالاتِ زندگی ناقابل بیان حد تک تنزلی کا شکار ہوئے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں نے مزدوروں کی زندگی میں خوشحالی لانے کے کسی منصوبے کا اب تک نہ اعلان کیا اور نہ اب تک ایسی کوئی کاوش نظر آئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں یوم مئی کے روز جلسے تو کرتی ہیں، شکاگو کے مزدوروں کو خراج عقیدت بھی پیش کرتی ہیں مگر مجال ہے کہ وہ پاکستان کے محنت کشوں کے لئے کوئی انقلابی اعلان کریں، پاکستان میں آج بھی مزدوروں کو علاج معالجے کی سہولت میسر نہیں، ان کے بچوں کوتعلیم دینا تو ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ایسا بھی کوئی پروگرام نظر نہیں آتا۔

مزدروں کے اوقاتِ کار آج بھی 16، 16 گھنٹے ہیں، ایسے بھی کارخانے ہیں جہاں مزدوروں کو ان 16 گھنٹے کی اُجرت کے بجائے 8 گھنٹے کی اُجرت دی جاتی ہے۔ کارخانے قتل گاہیں ہیں مزدوروں کی مگر اشرافیہ اور حکمرانوں نے ہمیشہ مزدوروں کےمفاد کے بجائے ان کارخانہ داروں کے مفاد کو مقدم رکھا، آج کی نسل کے محنت کشوں کویہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ یوم مئی ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے کیونکہ محنت کش طبقے کو کنفیوژکرنے کے لئے استحصالی حکمران بھی ان سے یکجہتی کا ڈرامہ رچاتے ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے کہ مزدوروں کے مفاد پر کاری ضرب لگانے والوں کو مزدوروں اور محنت کشوں کا درد ہو ، سرمایہ دارانہ نظام جو اس وقت اپنے عروج کی طرف بڑھ رہا ہے اورمحنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی چوسنے پر تلا ہوا ہے، اپنی تمام تر کوششیں اپنا منافع بڑھانے کے لئے کر رہا ہے نہ کہ مزدروں کی زندگی سہل بنانے کے لئے۔ ملک میں ایک ایسی قیادت حکومت میں ہے جو قومی قیادت ہے اور چاروں صوبوں سے تعلق رکھتی ہے اور پاکستان بھر کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس قیادت نے عمران خان کو ہٹاتے ہوئے قوم سے ایک وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات کرے گی۔ ملک کے محنت کش حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انتخابات کو اشرافیہ کا کھیل بنانے کی بجائے انتخابی اصلاحات کے ذریعے پارلیمنٹ میں کسانوں، مزدوروں، محنت کش خواتین اور مردوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے اور مزدوروں کے لئے ہر صوبے سے کم از کم چار مخصوص نشستیں قومی اسمبلی میں جبکہ دوسینیٹ اور دس مخصوص نشستیں ہر صوبائی اسمبلی میں مختص کی جائیں کیوں کہ موجودہ انتخابی نظام میں صرف سرمایہ دار، صنعتکار اور جاگیردار تو اسمبلیوں میں پہنچ سکتے ہیں مگر محنت کشوں کیلئےاسمبلیوں میں پہنچنا ناممکن ہے۔ قومی قیادت نے ہمیشہ مزدوروں کوفراموش کیا، ملک کی سب سے بڑی اکثریت اقلیت بن چکی ہے۔ وقت قومی قیادت سے تقاضاکرتا ہے کہ مزدوروں اور محنت کشوں کو سیاسی فیصلوں میں شامل کیا جائے یہ تب ہی ممکن ہے جب مزدور پارلیمان کا حصہ بنیں گے۔ ضروری ہے کہ جلد از جلد انتخابی اصلاحات کر کے مزدوروں کو پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی دی جائے تاکہ مزدور کی نمائندگی مزدور اور کسان کی نمائندگی کسان ہی کرے۔

تازہ ترین